بلال پاشا جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ علاقہ میں پیدا ہوا۔ والد دیہاڑی دار مزدور تھے۔ مالی حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے مسجد میں ہی قائم مکتب سے پرائمری پاس کی۔ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کا عالم سب پر عیاں ہے لہذا بلال پاشا نے بھی چھٹی جماعت سے اے بی سی پڑھنا شروع کی۔ انٹر میڈیٹ ایمرسن کالج ملتان اور بیچلر زرعی یو نیونیورسٹی فیصل آباد سے کیا۔
کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسجد سے پانچ جماعتیں کرنے والا بچہ کل کو پاکستان کے سب سے بڑامقابلے کا امتحان پاس کرکے سی ایس پی بن جائے گا۔
بلال پاشاکا تعلق غریب گھر سے تھا۔ اسے بھی یہ غماز تھا کہ ”بندہ خود ٹھیک ہونا چاہیئے” سسٹم تو سب ٹھیک ہوتے ہیں جیسی اصطلاح کے ابہام کا شکارتھا۔افسر نیک ہوں تو سب ٹھیک ہو جائیگا۔ وہ بھی ان نوجوانوں میں سے تھا جو سمجھتے ہیں کہ پہلے بندہ خود ٹھیک ہو پھر سب ٹھیک ہو جاتا ھے،نظام سب ٹھیک ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی سوچ بھی لوئر مڈل اور مڈل کلاس کے پڑھے لکھے سیلف میڈ نوجوانوں کی طرح تھی کہ ”جب آپ ترقی کر جائینگے تو دنیا آپ کی محتاج ہوگی”۔ ”پیسہ ھے تو سب کچھ ھے”۔ وغیرہ وغیرہ۔
وہ آفیسر بن کے ملک سدھارنے کی دھن میں مبتلا ایک نوجوان جو زندگیاں چھیننے والے سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کو نہ سمجھنے کی اذیت کے ہاتھوں زندگی ہار گیا۔
وہ جس خوبصورت سوچ کا مالک تھا اس کے تخیل کی پرواز اس کے بابا ٖخواجہ غلام فرید کوٹ مٹھن شریف کی ایک کافی پر تبصرہ سے اندازہ لگا سکتے ہیں جسے وہ وضاحت سے بیان کررہاتھا اور وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی۔
مارکسی کہاوت ھے کہ ”جو طبقہ حکمران ہوتا ھے خیالات بھی اسی کے حکمران ہوتے ہیں ”۔ آج کل چونکہ سماج پر سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کی حکمرانی ھے تو خیالات کی حکمرانی بھی اسی نظام کی چل رھی ھے۔
یہی حال AC، DC، جج اور جرنیل بن کر سدھرنے کے خواب دیکھنے کی ذلتوں بھری زندگی گذار دینے کا ہے کہ جن کے ذریعہ راتوں رات پلازے کھڑے ہوتے ہیں یا بڑی بڑی کوٹھیاں اور لش پش کرتی گاڑیاں آناً فاناً مقدر بنتی ہیں۔ سو ان حالات اور خیالات کا شکار ہو کر عموماََ غریب انسان کی اولاد اسی ڈگر پر چل نکلتی ہے۔
ایسے میں جن کے جبڑوں کو غریبوں کے لہو کا ذائقہ بھا جاتا ھے تو اس کے ٹھاٹھ باٹھ اور جس میں انسانیت کی کچھ رمق ہوتی ھے۔ جب اس کے سامنے خود ٹھیک ہو کر سماج سدھارنے کے فلسفے کی قلعی کھلتی ھے پھر اس نظام کے اندر رہ کے اسے درست کرنے کے انجام کی کوئی شکل بنتی ھے تو بس ایسی کہ جیسے بلال پاشا دردناک انجام سے دوچار ہوا۔بلال پاشا کا غربت سے CSS اور پھر داعی اجل کو لبیک کہہ دینے تک کا سفر ایک عجیب داستان ہے اس نے کیریئر کا آغاز ایک پرائیویٹ نوکری سے کیا۔ لیکن والد کی خواہش پر گورنمنٹ سروس میں آیا اور پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی ہوگیا۔ بعد ازاں مختلف سرکاری اداروں میں سولہویں اور سترہویں سکیل کی ملازمت کرتے ہوئے 2018 ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہوا۔
