مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس 1930 میں الہٰ آباد میں منعقد ہوا جس میں علامہ اقبال نے اپنے صدارتی خطبہ میں مسلم خطوں پر مشتمل فیڈریشن کی بات کی تھی جو بعدازاں نظریہ پاکستان کی اوّلین نشترگاہ بنا۔
اس جلسے کے بعد اقبال کے بہت سے عقیدت مند پڑھے لکھے نوجوان اس بارے میں مزید جاننے کے لئے علامہ کے پاس حاضر ہوئے اور سوال کیا مسلم صوبوں کے فیڈریشن سے کیا مراد ہے۔
شہاب سرمدی بیان کرتے ہیں کہ ہم چار نوجوان الگ سے علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا آخر وہ کونسی خصوصیت ہے جس کے تحفظ کے لئے آپ نے یہ فیڈریشن والا حل سوچا ہے؟
اقبال نے اس پر گول مول لفظوں میں جواب دیا شاید وہ پوری طرح سمجھانا نہیں چاہتے تھے لیکن آخر کے چند جملوں نے ان کے خیالات کی نشاندہی کردی ۔۔اقبال نے فرمایا:
"دیکھو یہ پنڈت موتی لال نہرو ہیں نا۔۔۔۔اُردو ان کے گھر کی زبان ہے۔ فارسی پر اتنا عبور رکھتے ہیں۔۔۔کوئی فرق ان کے اور تمہارے بڑوں کے کلچر میں نظر آتا ہے۔۔ ؟؟ کوئی نہیں۔۔۔لیکن غور کرو انہوں نے اپنے دو بنگلے بنوائے تو نام آنند بھون اور سوراج بھون رکھا۔۔۔سوچو جو لوگ ان کے بعد آئیں گے ان سے کیا اُمید رکھی جائے”
سبق:
اندازہ کیجئے اس معاملے میں سوچنے کا انداز یہ تھا اکابر کا!
فارسی کی بات کی جائے تو فارسی زبان اور فارسی دان بیسویں صدی کے وسط تک ویسے ہی ناپید ہوگئے تھے اقبال کے پاکستان سے۔۔۔۔فارسی مضموں اب صرف بی اے کے بچے اچھے نمبروں میں پاس ہونے کے لئے رکھتے ہیں اور امتحان سے ایک دن پہلے تیاری کرتے ہیں۔
اُردو یا اس کے تحفظ کی بات کی جائے تو یہ نہرو خاندان کی زبان تو تھی مگر اقبال کی مادری زبان نہ تھی۔۔۔۔پھر اُردو کی جو تحقیر اقبال کے خوابی وطن میں ہوئی ۔۔ہورہی ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
آخری بات بطور ایک سیاستدان کے اقبال کی ذہنی سطح کے حوالے سے ہے کہ انہیں گھروں کے ہندی نام رکھنے سے تو خوف ہوا۔۔مگر اپنے بچے کے لئے جو جرمن آیا رکھی ہوئی تھی اور جس طرح مغر بی تہذیب میں پروان چڑھ رہا تھا وہ اس کی کبھی فکر نہیں ہوئی حالانکہ سوراج بھی اور سوراج بھون نام بھی مغربی آیا سے کہیں زیادہ بہتر تھا۔
—♦—
مخدوم عدیل عزیز لاہور سے تعلق رکھتے ہیں۔ نوجوان محقق اور لکھاری ہیں۔ آپ اکثر تاریخی، علمی اور تحقیقی مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس 1930 میں الہٰ آباد میں منعقد ہوا جس میں علامہ اقبال نے اپنے صدارتی خطبہ میں مسلم خطوں پر مشتمل فیڈریشن کی بات کی تھی جو بعدازاں نظریہ پاکستان کی اوّلین نشترگاہ بنا۔
اس جلسے کے بعد اقبال کے بہت سے عقیدت مند پڑھے لکھے نوجوان اس بارے میں مزید جاننے کے لئے علامہ کے پاس حاضر ہوئے اور سوال کیا مسلم صوبوں کے فیڈریشن سے کیا مراد ہے۔
شہاب سرمدی بیان کرتے ہیں کہ ہم چار نوجوان الگ سے علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا آخر وہ کونسی خصوصیت ہے جس کے تحفظ کے لئے آپ نے یہ فیڈریشن والا حل سوچا ہے؟
اقبال نے اس پر گول مول لفظوں میں جواب دیا شاید وہ پوری طرح سمجھانا نہیں چاہتے تھے لیکن آخر کے چند جملوں نے ان کے خیالات کی نشاندہی کردی ۔۔اقبال نے فرمایا:
"دیکھو یہ پنڈت موتی لال نہرو ہیں نا۔۔۔۔اُردو ان کے گھر کی زبان ہے۔ فارسی پر اتنا عبور رکھتے ہیں۔۔۔کوئی فرق ان کے اور تمہارے بڑوں کے کلچر میں نظر آتا ہے۔۔ ؟؟ کوئی نہیں۔۔۔لیکن غور کرو انہوں نے اپنے دو بنگلے بنوائے تو نام آنند بھون اور سوراج بھون رکھا۔۔۔سوچو جو لوگ ان کے بعد آئیں گے ان سے کیا اُمید رکھی جائے”
سبق:
اندازہ کیجئے اس معاملے میں سوچنے کا انداز یہ تھا اکابر کا!
فارسی کی بات کی جائے تو فارسی زبان اور فارسی دان بیسویں صدی کے وسط تک ویسے ہی ناپید ہوگئے تھے اقبال کے پاکستان سے۔۔۔۔فارسی مضموں اب صرف بی اے کے بچے اچھے نمبروں میں پاس ہونے کے لئے رکھتے ہیں اور امتحان سے ایک دن پہلے تیاری کرتے ہیں۔
اُردو یا اس کے تحفظ کی بات کی جائے تو یہ نہرو خاندان کی زبان تو تھی مگر اقبال کی مادری زبان نہ تھی۔۔۔۔پھر اُردو کی جو تحقیر اقبال کے خوابی وطن میں ہوئی ۔۔ہورہی ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
آخری بات بطور ایک سیاستدان کے اقبال کی ذہنی سطح کے حوالے سے ہے کہ انہیں گھروں کے ہندی نام رکھنے سے تو خوف ہوا۔۔مگر اپنے بچے کے لئے جو جرمن آیا رکھی ہوئی تھی اور جس طرح مغر بی تہذیب میں پروان چڑھ رہا تھا وہ اس کی کبھی فکر نہیں ہوئی حالانکہ سوراج بھی اور سوراج بھون نام بھی مغربی آیا سے کہیں زیادہ بہتر تھا۔
—♦—
مخدوم عدیل عزیز لاہور سے تعلق رکھتے ہیں۔ نوجوان محقق اور لکھاری ہیں۔ آپ اکثر تاریخی، علمی اور تحقیقی مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT