نظریاتی ہم آہنگی شاذ و نادر ہی اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ کسی نے ہر مسئلے پر خوب غور و فکر کیا ہوا ہے؛ اکثر پتا یہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس بارے زرا سوچ و بچار نہیں کی ہوتی ۔
بہت کم لکھاری ایسے ہوں گے جنھوں نے جارج آرویل کی طرح تضادات سے بھرا تصنیفی کام کیا ہوگا- اس کا دوست ایس وی پرچیٹ جو ادبی نقاد بھی تھا، نے اس کے بارے میں کہا؛
‘اس کے جیسے پراگندہ، منتشر اور تضاد سے بھرےشخص کو اچھے سے جاننا بہت مشکل تھا’
ایسا نظر آتا تھا جیسے اس نے اپنی زندگی کو اس حد تک کئی خانوں میں بانٹ رکھا تھا کہ اس کے دوست بھی اس کی پوری شخصیت کو دیکھنے سے محروم ہوگئے۔ دوسری عالمی جنگ کے ایک ہوم گارڈ ساتھی رکن کو یہ جاننے میں کئی ماہ لگ گئے کہ وہ بائیں بازو کا ادیب ہے۔ اپنے ایک اور دوست سے وہ بس بکریوں ااور گدھوں کے بارے باتیں کرتا تھا-
بہت کم مصنفین نے جارج آرویل کی طرح تضاد سے ۔ ان کے دوست ادبی نقاد وی ایس پرچیٹ نے ان کے بارے میں کہا کہ "ایسے بھٹکے ہوئے اور متضاد شخص کو اچھی طرح جاننا ناممکن تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو تقسیم کر دیا ہے، یہاں تک کہ دوستوں کو بھی ان کی پوری شخصیت کو دیکھنے سے روک دیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے ہوم گارڈ کے ایک ساتھی رکن کو کئی مہینوں کے بعد ہی احساس ہوا کہ وہ بائیں بازو کے مصنف ہیں۔ ایک اور دوست سے، وہ بکریوں اور گدھوں کے علاوہ کچھ نہیں کہتا تھا۔
ڈی جے ٹیلر نے ‘آرویل: دا نیو لائف’ میں جو کام کیا ہے وہ آرویل کے بہت سارے تضادات کو ایک ساتھ رکھ کو اس کی شخصیت کا ایک خاکہ سامنے لانا ہے ۔ ان میں سے شاید سب سے اہم بات تضاد یہ تھا کہ آرویل انگریزی انقلابیت/ریڈکل ازم کی سب سے مستند آواز تھا لیکن اپنے ‘مزاج/ ٹمپرامنٹ کے اعتبار سے قدامت پرست تھا—– ایک ‘بوہمین ٹوری ‘(ایسا شخص جو برطانوی قدامت پرست پارٹی ٹوری کے ساتھ اپنی شناخت رکھے لیکن اس کی زندگی غیر روایتی، فنکارانہ طرز زندگی کی مظہر ہو) جیسا اس کا دوست رچرڈ ریس اسے کہا کرتا تھا- اس کی پہلی بیوی ‘ایلین بلیئر’ نے کہا تھا:
‘دی لائن اور یونیکورن’ کا خلاصہ ایک جملے میں یوں کیا جاسکتا ہے ‘ایک ٹوری ہوتے ہوئے سوشلسٹ/ اشتراکی کیسے ہوا جاتا ہے’.
["دی لائن اور یونیکورن: سوشلزم اینڈ دی انگلش جینیئس ” دوسری جنگ عظیم کے ابتدائی حصے کے دوران جارج اورویل کا لکھا ہوا ایک توسیعی مضمون ہے۔ یہ پہلی بار 1941 میں شائع ہوا تھا. اس مضمون میں ، اورویل نے برطانیہ کی حالت ، اس کے معاشرتی ڈھانچے ، اور جنگ کے دوران درپیش چیلنجوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔]
آرویل کو ملٹن کا فقرہ "قدیم آزادی کے معروف اصولوں کے مطابق” پسند آیا لیکن ملٹن کے برعکس —- سوشلسٹ ریپبلکن سپاہی—- آرویل نے کہا کہ اگر وہ انگریزی خانہ جنگی کے دوران زندہ رہتا تو وہ ریپبلکن گول ہیڈ کے بجائے رائلسٹ کیولیر بننا پسند کرتا کیونکہ مؤخر الذکر "بہت بدتمیز لوگ” تھے۔
جیسا کہ ٹیلر کہتا ہے ،
”اس کے کام میں زیادہ تر ایسے لمحات آتے ہیں جب اس کے عقیدے اس کی پرورش سے ٹکراتے ہیں: ہاؤس آف لارڈز کو ختم نہ کرنے پر ایٹلی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا اور ساتھ ہی اپنے گود لیے گئے بیٹے کو پبلک اسکول میں داخل کرانے جیسا واقعہ اس کے س ساتھ شاذ و نادر ہی پیش آیا ہوگا”۔
اگر اورویل کی نثر کی طاقت ہر مسئلے کے دونوں پہلوؤں کو دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے، تو یہ ٹیلر کی کامیابی ہے کہ اس نے اس کی پرورش سے اورویل کے اعتقادات کو بڑی خوبصورتی سے نتھی کیا ہے۔
اشراف زادے سے سوشلسٹ ہونے تک
اورویل کی ٹیلر کی سوانح حیات مصنف کے بارے میں لکھی گئی بہت سی دوسری دستیاب سوانح عمریوں سے مختلف ہے ، یہ اپنے دلچسپ انداز کی بدولت جو مصنف کے اپنے موضوع کے لئے واضح جوش و خروش کی عکاسی کرتی ہے اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے
آورویل کی طرح ، ٹیلر کہانی سنانے کے فن میں مہارت رکھتا ہے ، خاص طور پر کہانیوں کی واضح تصویر کشی میں۔ ٹیلر کی تحریر کے سب سے جاندار پہلوؤں میں سے ایک وہ ہے جہاں اورویل کھانا پکانے کی ترجیحات کی کھوج میں دکھائی دیتا ہے – ایک قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ آورویل نے ایک بار انگریزی کھانا پکانے کا دفاع کرتے ہوئے ایک کالم لکھا تھا۔
ٹیلر لکھتا ہے،
‘ایلین ایک بار رات بھر کے گھر سے باہر گئی اور اوون میں آرویل کے لیے ‘شیفرڈز پائی’ (معروف برطانوی ڈش) چھوڑ کر کئی جبکہ فرش پر ایل مچھلی بلی کے لیے چھوڑ کر گئی اور جب گھر واپس ائی تو اس نے دیکھا کہ آرویل نے ‘ایل مچھلی’ کھالی تھی- آرویل شوق سے ایسی خوراک بھی چٹ کرجایا کرتا تھا جو لندن میں رہنے والے راشن کی تلاش میں لور لور پھرنے والے بھی اپنی پلیٹوں میں خوشی خوشی چھوڑ جایا کرتے تھے اور ایسی کئی کہانیاں ہیں آرویل کی-
فلیٹ اسٹریٹ میں انارکسٹ مضمون نگار جارج ووڈکوک کے ساتھ دوپہر کے کھانے کے دوران، جس میں اُبلے ہوئے کوڈ اور شلجم اتنے خراب تھے کہ ووڈکوک نے انہیں واپس باورچی خانے میں بھیج دیا، آرویل نے اپنے پیٹ کو تھپتھپاتے ہوئے کہا، "میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ایک ساتھ اتنے مزیدار لگیں گے”۔
آرویل کی ہرکتاب کا ذہنی مزاج ‘پیر کی خوفناک صبح’ کی طرح کیوں ہوتا تھا اور وہ ہفے کی زندہ شام جیسا کیوں نہیں ہوتا تھا؟ مثال کے طور پر اس کی کتاب ‘دی روڈ ٹو وی گان پئیر’ کے بارے میں یہ تبصرہ کیا گیا کہ آرویل نے کان کنوں کے کام کی جگہ پر زندگی کو تو خوب بیان کیا لیکن ان کی سماجی زندگی کو بالکل ہی نظر انداز کردیا- پوری کتاب میں کہیں کان کن کسی کلب، پب میں نظر نہیں آتے، نہ کہیں کوئی سپورٹس کھیلتے نظر آتے اور نہ ہی موسیقی سے لطف اٹھاتے دکھائی دیتے۔ ایک نقاد نے کہا تھا کہ ایسے لگتا تھا جیسے اس کا اس حقیقت کی طرف دھیان ہی نہیں گیا کہ کام کرنے والے لوگ تفریح بھی کرسکتے ہیں۔