بلال پاشا نے اپنے بیک گراؤنڈ کو چھپانے کی بجائے اپنے سفید داڑھی والے مزدور باپ کے ساتھ کھڑے ہوکر انٹرویو دیا اور پاکستان کے ان نوجوانوں میں امید کی شمع جلائی جو سی ایس ایس پاس کرنے کو صرف ایلیٹ کلاس سے منسوب کرتے تھے۔
سلسلہ چل نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں نوجوان سی ایس ایس کے خواب آنکھوں میں سجائے اس سفر پر گامزن ہونے لگے۔ اس نے ایک بڑے گھرانے کی لڑکی جو سی ایس ایس آفیسر تھی سے شادی کرلی۔لڑکی کا تعلق چونکہ بڑے گھرانے سے تھا اس لئے وہ بلال پاشا کے خاندان خصوصاََ اس کے والد کو حقارت کی نظر سے دیکھتی تھی اور اس نے بلال پاشا کو ہر لمحہ اس کی غربت کے طعنے دئیے۔اس کو اس کے دوستوں کے سامنے سخت سست کہتی اوربلال پاشا کی افسری کا رعب تو اس نے ایک ماہ میں ہی نکال دیا اور اب بلال پاشاکے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو اپنے اس بوڑھے باپ سے اعلان لاتعلقی اختیار کرلیتا یا پھر اس سی ایس ایس آفیسر لڑکی کو طلاق تو اس نے وہی کیا جو کوئی غیرت مند بیٹا کردار ادا کرسکتاتھا تو اس نے اس لڑکی کوشادی کے چھ ماہ بعد ہی طلاق دے دی لیکن اس لڑکی اور خاندان نے بلال پاشا کا تعاقب کرنا نہ چھوڑا اور اسے نشان عبرت بنانے میں جُت گئے۔ہر لمحہ بلال پر دباؤ بڑھاتے چلے گئے اور یوں جس طرح انڈین اداکار عرفان خان مرحوم نے کیا زبردست جملہ بولا تھا کہ
”جب ہم جیسوں کے دن آتے ہیں موت بیچ میں ٹپک پڑتی ہے”۔
بلال پاشا کی زندگی کی شروعات ہوئی تھی اور موت نے آن دبوچ لیا۔ بلال کی موت کی وجہ بس ایک ہی تھی۔۔ سول سروس میں ملنے والا ڈپریشن جو اس کے سابقہ سسرال کی طرف سے آرہاتھا اس لئے وہ جس سے بھی بات کرتا یہی کہتا کہ وہ یا تو نوکری چھوڑ دے گا یا خودکشی کرلے گا۔یہ اس لئے بھی کہ بلال ایک حساس سوچ کا حامل ایک زندہ ضمیر انسان تھا جو سسٹم کے بار غلامی کو نہ سہہ سکا۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے ” جس کی طلب میں تڑپ رہے ہو، وہ مل بھی بھی گیا تو کیا کرو گے”۔ یا پھر چارلس بکوسکی سے نے کہا تھا ” ڈھونڈو اسے جس سے تم محبت کرتے ہو تاکہ وہ تمہیں مارسکے”۔ بلال کو بھی سی ایس ایس کرنے نے مار دیا۔ لہذا سی ایس ایس ایسی چیز نہیں ہے جس کی خاطر جان سے بھی ہاتھ دھویا جائے۔ ہر سال 17 فیصد بیوروکریٹ اپنی نیلی بتی اور سبز نمبر پلیٹ کو اللہ حافظ کہتے ہوئے استعفے دے دیتے ہیں۔ بلال بھی یہی کہتا تھا ” یہ لوگ بتی اور سبز نمبر پلیٹ دیکھتے ہیں لیکن میرے اندر نہیں دیکھتے”۔غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق انکو cardiac arrest ہوا جو کہ جان لیوا ثابت ہوا.