آرویل کو اعلیٰ زندگی سے کوئی محبت نہیں تھی۔ یقینا ایک ایسے شخص کے لئے جو فرش سے بلی کا کھانا کھانے کے بارے میں کچھ نہیں سوچتا ہے ، عمدہ شراب کو ترک کرنا آسان ہے ، بلکہ کسی کو یہ تاثر ملتا ہے کہ آرویل کی پیورٹن ازم کا کم از کم ایک حصہ محض دکھاوے کے لئے تھا۔ وہ دوستوں کو سرعام تنقید کا نشانہ بنانے سے زیادہ کچھ بھی پسند نہیں کرتا تھا اگر وہ سوچتا تھا کہ وہ مہنگی چیزوں سے بہت زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ایک موقع پر اس نے اپنے ایک دوست کو ملامت کی کہ اس نے ‘کڑوا پنٹ’ کے بجائے ‘بیئر کا گلاس’ منگوایا اور اس طرح خود کو محنت کش طبقے کی زبان میں ناکافی تعلیم یافتہ ثابت کیا۔ جب دوست نے جواب دیا کہ وہ آخر کار متوسط طبقے کا ہے تو ، اورویل نے کہا کہ "اس پر فخر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے”۔ لیکن جیسا کہ ٹیلر لکھتے ہیں ، اورویل کو خود اس وقت پتہ چلا جب وہ اپنے دوست پیٹر وانسیٹارٹ کو فلیٹ اسٹریٹ پر دوپہر کے کھانے پر لے گیا:
آرویل نے اسے بتایا کہ اس طرح کے لہجے اور اس طرح کی ٹائی کے ساتھ تمہیں محنت کش طبقے کے افراد اپنے میں سے نہیں سمجھیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مشورے بہت صائب لگ رہے تھے لیکن صورت حال اس وقت تبدیل ہوگئی جب ڈھابے کے مالک نے ڈرنک کے اگلے آڈر کے لیے آکر وینسٹارٹ کو ‘پیٹر’ اور آرویل کو ‘سر’ کہہ کر مخاطب کیا-
انگریز کے انداز میں ‘طبقہ’ بارے جنون رکھنے والے آرویل نے دعویٰ کیا کہ اس کا تعلق ‘نچلے متوسط طبقے ‘ سے ہے ۔ اس کا کہنا تھا اس کا خاندان ‘درمیانے طبقے’ کے آخری کمزور کنارے پر زندگی بسر کررہا تھا(جو کسی وقت بھی غربت کے دہانے میں گرسکتا تھا) – بلکہ اس نے یہ دعوا ‘ کان کنوں کی برادری بارے اپنی کلاسک کتاب میں کیا تھا، جہاں اس کی کوشش تھی کہ اس کا تعلق کسی اچھے کھاتے پیتے پوش گھرانے سے نہ لگے
کاہلی نے اورویل کو آکسفورڈ جانے سے روک دیا۔ جب ان کے ایٹن کے ہم جماعت پروست پڑھ رہے تھے، تو انہوں نے انیسویں صدی کے کلاسیکی ناولوں کو پڑھا۔ وہ ایک ارل (برطانوی طبقہ اشراف کے خطابات میں سے ایک ) کے سڑپوتے تھے ، حالانکہ جیسا کہ ٹیلر نے نوٹ کیا ہے ، کہ ارل "اشراف خون والے خوبصورت نہیں تھے بلکہ ایک وقت مین برسٹل تاجر تھے جنہوں نے باسٹھ سال کی عمر میں اپنے بے اولاد دوسرے کزن سے یہ لقب وراثت میں حاصل کیا تھا۔ اس کی فیملی مالی طور پر متوسط طبقے میں چلی گئی تھی۔ اس کا تعلق ایک ایسے سماجی ماحول سے تھا جہاں لوگ شکار کرتے تھے اور ان کے پاس گھریلو ملازم ہوتے تھے، لیکن عملی طور پر اس کا خاندان اتنا کمزور تھا کہ وہ ایسا کرنے کے قابل نہیں تھا۔ اس کے بجائے، ان کا پیسہ ظاہری شکل برقرار رکھنے میں چلا گیا۔ اورویل نے نوٹ کیا کہ یہی وجہ ہے کہ ان کے حالات میں بہت سے لوگ کالونیوں میں خدمات انجام دیتے تھے۔ وہاں کوئی بھی سستے پر ایک شریف آدمی ہونے پر کھیل سکتا تھا۔
ٹیلر کا کہنا ہے کہ اورویل اپنے بارے میں افسانے گھڑنے کا ماہر تھا اور سب سے زیادہ مستقل افسانوں میں سے ایک اس کی غربت کے بارے میں تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اورویل، جب اس نے برما شاہی پولیس چھوڑی تھی، تو وہ نقد رقم کے لئے کافی تنگ تھے۔ لیکن ان کی غربت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر کرسٹوفر ہچنز کا کہنا تھا کہ اورویل کی موت ‘ڈکنزین ڈیتھ’ کی وجہ سے ہوئی جو اتنی غریب تھی کہ تپ دق کے لیے نئی ادویات حاصل کرنے کے لیے امریکہ کا سفر نہیں کر سکتی تھی۔ درحقیقت، لیبر پارٹی کے اینورین بیون، جو اس وقت کے وزیر صحت تھے، نے ذاتی طور پر اورویل کے علاج کے لئے اسٹریپٹومائسن کی درآمد کو یقینی بنانے میں مدد کی۔
آرویل کی مالی حالت میں بڑا سدھار 1941ء میں بی بی سی جوائن کرنے سے آیا- اور جب اس کا ناول ‘اینمل فارم’ شایع ہوا تو وہ کافی امیر ہوگیا- اپنی مالی حالت مین بڑا سدھار آنے کے باوجود اسے اکثر ‘مقصد’ پر تنقید کرکے ‘مال کمانے’ کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا تھا- یہاں تک کہ جب اس کا بٹوہ خالی نہیں تھا ، تب بھی این کے ویی کے ایجنٹ ہانس پیٹر سمولکا جیسوں نے اسے منافع کمانے سے روکنے کی کوشش کی اور اس کے ناول اینمل فارم کی اشاعت سے روک کر یہ کوشش کی گئی-
پھر بھی ، اپنی زندگی کے آخر تک اورویل اتنا سختی کا شکار نہیں تھا جتنا اس کی تیار کردہ تصویر نے کسی کو یقین کرنے پر مجبور کیا ہوگا۔ وہ اپنے خستہ حال کارڈوروئے سوٹ میں اسمارٹ کاک ٹیل پارٹیوں میں شرکت کرتا تھا- ، لیکن ہر کوئی واضح طور پر دیکھ سکتا تھا کہ اسے ایک مہنگے درزی نے کاٹا تھا۔ انھوں نے پیرس اور لندن میں ڈاؤن اینڈ آؤٹ میں کبھی یہ ذکر نہیں کیا کہ ان کی خالہ اس ہوٹل سے چند بلاک کے فاصلے پر رہتی تھیں جہاں وہ مبینہ طور پر بھوکے تھے۔ اور وہ یہ بھی بتانا بھول گیا کہ وہ صرف ایک شخص کے طور پر کام کرنے تک محدود تھا کیونکہ ایک طوائف نے اس کا پرس چھین لیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ غربت ان کے ڈرامائی انداز کے عین مطابق تھی: انہوں نے ایک بار لکڑی کے لیے اپنے بیٹے کے کھلونے کاٹ دیے تھے، جس سے ان کے ایک دوست کو بہت زیادہ دھچکا لگا، گویا وہ لکھنا چاہتا تھا، ”1945-6 کے موسم سرما میں حالات اتنے خراب ہو گئے تھے۔
آرویل کو خدا پر کوئی یقین نہیں تھا لیکن وہ شدید طور پر توہم پرستی کا شکار تھا – اپنے کندھے پر نمک پھینکرہا تھا، زنجیروں سے مشورہ کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ، وہ انگریزی عبادات کا احترام کرتے تھے اور 30 کی دہائی میں باقاعدہ گرجا گھر جاتے تھے۔ مجھے ٹیلر کی سوانح حیات پڑھنے سے پہلے معلوم نہیں تھا کہ وہ معاصر مذہبی تنازعات سے غیر معمولی طور پر واقف تھے ، اور جیسا کہ ٹیلر نے تبصرہ کیا ، انہوں نے بلاسفیمی پر سخت اعتراض کیا۔ یقینا، آرویل کسی بھی طرح سے واحد کافر نہیں تھا جس نے مسیحی شاعری کو متحرک پایا، لیکن اس نے معاشرے کے ایمان کے خاتمے کو مطلق العنانیت کے بڑھتے ہوئے خطرے سے جوڑا۔
اپنی زندگی کے آخری دن انہوں نے سوچا: "کیا ہم مردوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں اگر وہ اب خدا پر ایمان نہیں رکھتے ہیں؟” انہوں نے امید ظاہر کی کہ سوشلزم معاشرے کو متحد رکھ سکتا ہے، لیکن اگر یہ ناکام ہو جاتا ہے، تو مذہب کا نقصان فاشزم کا باعث بنے گا۔ ان کے دوست میلکم مغریج نے انہیں یقین دلایا کہ "طاقت کی عبادت کا جدید فرقہ جدید انسان کے احساسات سے جڑا ہوا ہے کہ یہاں اور اب کی زندگی ہی وہاں کی واحد زندگی ہے۔ اس طرح اورویل نے اس راستے پر چلنا شروع کر دیا جس پر ہر قدامت پسند "ثقافتی مسیحی” عمل کرے گا۔
کسی کو توقع ہو سکتی تھی کہ "ناخوشگوار حقائق کا سامنا کرنے کی طاقت” پر اپنے مشہور یقین کے ساتھ اورویل نے سوشلسٹوں کی یہ لائن اختیار کی ہوگی کہ انقلاب کو جنگ جیتنے تک ملتوی کرنا ہوگا ، لیکن اس کے بجائے انہوں نے ٹراٹسکی کے زیر اثر پی او یو ایم (مارکسی اتحاد کی ورکرز پارٹی) کا ساتھ دیا۔ آورویل نے سوویت یونین پر الزام عائد کیا کہ اس نے اپنے ناقدین کو قتل کرکے ہسپانوی انقلابی روح سے غداری کی۔ "کاتالونیا کو خراج عقیدت” ایک انتہائی بے باک اور جرآت مندی کا اظہار کتاب تھی۔ اس نے افسوس ناک طریقے سے فروخت کیا ، لیکن اس کے باوجود اس نے اورویل کو اسٹالنسٹوں کی نفرت حاصل کی۔ پبلشر وکٹر گولنز نے اسے شائع کرنے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اگرچہ وہ سوویت یونین کے بارے میں آرویل کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں ، لیکن اسے سیاسی دائیں بازو کی طرف سے پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ توہین آمیز ہے؟ یقیناً. لیکن گولنز نے درست کہا تھا کہ جمہوریہ کی شبیہ کو سیاہ کرنے کے لئے اس کا آلہ کار بنایا جائے گا۔ یہ ہمیشہ اس نظریے کو تقویت دینے کے لئے حوالہ دیا جاتا ہے کہ ہسپانوی خانہ جنگی دو یکساں طور پر برے مطلق العنان فریقوں کے درمیان لڑی گئی تھی۔
کاتالونیا کو خراج عقیدت ہسپانوی خانہ جنگی پر اب تک سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ اکثر واحد کتاب ہے جو لوگ اس موضوع پر پڑھتے ہیں۔ ظاہر ہے، یہ اورویل کی غلطی نہیں ہے۔ لیکن جب لوگ کہتے ہیں کہ اورویل نے ہسپانوی خانہ جنگی کو "صحیح” قرار دیا ہے، تو وہ اس بات پر توجہ دینے میں ناکام رہتے ہیں کہ کاتالونیا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے خود اس تنازعہ یا اس کے مضمرات کے عوامل کے بارے میں بہت کم کہا گیا تھا. اسپین میں ایک غیر ملکی لڑاکا کے لئے یہ کیسا تھا، اس کی رپورٹنگ کے طور پر، ویریم کامل کے قریب ہے، لیکن اورویل کے پاس اس سے بڑی تصویر نہیں تھی: مثال کے طور پر، اس نے بارسلونا مئی ڈے کو مکمل طور پر غلط سمجھا. تاہم ، ہسپانوی جمہوریہ کی طرف سے کیے جانے والے ہر جرم کے باوجود ، وہ اب بھی اس کے ساتھ رہا۔ انہوں نے کہا، "سوال بہت سادہ ہے”:
کیا عام آدمی کو کیچڑ میں دھکیل دیا جائے گا یا نہیں؟ میں خود بھی شاید ناکافی بنیادوں پر یقین رکھتا ہوں کہ عام آدمی جلد یا بدیر اپنی لڑائی جیت جائے گا، لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہ جلد اور بدیر ہو – اگلے سو سالوں میں کچھ وقت، کہتے ہیں، اور اگلے دس ہزار سالوں میں کچھ وقت نہیں۔ ہسپانوی جنگ کا اصل مسئلہ یہی تھا۔
یہ اقتباس کلاسیکی آرویل ہے۔ زبان تیز ہے۔ استعارہ زبردست ہے۔ آرویل کی پسندیدہ خوبی "عام شائستگی” کی دعوت ہے۔ اور سب سے بڑھ کر، یہ اصرار ہے کہ چیزیں ان سے کہیں زیادہ آسان ہیں. دانشور لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہر مسئلہ پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے، لیکن اورویل کا تعلق متنازعہ پمفلٹ لکھنے والوں کی روایت سے تھا، جو اس بات کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے کہ وہ غلط بیانی کو ختم کریں۔ اس روایت کے بارے میں کچھ کہنا ضروری ہے۔ کیا ہر کوئی نہیں جانتا کہ جب دانشور کسی چیز کی "پیچیدہ تاریخ” کی بات کرتے ہیں تو وہ ہمیں جبر کے سامنے خاموش رہنے کی دعوت دینے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں؟ دوسرے لفظوں میں یہ دانشوروں پر منحصر ہے کہ وہ وقتا فوقتا کمزور ی کا مظاہرہ کریں۔ لیکن اورویل کو اینٹی انٹلیکچولزم کے الزام سے مکمل طور پر پاک نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے مشہور کہا تھا کہ کچھ چیزیں اتنی احمقانہ ہوتی ہیں کہ ان پر صرف دانشور ہی یقین کر سکتے ہیں۔ اور اس نے دعوی کیا کہ ایک ملاح کو کھانا چوری کرتے ہوئے دیکھنا اسے مٹھی بھر سوشلسٹ پمفلٹس سے کہیں زیادہ سکھایا – یہ اچھا لگتا ہے جب تک کہ کوئی یہ نہ پوچھے کہ اس نے کیا سیکھا ہے ، جس وقت یہ احمقانہ لگتا ہے۔
تاہم ، ٹیلر یقینی طور پر درست ہے جب وہ کہتا ہے کہ اورویل کے معمولات ایک مقصد کی خدمت کرتے ہیں۔ ٹیلر کا کہنا ہے کہ "اورویل کی تحریر کی اشتعال انگیزی ان کی سب سے بڑی خوبیوں میں سے ایک ہے، جو بالکل درست ہے۔ ٹیلر کا کہنا ہے کہ پرچیٹ نے "ایک نمونے کے جملے کا معائنہ کرتے ہوئے، جس کا آغاز ‘یہ بلا شبہ سچ ہے’، تبصرہ کیا کہ اس کے بجائے متضاد بیان کے بارے میں سب سے اچھی بات ناقابل تردید سچائی کا تصور تھا۔ اورویل نے اپنی نثر کو ٹیلر کے جملے میں "عجیب و غریب عمومیت” سے بھر دیا، جیسے کہ یہ جملہ کہ "تمام تمباکو نوش فاشسٹ ہیں”، لیکن وہ شاید اتنے عجیب نہیں ہیں جتنے وہ نظر آتے ہیں:
ایک سطح پر یہ محض ایک طرح کی افواہ ہے، ایک مصنف آپ کو کسی ایسی چیز کے ساتھ مسئلہ اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے جس کے ساتھ واضح طور پر مسئلہ اٹھانے کے قابل ہے، لیکن اس میں کچھ دھوکہ دہی بھی ہے، کام میں ایک گہرے مقصد کا اشارہ ہے. جیسا کہ مغریج نے کہا، جب تمباکو نوشی کرنے والے تمام افراد کے فاشسٹ ہونے کے بارے میں لائن کا سامنا ہوتا ہے، تو آپ اسے ہاتھ سے خارج کر دیتے ہیں، صرف یہ سوچتے ہیں کہ کیا اس قبیلے میں کوئی عجیب بات نہیں ہے جو اپنی ڈیوٹی شاپ کاؤنٹرز کے پیچھے گھوم رہے ہیں۔