اب ہر رات بلال کے باریش والد کے لئے بہت بھاری ہے۔ جب اس نے اپنے ناتواں ہاتھوں سے اپنے لخت جگر کے سونے جیسے جسم کو سپرد خاک کیا۔ وہ رات بہت طویل تھی۔۔ بہت کٹھن۔۔ ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ رات تو گزر گئی لیکن اس کے مزدور باپ کی سحر نہیں ہوئی۔ اس کا باریش باپ گلیوں گلیوں صدائیں لگاتا ہوا اسی مسجد کے صحن میں پہنچتا ہے جہاں سے بلال نے اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ لیکن۔۔۔ اب کی بار وہ میسر نہیں ہوتا۔ اُسے وحشت نظر آئے گی۔۔ لیکن بلال کہیں نظر نہیں آئے گا۔۔۔ وہ اس نیلی بتی۔۔۔ سبز نمبر پلیٹ۔۔۔ اور اس سماج کے خودساختہ معیار سے بہت دور جاچکا ہے۔ اب کی بار وہ لوٹ کے نہیں آئے گا۔
—♦—
عامر شہباز ہاشمی سینئر صحافی ہیں ۔جنرل ضیاء الحق اورجنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف جدوجہد میں عملی کردار اداکیا۔ وہ پی ایس ایف پنجاب کے طالب علم راہنما رہے بعد میں عملی سیاست میں متحرک رہے ۔ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں ۔فکری حوالے سے اسلامک سوشلسٹ ہیں۔۔۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
بلال پاشا جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ علاقہ میں پیدا ہوا۔ والد دیہاڑی دار مزدور تھے۔ مالی حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے مسجد میں ہی قائم مکتب سے پرائمری پاس کی۔ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کا عالم سب پر عیاں ہے لہذا بلال پاشا نے بھی چھٹی جماعت سے اے بی سی پڑھنا شروع کی۔ انٹر میڈیٹ ایمرسن کالج ملتان اور بیچلر زرعی یو نیونیورسٹی فیصل آباد سے کیا۔
کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسجد سے پانچ جماعتیں کرنے والا بچہ کل کو پاکستان کے سب سے بڑامقابلے کا امتحان پاس کرکے سی ایس پی بن جائے گا۔
بلال پاشاکا تعلق غریب گھر سے تھا۔ اسے بھی یہ غماز تھا کہ ”بندہ خود ٹھیک ہونا چاہیئے” سسٹم تو سب ٹھیک ہوتے ہیں جیسی اصطلاح کے ابہام کا شکارتھا۔افسر نیک ہوں تو سب ٹھیک ہو جائیگا۔ وہ بھی ان نوجوانوں میں سے تھا جو سمجھتے ہیں کہ پہلے بندہ خود ٹھیک ہو پھر سب ٹھیک ہو جاتا ھے،نظام سب ٹھیک ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی سوچ بھی لوئر مڈل اور مڈل کلاس کے پڑھے لکھے سیلف میڈ نوجوانوں کی طرح تھی کہ ”جب آپ ترقی کر جائینگے تو دنیا آپ کی محتاج ہوگی”۔ ”پیسہ ھے تو سب کچھ ھے”۔ وغیرہ وغیرہ۔
وہ آفیسر بن کے ملک سدھارنے کی دھن میں مبتلا ایک نوجوان جو زندگیاں چھیننے والے سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کو نہ سمجھنے کی اذیت کے ہاتھوں زندگی ہار گیا۔