چھوٹے کاروباری مالکان، یقینا، فاشسٹ جماعتوں کے لئے سماجی اڈوں میں سے ایک رہے ہیں، اور اورویل، اپنے عام طور پر اشتعال انگیز انداز میں، اس موقع پر کھیل کود کے ساتھ چھیڑنے کا ایک طریقہ تھا۔
اسپین کے تجربے نے اورویل کو بنیادی شکل دی۔ ٹیلر لکھتے ہیں کہ ‘وہ سیاسی طور پر سادہ لوح تھے اور کچھ دھوکہ دہی سے مایوس ہو کر واپس آئے تھے لیکن انہوں نے یہ بھی طے کیا تھا کہ جس عوامی آئیڈیلزم کا وہ حصہ رہے ہیں اسے ان کے اپنے ملک کی سیاست میں برآمد کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، یہ بات اہم تھی کہ وہ جنگ سے واپس آنے کے بعد صرف ایک سیاسی جماعت – آزاد لیبر پارٹی – میں شامل ہوئے۔ وہ اسپین جانے سے پہلے بائیں طرف تھا ، لیکن وہاں وہ ایک مناسب سوشلسٹ بن گیا: اس نے یہ دیکھ کر سیکھا کہ اسپین میں سوویت یونین کے جرائم کی تاریخ کو کس طرح غلط ثابت کیا گیا تھا۔ مختصر یہ کہ یہ اسپین میں تھا کہ وہ اسٹالنسٹ کے خلاف پرعزم بن گیا۔ تاہم ، اس کا مطلب یہ تھا کہ آرویل کے لئے بائیں طرف ان کا قدم بولشیوزم کے خلاف تھا جو کبھی کبھار بدصورت شکل اختیار کرلیتا تھا۔
میرے خیال میں اس روشنی میں ہمیں ان کی نام نہاد "فہرست” کو دیکھنا چاہیے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں، جب ان کے پھیپھڑے ٹوٹ چکے تھے، اورویل سے ان کی پرانی شعلہ سیلیا کروان نے رابطہ کیا، جو اس وقت انفارمیشن ریسرچ ڈپارٹمنٹ (آئی آر ڈی) میں ملازم تھیں، جو مشرقی یورپ میں سوویت اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے دفتر خارجہ کی پروپیگنڈا تنظیم تھی۔ کیا وہ ان لوگوں کے نام بتا سکتے ہیں جن کے بارے میں وہ کمیونسٹ مخالف پمفلٹ لکھنے کے لیے موزوں نہیں سمجھتے؟ فطری طور پر، وہ کر سکتا تھا: اس نے ریس کو ایک نوٹ بک لانے کے لئے بھیجا جس میں کرپٹو کمیونسٹوں اور ساتھی مسافروں کی فہرست تھی جسے وہ "تازہ ترین” لانا چاہتا تھا۔ اس واقعہ کو اکثر اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ اورویل ایک سرکاری مخبر تھا ۔
تاہم ٹیلر اس طرح کے الزامات کو ‘بکواس’ قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ "ایک ایسی دنیا میں اس طرح کے مجموعے کی ضرورت تھی، جیسا کہ سیلیا نے ایک بار یاد کیا تھا، قریبی چائنا ڈیسک پر ان کا ایک ساتھی کوئی اور نہیں بلکہ گائی برگس تھا، برطانوی سفارت کار جسے بعد میں سوویت ڈبل ایجنٹ کے طور پر دریافت کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ، "فہرست میں شامل زیادہ تر لوگوں کو خاموشی سے ایک ایسی نوکری سے باہر رکھا جا رہا تھا جو ان کی سیاسی ہمدردیوں نے انہیں کام کرنے سے نااہل کر دیا تھا۔ اور اس فہرست میں اس کی اصل کا نشان ہے، جیسا کہ ریس کے الفاظ میں ، "ایک قسم کا کھیل جو ہم نے کھیلا – یہ معلوم کرنا کہ کون کس چیز کا معاوضہ لینے والا ایجنٹ تھا اور اندازہ لگانا کہ ہمارے پسندیدہ بیٹس کس حد تک خیانت کرنے کے لئے تیار تھے۔ فہرست میں شامل زیادہ تر افراد اورویل کے ذاتی جاننے والے نہیں تھے بلکہ عوامی شخصیات جیسے چارلی چیپلن یا اسکاٹش مارکسسٹ شاعر ہیو میک ڈئیرمڈ تھے ، اور صرف ایک اورویل پر سوویت جاسوس ہونے کا الزام تھا ، اسمولٹ ، یقینا جاسوس تھا۔ باقی لوگوں کے ساتھ نیو اسٹیٹس مین کے ایڈیٹر کنگزلے مارٹن کی طرح سلوک کیا گیا: "اتنا بے ایمان کہ مکمل طور پر ‘کرپٹو’ نہیں ہو سکتا۔
یہ این کے وی ڈی کی تفتیشی حکمت عملی سے بالکل موازنہ نہیں ہے۔ پھر بھی، میں شاید ٹیلر سے کم واضح ہوں گا. اورویل کو نہیں معلوم تھا کہ آئی آر ڈی اس معلومات کو کس طرح استعمال کرے گا، اور ہمیں اس فہرست میں شامل لوگوں کے لئے صحیح نتائج سیکھنے کا امکان نہیں ہے: ہم شاید ہی دفتر خارجہ ہمیں بتائیں گے کہ آیا انہوں نے کسی کی نگرانی کی ہے یا اس کی وجہ سے کسی اور کا ویزا منسوخ کیا ہے۔ اور جب سرکاری طور پر کسی نئے مخبر کو بھرتی کیا جاتا ہے، تو وہ پہلے اسٹیم کو ہر ممکن حد تک آرام دہ محسوس کرتے ہیں – اس سلسلے میں، پارلر گیم نوٹ بک مکمل طور پر عام ہے. اور پھر بھی، یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اورویل کبھی ایک مناسب مخبر بن جائے گا کیونکہ وہ خفیہ، سرکاری پوچھ گچھ کے سخت مخالف تھا. انہوں نے خود کو فریڈم ڈیفنس کمیٹی میں شامل کیا ، جس نے کمیونسٹ ہمدردی کے شبہ میں سرکاری ملازمین کے تحفظ کے لئے مہم چلائی: انہوں نے دلیل دی کہ خفیہ اداروں کی طرف سے فراہم کردہ کسی بھی معلومات کو اس وقت تک استعمال نہیں کیا جانا چاہئے جب تک کہ تصدیق نہ ہو ، مخالف گواہوں کو جرح کے لئے کھلا ہونا چاہئے ، اور ملزم کے پاس ہر وقت وکیل یا یونین کا نمائندہ ہونا چاہئے۔
اسپین میں آرویل کا وقت ایک اور تضاد کی عکاسی کرتا ہے: وہ ایک طرف پختہ انگریز تھا، یہاں تک کہ صوبائی طور پر بھی، جبکہ دوسری طرف وہ حقیقی طور پر بین الاقوامی تھا۔اس نے اسپین کا سفر کیا ، لیکن لندن واپس آنے کے بعد ہی اس نے ہسپانوی ثقافت یا تاریخ کے بارے میں کچھ بھی سیکھنے کی زحمت اٹھائی۔
وہ کاسموپولیٹن لندن کے مقابلے میں برطانوی بیک واٹر میں کہیں زیادہ خوشی سے رہتا تھا۔ وہ انگریزطرز زندگی کو پسند کرتا تھا اس کے عجیب و غریب رسم و رواج اور روایات کے ساتھ: سستی چائے مناسب طریقے سے تیار کی جاتی تھی، مقامی ڈبوں کے ساتھ پب. پھر بھی وہ ایک چوتھائی فرانسیسی تھا اور اسے روانی سے بولتا تھا۔ مزید برآں ، جب اس نے برمی امپیریل پولیس میں خدمات انجام دیں تواس نے کچھ مقامی زبانیں سیکھیں۔ لیکن کالونیوں میں اپنے وقت کے علاوہ ، اسنے اپنی تقریبا پوری زندگی انگلینڈ میں گزاری۔
وہ امریکی ثقافت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار رہا، جس طرح سے وہ انتہائی نازیبا لیکن فحش انداز میں تھے جو وسط صدی کے یورپ میں بہت عام تھا۔ میرے خیال میں یہ حقیقت ہے کہ اورویل ایک صوبائی بین الاقوامی شخصیت تھے جس کی وجہ سے سیاسی بائیں بازو اور دائیں بازو دونوں کے لیے ان کی طرف سے ان کا دعویٰ کرنا اتنا آسان ہو گیا ہے۔
نوٹ: نیچے جیکوبن سے اصل مضمون کا لنک دیا گیا ہے، جو کہ انگریزی زبان میں ہے۔ ⇓
https://jacobin.com/2023/10/george-orwell-class-britain-spanish-civil-war-nineteen-eighty-four
جواب دیں جواب منسوخ کریں
نظریاتی ہم آہنگی شاذ و نادر ہی اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ کسی نے ہر مسئلے پر خوب غور و فکر کیا ہوا ہے؛ اکثر پتا یہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس بارے زرا سوچ و بچار نہیں کی ہوتی ۔
بہت کم لکھاری ایسے ہوں گے جنھوں نے جارج آرویل کی طرح تضادات سے بھرا تصنیفی کام کیا ہوگا- اس کا دوست ایس وی پرچیٹ جو ادبی نقاد بھی تھا، نے اس کے بارے میں کہا؛
‘اس کے جیسے پراگندہ، منتشر اور تضاد سے بھرےشخص کو اچھے سے جاننا بہت مشکل تھا’
ایسا نظر آتا تھا جیسے اس نے اپنی زندگی کو اس حد تک کئی خانوں میں بانٹ رکھا تھا کہ اس کے دوست بھی اس کی پوری شخصیت کو دیکھنے سے محروم ہوگئے۔ دوسری عالمی جنگ کے ایک ہوم گارڈ ساتھی رکن کو یہ جاننے میں کئی ماہ لگ گئے کہ وہ بائیں بازو کا ادیب ہے۔ اپنے ایک اور دوست سے وہ بس بکریوں ااور گدھوں کے بارے باتیں کرتا تھا-
بہت کم مصنفین نے جارج آرویل کی طرح تضاد سے ۔ ان کے دوست ادبی نقاد وی ایس پرچیٹ نے ان کے بارے میں کہا کہ "ایسے بھٹکے ہوئے اور متضاد شخص کو اچھی طرح جاننا ناممکن تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو تقسیم کر دیا ہے، یہاں تک کہ دوستوں کو بھی ان کی پوری شخصیت کو دیکھنے سے روک دیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے ہوم گارڈ کے ایک ساتھی رکن کو کئی مہینوں کے بعد ہی احساس ہوا کہ وہ بائیں بازو کے مصنف ہیں۔ ایک اور دوست سے، وہ بکریوں اور گدھوں کے علاوہ کچھ نہیں کہتا تھا۔
ڈی جے ٹیلر نے ‘آرویل: دا نیو لائف’ میں جو کام کیا ہے وہ آرویل کے بہت سارے تضادات کو ایک ساتھ رکھ کو اس کی شخصیت کا ایک خاکہ سامنے لانا ہے ۔ ان میں سے شاید سب سے اہم بات تضاد یہ تھا کہ آرویل انگریزی انقلابیت/ریڈکل ازم کی سب سے مستند آواز تھا لیکن اپنے ‘مزاج/ ٹمپرامنٹ کے اعتبار سے قدامت پرست تھا—– ایک ‘بوہمین ٹوری ‘(ایسا شخص جو برطانوی قدامت پرست پارٹی ٹوری کے ساتھ اپنی شناخت رکھے لیکن اس کی زندگی غیر روایتی، فنکارانہ طرز زندگی کی مظہر ہو) جیسا اس کا دوست رچرڈ ریس اسے کہا کرتا تھا- اس کی پہلی بیوی ‘ایلین بلیئر’ نے کہا تھا:
‘دی لائن اور یونیکورن’ کا خلاصہ ایک جملے میں یوں کیا جاسکتا ہے ‘ایک ٹوری ہوتے ہوئے سوشلسٹ/ اشتراکی کیسے ہوا جاتا ہے’.
["دی لائن اور یونیکورن: سوشلزم اینڈ دی انگلش جینیئس ” دوسری جنگ عظیم کے ابتدائی حصے کے دوران جارج اورویل کا لکھا ہوا ایک توسیعی مضمون ہے۔ یہ پہلی بار 1941 میں شائع ہوا تھا. اس مضمون میں ، اورویل نے برطانیہ کی حالت ، اس کے معاشرتی ڈھانچے ، اور جنگ کے دوران درپیش چیلنجوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔]
آرویل کو ملٹن کا فقرہ "قدیم آزادی کے معروف اصولوں کے مطابق” پسند آیا لیکن ملٹن کے برعکس —- سوشلسٹ ریپبلکن سپاہی—- آرویل نے کہا کہ اگر وہ انگریزی خانہ جنگی کے دوران زندہ رہتا تو وہ ریپبلکن گول ہیڈ کے بجائے رائلسٹ کیولیر بننا پسند کرتا کیونکہ مؤخر الذکر "بہت بدتمیز لوگ” تھے۔
جیسا کہ ٹیلر کہتا ہے ،
”اس کے کام میں زیادہ تر ایسے لمحات آتے ہیں جب اس کے عقیدے اس کی پرورش سے ٹکراتے ہیں: ہاؤس آف لارڈز کو ختم نہ کرنے پر ایٹلی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا اور ساتھ ہی اپنے گود لیے گئے بیٹے کو پبلک اسکول میں داخل کرانے جیسا واقعہ اس کے س ساتھ شاذ و نادر ہی پیش آیا ہوگا”۔
اگر اورویل کی نثر کی طاقت ہر مسئلے کے دونوں پہلوؤں کو دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے، تو یہ ٹیلر کی کامیابی ہے کہ اس نے اس کی پرورش سے اورویل کے اعتقادات کو بڑی خوبصورتی سے نتھی کیا ہے۔
اشراف زادے سے سوشلسٹ ہونے تک
اورویل کی ٹیلر کی سوانح حیات مصنف کے بارے میں لکھی گئی بہت سی دوسری دستیاب سوانح عمریوں سے مختلف ہے ، یہ اپنے دلچسپ انداز کی بدولت جو مصنف کے اپنے موضوع کے لئے واضح جوش و خروش کی عکاسی کرتی ہے اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے
آورویل کی طرح ، ٹیلر کہانی سنانے کے فن میں مہارت رکھتا ہے ، خاص طور پر کہانیوں کی واضح تصویر کشی میں۔ ٹیلر کی تحریر کے سب سے جاندار پہلوؤں میں سے ایک وہ ہے جہاں اورویل کھانا پکانے کی ترجیحات کی کھوج میں دکھائی دیتا ہے – ایک قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ آورویل نے ایک بار انگریزی کھانا پکانے کا دفاع کرتے ہوئے ایک کالم لکھا تھا۔
ٹیلر لکھتا ہے،
‘ایلین ایک بار رات بھر کے گھر سے باہر گئی اور اوون میں آرویل کے لیے ‘شیفرڈز پائی’ (معروف برطانوی ڈش) چھوڑ کر کئی جبکہ فرش پر ایل مچھلی بلی کے لیے چھوڑ کر گئی اور جب گھر واپس ائی تو اس نے دیکھا کہ آرویل نے ‘ایل مچھلی’ کھالی تھی- آرویل شوق سے ایسی خوراک بھی چٹ کرجایا کرتا تھا جو لندن میں رہنے والے راشن کی تلاش میں لور لور پھرنے والے بھی اپنی پلیٹوں میں خوشی خوشی چھوڑ جایا کرتے تھے اور ایسی کئی کہانیاں ہیں آرویل کی-
فلیٹ اسٹریٹ میں انارکسٹ مضمون نگار جارج ووڈکوک کے ساتھ دوپہر کے کھانے کے دوران، جس میں اُبلے ہوئے کوڈ اور شلجم اتنے خراب تھے کہ ووڈکوک نے انہیں واپس باورچی خانے میں بھیج دیا، آرویل نے اپنے پیٹ کو تھپتھپاتے ہوئے کہا، "میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ایک ساتھ اتنے مزیدار لگیں گے”۔
آرویل کی ہرکتاب کا ذہنی مزاج ‘پیر کی خوفناک صبح’ کی طرح کیوں ہوتا تھا اور وہ ہفے کی زندہ شام جیسا کیوں نہیں ہوتا تھا؟ مثال کے طور پر اس کی کتاب ‘دی روڈ ٹو وی گان پئیر’ کے بارے میں یہ تبصرہ کیا گیا کہ آرویل نے کان کنوں کے کام کی جگہ پر زندگی کو تو خوب بیان کیا لیکن ان کی سماجی زندگی کو بالکل ہی نظر انداز کردیا- پوری کتاب میں کہیں کان کن کسی کلب، پب میں نظر نہیں آتے، نہ کہیں کوئی سپورٹس کھیلتے نظر آتے اور نہ ہی موسیقی سے لطف اٹھاتے دکھائی دیتے۔ ایک نقاد نے کہا تھا کہ ایسے لگتا تھا جیسے اس کا اس حقیقت کی طرف دھیان ہی نہیں گیا کہ کام کرنے والے لوگ تفریح بھی کرسکتے ہیں۔