وہ جس خوبصورت سوچ کا مالک تھا اس کے تخیل کی پرواز اس کے بابا ٖخواجہ غلام فرید کوٹ مٹھن شریف کی ایک کافی پر تبصرہ سے اندازہ لگا سکتے ہیں جسے وہ وضاحت سے بیان کررہاتھا اور وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی۔
مارکسی کہاوت ھے کہ ”جو طبقہ حکمران ہوتا ھے خیالات بھی اسی کے حکمران ہوتے ہیں ”۔ آج کل چونکہ سماج پر سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کی حکمرانی ھے تو خیالات کی حکمرانی بھی اسی نظام کی چل رھی ھے۔
یہی حال AC، DC، جج اور جرنیل بن کر سدھرنے کے خواب دیکھنے کی ذلتوں بھری زندگی گذار دینے کا ہے کہ جن کے ذریعہ راتوں رات پلازے کھڑے ہوتے ہیں یا بڑی بڑی کوٹھیاں اور لش پش کرتی گاڑیاں آناً فاناً مقدر بنتی ہیں۔ سو ان حالات اور خیالات کا شکار ہو کر عموماََ غریب انسان کی اولاد اسی ڈگر پر چل نکلتی ہے۔
ایسے میں جن کے جبڑوں کو غریبوں کے لہو کا ذائقہ بھا جاتا ھے تو اس کے ٹھاٹھ باٹھ اور جس میں انسانیت کی کچھ رمق ہوتی ھے۔ جب اس کے سامنے خود ٹھیک ہو کر سماج سدھارنے کے فلسفے کی قلعی کھلتی ھے پھر اس نظام کے اندر رہ کے اسے درست کرنے کے انجام کی کوئی شکل بنتی ھے تو بس ایسی کہ جیسے بلال پاشا دردناک انجام سے دوچار ہوا۔بلال پاشا کا غربت سے CSS اور پھر داعی اجل کو لبیک کہہ دینے تک کا سفر ایک عجیب داستان ہے اس نے کیریئر کا آغاز ایک پرائیویٹ نوکری سے کیا۔ لیکن والد کی خواہش پر گورنمنٹ سروس میں آیا اور پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی ہوگیا۔ بعد ازاں مختلف سرکاری اداروں میں سولہویں اور سترہویں سکیل کی ملازمت کرتے ہوئے 2018 ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہوا۔
بلال پاشا نے اپنے بیک گراؤنڈ کو چھپانے کی بجائے اپنے سفید داڑھی والے مزدور باپ کے ساتھ کھڑے ہوکر انٹرویو دیا اور پاکستان کے ان نوجوانوں میں امید کی شمع جلائی جو سی ایس ایس پاس کرنے کو صرف ایلیٹ کلاس سے منسوب کرتے تھے۔
سلسلہ چل نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں نوجوان سی ایس ایس کے خواب آنکھوں میں سجائے اس سفر پر گامزن ہونے لگے۔ اس نے ایک بڑے گھرانے کی لڑکی جو سی ایس ایس آفیسر تھی سے شادی کرلی۔لڑکی کا تعلق چونکہ بڑے گھرانے سے تھا اس لئے وہ بلال پاشا کے خاندان خصوصاََ اس کے والد کو حقارت کی نظر سے دیکھتی تھی اور اس نے بلال پاشا کو ہر لمحہ اس کی غربت کے طعنے دئیے۔اس کو اس کے دوستوں کے سامنے سخت سست کہتی اوربلال پاشا کی افسری کا رعب تو اس نے ایک ماہ میں ہی نکال دیا اور اب بلال پاشاکے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو اپنے اس بوڑھے باپ سے اعلان لاتعلقی اختیار کرلیتا یا پھر اس سی ایس ایس آفیسر لڑکی کو طلاق تو اس نے وہی کیا جو کوئی غیرت مند بیٹا کردار ادا کرسکتاتھا تو اس نے اس لڑکی کوشادی کے چھ ماہ بعد ہی طلاق دے دی لیکن اس لڑکی اور خاندان نے بلال پاشا کا تعاقب کرنا نہ چھوڑا اور اسے نشان عبرت بنانے میں جُت گئے۔ہر لمحہ بلال پر دباؤ بڑھاتے چلے گئے اور یوں جس طرح انڈین اداکار عرفان خان مرحوم نے کیا زبردست جملہ بولا تھا کہ