آرویل کو اعلیٰ زندگی سے کوئی محبت نہیں تھی۔ یقینا ایک ایسے شخص کے لئے جو فرش سے بلی کا کھانا کھانے کے بارے میں کچھ نہیں سوچتا ہے ، عمدہ شراب کو ترک کرنا آسان ہے ، بلکہ کسی کو یہ تاثر ملتا ہے کہ آرویل کی پیورٹن ازم کا کم از کم ایک حصہ محض دکھاوے کے لئے تھا۔ وہ دوستوں کو سرعام تنقید کا نشانہ بنانے سے زیادہ کچھ بھی پسند نہیں کرتا تھا اگر وہ سوچتا تھا کہ وہ مہنگی چیزوں سے بہت زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ایک موقع پر اس نے اپنے ایک دوست کو ملامت کی کہ اس نے ‘کڑوا پنٹ’ کے بجائے ‘بیئر کا گلاس’ منگوایا اور اس طرح خود کو محنت کش طبقے کی زبان میں ناکافی تعلیم یافتہ ثابت کیا۔ جب دوست نے جواب دیا کہ وہ آخر کار متوسط طبقے کا ہے تو ، اورویل نے کہا کہ "اس پر فخر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے”۔ لیکن جیسا کہ ٹیلر لکھتے ہیں ، اورویل کو خود اس وقت پتہ چلا جب وہ اپنے دوست پیٹر وانسیٹارٹ کو فلیٹ اسٹریٹ پر دوپہر کے کھانے پر لے گیا:
آرویل نے اسے بتایا کہ اس طرح کے لہجے اور اس طرح کی ٹائی کے ساتھ تمہیں محنت کش طبقے کے افراد اپنے میں سے نہیں سمجھیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مشورے بہت صائب لگ رہے تھے لیکن صورت حال اس وقت تبدیل ہوگئی جب ڈھابے کے مالک نے ڈرنک کے اگلے آڈر کے لیے آکر وینسٹارٹ کو ‘پیٹر’ اور آرویل کو ‘سر’ کہہ کر مخاطب کیا-
انگریز کے انداز میں ‘طبقہ’ بارے جنون رکھنے والے آرویل نے دعویٰ کیا کہ اس کا تعلق ‘نچلے متوسط طبقے ‘ سے ہے ۔ اس کا کہنا تھا اس کا خاندان ‘درمیانے طبقے’ کے آخری کمزور کنارے پر زندگی بسر کررہا تھا(جو کسی وقت بھی غربت کے دہانے میں گرسکتا تھا) – بلکہ اس نے یہ دعوا ‘ کان کنوں کی برادری بارے اپنی کلاسک کتاب میں کیا تھا، جہاں اس کی کوشش تھی کہ اس کا تعلق کسی اچھے کھاتے پیتے پوش گھرانے سے نہ لگے
کاہلی نے اورویل کو آکسفورڈ جانے سے روک دیا۔ جب ان کے ایٹن کے ہم جماعت پروست پڑھ رہے تھے، تو انہوں نے انیسویں صدی کے کلاسیکی ناولوں کو پڑھا۔ وہ ایک ارل (برطانوی طبقہ اشراف کے خطابات میں سے ایک ) کے سڑپوتے تھے ، حالانکہ جیسا کہ ٹیلر نے نوٹ کیا ہے ، کہ ارل "اشراف خون والے خوبصورت نہیں تھے بلکہ ایک وقت مین برسٹل تاجر تھے جنہوں نے باسٹھ سال کی عمر میں اپنے بے اولاد دوسرے کزن سے یہ لقب وراثت میں حاصل کیا تھا۔ اس کی فیملی مالی طور پر متوسط طبقے میں چلی گئی تھی۔ اس کا تعلق ایک ایسے سماجی ماحول سے تھا جہاں لوگ شکار کرتے تھے اور ان کے پاس گھریلو ملازم ہوتے تھے، لیکن عملی طور پر اس کا خاندان اتنا کمزور تھا کہ وہ ایسا کرنے کے قابل نہیں تھا۔ اس کے بجائے، ان کا پیسہ ظاہری شکل برقرار رکھنے میں چلا گیا۔ اورویل نے نوٹ کیا کہ یہی وجہ ہے کہ ان کے حالات میں بہت سے لوگ کالونیوں میں خدمات انجام دیتے تھے۔ وہاں کوئی بھی سستے پر ایک شریف آدمی ہونے پر کھیل سکتا تھا۔
ٹیلر کا کہنا ہے کہ اورویل اپنے بارے میں افسانے گھڑنے کا ماہر تھا اور سب سے زیادہ مستقل افسانوں میں سے ایک اس کی غربت کے بارے میں تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اورویل، جب اس نے برما شاہی پولیس چھوڑی تھی، تو وہ نقد رقم کے لئے کافی تنگ تھے۔ لیکن ان کی غربت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر کرسٹوفر ہچنز کا کہنا تھا کہ اورویل کی موت ‘ڈکنزین ڈیتھ’ کی وجہ سے ہوئی جو اتنی غریب تھی کہ تپ دق کے لیے نئی ادویات حاصل کرنے کے لیے امریکہ کا سفر نہیں کر سکتی تھی۔ درحقیقت، لیبر پارٹی کے اینورین بیون، جو اس وقت کے وزیر صحت تھے، نے ذاتی طور پر اورویل کے علاج کے لئے اسٹریپٹومائسن کی درآمد کو یقینی بنانے میں مدد کی۔
آرویل کی مالی حالت میں بڑا سدھار 1941ء میں بی بی سی جوائن کرنے سے آیا- اور جب اس کا ناول ‘اینمل فارم’ شایع ہوا تو وہ کافی امیر ہوگیا- اپنی مالی حالت مین بڑا سدھار آنے کے باوجود اسے اکثر ‘مقصد’ پر تنقید کرکے ‘مال کمانے’ کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا تھا- یہاں تک کہ جب اس کا بٹوہ خالی نہیں تھا ، تب بھی این کے ویی کے ایجنٹ ہانس پیٹر سمولکا جیسوں نے اسے منافع کمانے سے روکنے کی کوشش کی اور اس کے ناول اینمل فارم کی اشاعت سے روک کر یہ کوشش کی گئی-
پھر بھی ، اپنی زندگی کے آخر تک اورویل اتنا سختی کا شکار نہیں تھا جتنا اس کی تیار کردہ تصویر نے کسی کو یقین کرنے پر مجبور کیا ہوگا۔ وہ اپنے خستہ حال کارڈوروئے سوٹ میں اسمارٹ کاک ٹیل پارٹیوں میں شرکت کرتا تھا- ، لیکن ہر کوئی واضح طور پر دیکھ سکتا تھا کہ اسے ایک مہنگے درزی نے کاٹا تھا۔ انھوں نے پیرس اور لندن میں ڈاؤن اینڈ آؤٹ میں کبھی یہ ذکر نہیں کیا کہ ان کی خالہ اس ہوٹل سے چند بلاک کے فاصلے پر رہتی تھیں جہاں وہ مبینہ طور پر بھوکے تھے۔ اور وہ یہ بھی بتانا بھول گیا کہ وہ صرف ایک شخص کے طور پر کام کرنے تک محدود تھا کیونکہ ایک طوائف نے اس کا پرس چھین لیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ غربت ان کے ڈرامائی انداز کے عین مطابق تھی: انہوں نے ایک بار لکڑی کے لیے اپنے بیٹے کے کھلونے کاٹ دیے تھے، جس سے ان کے ایک دوست کو بہت زیادہ دھچکا لگا، گویا وہ لکھنا چاہتا تھا، ”1945-6 کے موسم سرما میں حالات اتنے خراب ہو گئے تھے۔
آرویل کو خدا پر کوئی یقین نہیں تھا لیکن وہ شدید طور پر توہم پرستی کا شکار تھا – اپنے کندھے پر نمک پھینکرہا تھا، زنجیروں سے مشورہ کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ، وہ انگریزی عبادات کا احترام کرتے تھے اور 30 کی دہائی میں باقاعدہ گرجا گھر جاتے تھے۔ مجھے ٹیلر کی سوانح حیات پڑھنے سے پہلے معلوم نہیں تھا کہ وہ معاصر مذہبی تنازعات سے غیر معمولی طور پر واقف تھے ، اور جیسا کہ ٹیلر نے تبصرہ کیا ، انہوں نے بلاسفیمی پر سخت اعتراض کیا۔ یقینا، آرویل کسی بھی طرح سے واحد کافر نہیں تھا جس نے مسیحی شاعری کو متحرک پایا، لیکن اس نے معاشرے کے ایمان کے خاتمے کو مطلق العنانیت کے بڑھتے ہوئے خطرے سے جوڑا۔
اپنی زندگی کے آخری دن انہوں نے سوچا: "کیا ہم مردوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں اگر وہ اب خدا پر ایمان نہیں رکھتے ہیں؟” انہوں نے امید ظاہر کی کہ سوشلزم معاشرے کو متحد رکھ سکتا ہے، لیکن اگر یہ ناکام ہو جاتا ہے، تو مذہب کا نقصان فاشزم کا باعث بنے گا۔ ان کے دوست میلکم مغریج نے انہیں یقین دلایا کہ "طاقت کی عبادت کا جدید فرقہ جدید انسان کے احساسات سے جڑا ہوا ہے کہ یہاں اور اب کی زندگی ہی وہاں کی واحد زندگی ہے۔ اس طرح اورویل نے اس راستے پر چلنا شروع کر دیا جس پر ہر قدامت پسند "ثقافتی مسیحی” عمل کرے گا۔
کسی کو توقع ہو سکتی تھی کہ "ناخوشگوار حقائق کا سامنا کرنے کی طاقت” پر اپنے مشہور یقین کے ساتھ اورویل نے سوشلسٹوں کی یہ لائن اختیار کی ہوگی کہ انقلاب کو جنگ جیتنے تک ملتوی کرنا ہوگا ، لیکن اس کے بجائے انہوں نے ٹراٹسکی کے زیر اثر پی او یو ایم (مارکسی اتحاد کی ورکرز پارٹی) کا ساتھ دیا۔ آورویل نے سوویت یونین پر الزام عائد کیا کہ اس نے اپنے ناقدین کو قتل کرکے ہسپانوی انقلابی روح سے غداری کی۔ "کاتالونیا کو خراج عقیدت” ایک انتہائی بے باک اور جرآت مندی کا اظہار کتاب تھی۔ اس نے افسوس ناک طریقے سے فروخت کیا ، لیکن اس کے باوجود اس نے اورویل کو اسٹالنسٹوں کی نفرت حاصل کی۔ پبلشر وکٹر گولنز نے اسے شائع کرنے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اگرچہ وہ سوویت یونین کے بارے میں آرویل کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں ، لیکن اسے سیاسی دائیں بازو کی طرف سے پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ توہین آمیز ہے؟ یقیناً. لیکن گولنز نے درست کہا تھا کہ جمہوریہ کی شبیہ کو سیاہ کرنے کے لئے اس کا آلہ کار بنایا جائے گا۔ یہ ہمیشہ اس نظریے کو تقویت دینے کے لئے حوالہ دیا جاتا ہے کہ ہسپانوی خانہ جنگی دو یکساں طور پر برے مطلق العنان فریقوں کے درمیان لڑی گئی تھی۔
کاتالونیا کو خراج عقیدت ہسپانوی خانہ جنگی پر اب تک سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ اکثر واحد کتاب ہے جو لوگ اس موضوع پر پڑھتے ہیں۔ ظاہر ہے، یہ اورویل کی غلطی نہیں ہے۔ لیکن جب لوگ کہتے ہیں کہ اورویل نے ہسپانوی خانہ جنگی کو "صحیح” قرار دیا ہے، تو وہ اس بات پر توجہ دینے میں ناکام رہتے ہیں کہ کاتالونیا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے خود اس تنازعہ یا اس کے مضمرات کے عوامل کے بارے میں بہت کم کہا گیا تھا. اسپین میں ایک غیر ملکی لڑاکا کے لئے یہ کیسا تھا، اس کی رپورٹنگ کے طور پر، ویریم کامل کے قریب ہے، لیکن اورویل کے پاس اس سے بڑی تصویر نہیں تھی: مثال کے طور پر، اس نے بارسلونا مئی ڈے کو مکمل طور پر غلط سمجھا. تاہم ، ہسپانوی جمہوریہ کی طرف سے کیے جانے والے ہر جرم کے باوجود ، وہ اب بھی اس کے ساتھ رہا۔ انہوں نے کہا، "سوال بہت سادہ ہے”:
کیا عام آدمی کو کیچڑ میں دھکیل دیا جائے گا یا نہیں؟ میں خود بھی شاید ناکافی بنیادوں پر یقین رکھتا ہوں کہ عام آدمی جلد یا بدیر اپنی لڑائی جیت جائے گا، لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہ جلد اور بدیر ہو – اگلے سو سالوں میں کچھ وقت، کہتے ہیں، اور اگلے دس ہزار سالوں میں کچھ وقت نہیں۔ ہسپانوی جنگ کا اصل مسئلہ یہی تھا۔
یہ اقتباس کلاسیکی آرویل ہے۔ زبان تیز ہے۔ استعارہ زبردست ہے۔ آرویل کی پسندیدہ خوبی "عام شائستگی” کی دعوت ہے۔ اور سب سے بڑھ کر، یہ اصرار ہے کہ چیزیں ان سے کہیں زیادہ آسان ہیں. دانشور لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہر مسئلہ پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے، لیکن اورویل کا تعلق متنازعہ پمفلٹ لکھنے والوں کی روایت سے تھا، جو اس بات کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے کہ وہ غلط بیانی کو ختم کریں۔ اس روایت کے بارے میں کچھ کہنا ضروری ہے۔ کیا ہر کوئی نہیں جانتا کہ جب دانشور کسی چیز کی "پیچیدہ تاریخ” کی بات کرتے ہیں تو وہ ہمیں جبر کے سامنے خاموش رہنے کی دعوت دینے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں؟ دوسرے لفظوں میں یہ دانشوروں پر منحصر ہے کہ وہ وقتا فوقتا کمزور ی کا مظاہرہ کریں۔ لیکن اورویل کو اینٹی انٹلیکچولزم کے الزام سے مکمل طور پر پاک نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے مشہور کہا تھا کہ کچھ چیزیں اتنی احمقانہ ہوتی ہیں کہ ان پر صرف دانشور ہی یقین کر سکتے ہیں۔ اور اس نے دعوی کیا کہ ایک ملاح کو کھانا چوری کرتے ہوئے دیکھنا اسے مٹھی بھر سوشلسٹ پمفلٹس سے کہیں زیادہ سکھایا – یہ اچھا لگتا ہے جب تک کہ کوئی یہ نہ پوچھے کہ اس نے کیا سیکھا ہے ، جس وقت یہ احمقانہ لگتا ہے۔
تاہم ، ٹیلر یقینی طور پر درست ہے جب وہ کہتا ہے کہ اورویل کے معمولات ایک مقصد کی خدمت کرتے ہیں۔ ٹیلر کا کہنا ہے کہ "اورویل کی تحریر کی اشتعال انگیزی ان کی سب سے بڑی خوبیوں میں سے ایک ہے، جو بالکل درست ہے۔ ٹیلر کا کہنا ہے کہ پرچیٹ نے "ایک نمونے کے جملے کا معائنہ کرتے ہوئے، جس کا آغاز ‘یہ بلا شبہ سچ ہے’، تبصرہ کیا کہ اس کے بجائے متضاد بیان کے بارے میں سب سے اچھی بات ناقابل تردید سچائی کا تصور تھا۔ اورویل نے اپنی نثر کو ٹیلر کے جملے میں "عجیب و غریب عمومیت” سے بھر دیا، جیسے کہ یہ جملہ کہ "تمام تمباکو نوش فاشسٹ ہیں”، لیکن وہ شاید اتنے عجیب نہیں ہیں جتنے وہ نظر آتے ہیں:
ایک سطح پر یہ محض ایک طرح کی افواہ ہے، ایک مصنف آپ کو کسی ایسی چیز کے ساتھ مسئلہ اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے جس کے ساتھ واضح طور پر مسئلہ اٹھانے کے قابل ہے، لیکن اس میں کچھ دھوکہ دہی بھی ہے، کام میں ایک گہرے مقصد کا اشارہ ہے. جیسا کہ مغریج نے کہا، جب تمباکو نوشی کرنے والے تمام افراد کے فاشسٹ ہونے کے بارے میں لائن کا سامنا ہوتا ہے، تو آپ اسے ہاتھ سے خارج کر دیتے ہیں، صرف یہ سوچتے ہیں کہ کیا اس قبیلے میں کوئی عجیب بات نہیں ہے جو اپنی ڈیوٹی شاپ کاؤنٹرز کے پیچھے گھوم رہے ہیں۔