”جب ہم جیسوں کے دن آتے ہیں موت بیچ میں ٹپک پڑتی ہے”۔
بلال پاشا کی زندگی کی شروعات ہوئی تھی اور موت نے آن دبوچ لیا۔ بلال کی موت کی وجہ بس ایک ہی تھی۔۔ سول سروس میں ملنے والا ڈپریشن جو اس کے سابقہ سسرال کی طرف سے آرہاتھا اس لئے وہ جس سے بھی بات کرتا یہی کہتا کہ وہ یا تو نوکری چھوڑ دے گا یا خودکشی کرلے گا۔یہ اس لئے بھی کہ بلال ایک حساس سوچ کا حامل ایک زندہ ضمیر انسان تھا جو سسٹم کے بار غلامی کو نہ سہہ سکا۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے ” جس کی طلب میں تڑپ رہے ہو، وہ مل بھی بھی گیا تو کیا کرو گے”۔ یا پھر چارلس بکوسکی سے نے کہا تھا ” ڈھونڈو اسے جس سے تم محبت کرتے ہو تاکہ وہ تمہیں مارسکے”۔ بلال کو بھی سی ایس ایس کرنے نے مار دیا۔ لہذا سی ایس ایس ایسی چیز نہیں ہے جس کی خاطر جان سے بھی ہاتھ دھویا جائے۔ ہر سال 17 فیصد بیوروکریٹ اپنی نیلی بتی اور سبز نمبر پلیٹ کو اللہ حافظ کہتے ہوئے استعفے دے دیتے ہیں۔ بلال بھی یہی کہتا تھا ” یہ لوگ بتی اور سبز نمبر پلیٹ دیکھتے ہیں لیکن میرے اندر نہیں دیکھتے”۔غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق انکو cardiac arrest ہوا جو کہ جان لیوا ثابت ہوا.
اب ہر رات بلال کے باریش والد کے لئے بہت بھاری ہے۔ جب اس نے اپنے ناتواں ہاتھوں سے اپنے لخت جگر کے سونے جیسے جسم کو سپرد خاک کیا۔ وہ رات بہت طویل تھی۔۔ بہت کٹھن۔۔ ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ رات تو گزر گئی لیکن اس کے مزدور باپ کی سحر نہیں ہوئی۔ اس کا باریش باپ گلیوں گلیوں صدائیں لگاتا ہوا اسی مسجد کے صحن میں پہنچتا ہے جہاں سے بلال نے اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ لیکن۔۔۔ اب کی بار وہ میسر نہیں ہوتا۔ اُسے وحشت نظر آئے گی۔۔ لیکن بلال کہیں نظر نہیں آئے گا۔۔۔ وہ اس نیلی بتی۔۔۔ سبز نمبر پلیٹ۔۔۔ اور اس سماج کے خودساختہ معیار سے بہت دور جاچکا ہے۔ اب کی بار وہ لوٹ کے نہیں آئے گا۔
—♦—
عامر شہباز ہاشمی سینئر صحافی ہیں ۔جنرل ضیاء الحق اورجنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف جدوجہد میں عملی کردار اداکیا۔ وہ پی ایس ایف پنجاب کے طالب علم راہنما رہے بعد میں عملی سیاست میں متحرک رہے ۔ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں ۔فکری حوالے سے اسلامک سوشلسٹ ہیں۔۔۔