چھوٹے کاروباری مالکان، یقینا، فاشسٹ جماعتوں کے لئے سماجی اڈوں میں سے ایک رہے ہیں، اور اورویل، اپنے عام طور پر اشتعال انگیز انداز میں، اس موقع پر کھیل کود کے ساتھ چھیڑنے کا ایک طریقہ تھا۔
اسپین کے تجربے نے اورویل کو بنیادی شکل دی۔ ٹیلر لکھتے ہیں کہ ‘وہ سیاسی طور پر سادہ لوح تھے اور کچھ دھوکہ دہی سے مایوس ہو کر واپس آئے تھے لیکن انہوں نے یہ بھی طے کیا تھا کہ جس عوامی آئیڈیلزم کا وہ حصہ رہے ہیں اسے ان کے اپنے ملک کی سیاست میں برآمد کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، یہ بات اہم تھی کہ وہ جنگ سے واپس آنے کے بعد صرف ایک سیاسی جماعت – آزاد لیبر پارٹی – میں شامل ہوئے۔ وہ اسپین جانے سے پہلے بائیں طرف تھا ، لیکن وہاں وہ ایک مناسب سوشلسٹ بن گیا: اس نے یہ دیکھ کر سیکھا کہ اسپین میں سوویت یونین کے جرائم کی تاریخ کو کس طرح غلط ثابت کیا گیا تھا۔ مختصر یہ کہ یہ اسپین میں تھا کہ وہ اسٹالنسٹ کے خلاف پرعزم بن گیا۔ تاہم ، اس کا مطلب یہ تھا کہ آرویل کے لئے بائیں طرف ان کا قدم بولشیوزم کے خلاف تھا جو کبھی کبھار بدصورت شکل اختیار کرلیتا تھا۔
میرے خیال میں اس روشنی میں ہمیں ان کی نام نہاد "فہرست” کو دیکھنا چاہیے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں، جب ان کے پھیپھڑے ٹوٹ چکے تھے، اورویل سے ان کی پرانی شعلہ سیلیا کروان نے رابطہ کیا، جو اس وقت انفارمیشن ریسرچ ڈپارٹمنٹ (آئی آر ڈی) میں ملازم تھیں، جو مشرقی یورپ میں سوویت اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے دفتر خارجہ کی پروپیگنڈا تنظیم تھی۔ کیا وہ ان لوگوں کے نام بتا سکتے ہیں جن کے بارے میں وہ کمیونسٹ مخالف پمفلٹ لکھنے کے لیے موزوں نہیں سمجھتے؟ فطری طور پر، وہ کر سکتا تھا: اس نے ریس کو ایک نوٹ بک لانے کے لئے بھیجا جس میں کرپٹو کمیونسٹوں اور ساتھی مسافروں کی فہرست تھی جسے وہ "تازہ ترین” لانا چاہتا تھا۔ اس واقعہ کو اکثر اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ اورویل ایک سرکاری مخبر تھا ۔
تاہم ٹیلر اس طرح کے الزامات کو ‘بکواس’ قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ "ایک ایسی دنیا میں اس طرح کے مجموعے کی ضرورت تھی، جیسا کہ سیلیا نے ایک بار یاد کیا تھا، قریبی چائنا ڈیسک پر ان کا ایک ساتھی کوئی اور نہیں بلکہ گائی برگس تھا، برطانوی سفارت کار جسے بعد میں سوویت ڈبل ایجنٹ کے طور پر دریافت کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ، "فہرست میں شامل زیادہ تر لوگوں کو خاموشی سے ایک ایسی نوکری سے باہر رکھا جا رہا تھا جو ان کی سیاسی ہمدردیوں نے انہیں کام کرنے سے نااہل کر دیا تھا۔ اور اس فہرست میں اس کی اصل کا نشان ہے، جیسا کہ ریس کے الفاظ میں ، "ایک قسم کا کھیل جو ہم نے کھیلا – یہ معلوم کرنا کہ کون کس چیز کا معاوضہ لینے والا ایجنٹ تھا اور اندازہ لگانا کہ ہمارے پسندیدہ بیٹس کس حد تک خیانت کرنے کے لئے تیار تھے۔ فہرست میں شامل زیادہ تر افراد اورویل کے ذاتی جاننے والے نہیں تھے بلکہ عوامی شخصیات جیسے چارلی چیپلن یا اسکاٹش مارکسسٹ شاعر ہیو میک ڈئیرمڈ تھے ، اور صرف ایک اورویل پر سوویت جاسوس ہونے کا الزام تھا ، اسمولٹ ، یقینا جاسوس تھا۔ باقی لوگوں کے ساتھ نیو اسٹیٹس مین کے ایڈیٹر کنگزلے مارٹن کی طرح سلوک کیا گیا: "اتنا بے ایمان کہ مکمل طور پر ‘کرپٹو’ نہیں ہو سکتا۔
یہ این کے وی ڈی کی تفتیشی حکمت عملی سے بالکل موازنہ نہیں ہے۔ پھر بھی، میں شاید ٹیلر سے کم واضح ہوں گا. اورویل کو نہیں معلوم تھا کہ آئی آر ڈی اس معلومات کو کس طرح استعمال کرے گا، اور ہمیں اس فہرست میں شامل لوگوں کے لئے صحیح نتائج سیکھنے کا امکان نہیں ہے: ہم شاید ہی دفتر خارجہ ہمیں بتائیں گے کہ آیا انہوں نے کسی کی نگرانی کی ہے یا اس کی وجہ سے کسی اور کا ویزا منسوخ کیا ہے۔ اور جب سرکاری طور پر کسی نئے مخبر کو بھرتی کیا جاتا ہے، تو وہ پہلے اسٹیم کو ہر ممکن حد تک آرام دہ محسوس کرتے ہیں – اس سلسلے میں، پارلر گیم نوٹ بک مکمل طور پر عام ہے. اور پھر بھی، یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اورویل کبھی ایک مناسب مخبر بن جائے گا کیونکہ وہ خفیہ، سرکاری پوچھ گچھ کے سخت مخالف تھا. انہوں نے خود کو فریڈم ڈیفنس کمیٹی میں شامل کیا ، جس نے کمیونسٹ ہمدردی کے شبہ میں سرکاری ملازمین کے تحفظ کے لئے مہم چلائی: انہوں نے دلیل دی کہ خفیہ اداروں کی طرف سے فراہم کردہ کسی بھی معلومات کو اس وقت تک استعمال نہیں کیا جانا چاہئے جب تک کہ تصدیق نہ ہو ، مخالف گواہوں کو جرح کے لئے کھلا ہونا چاہئے ، اور ملزم کے پاس ہر وقت وکیل یا یونین کا نمائندہ ہونا چاہئے۔
اسپین میں آرویل کا وقت ایک اور تضاد کی عکاسی کرتا ہے: وہ ایک طرف پختہ انگریز تھا، یہاں تک کہ صوبائی طور پر بھی، جبکہ دوسری طرف وہ حقیقی طور پر بین الاقوامی تھا۔اس نے اسپین کا سفر کیا ، لیکن لندن واپس آنے کے بعد ہی اس نے ہسپانوی ثقافت یا تاریخ کے بارے میں کچھ بھی سیکھنے کی زحمت اٹھائی۔
وہ کاسموپولیٹن لندن کے مقابلے میں برطانوی بیک واٹر میں کہیں زیادہ خوشی سے رہتا تھا۔ وہ انگریزطرز زندگی کو پسند کرتا تھا اس کے عجیب و غریب رسم و رواج اور روایات کے ساتھ: سستی چائے مناسب طریقے سے تیار کی جاتی تھی، مقامی ڈبوں کے ساتھ پب. پھر بھی وہ ایک چوتھائی فرانسیسی تھا اور اسے روانی سے بولتا تھا۔ مزید برآں ، جب اس نے برمی امپیریل پولیس میں خدمات انجام دیں تواس نے کچھ مقامی زبانیں سیکھیں۔ لیکن کالونیوں میں اپنے وقت کے علاوہ ، اسنے اپنی تقریبا پوری زندگی انگلینڈ میں گزاری۔
وہ امریکی ثقافت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار رہا، جس طرح سے وہ انتہائی نازیبا لیکن فحش انداز میں تھے جو وسط صدی کے یورپ میں بہت عام تھا۔ میرے خیال میں یہ حقیقت ہے کہ اورویل ایک صوبائی بین الاقوامی شخصیت تھے جس کی وجہ سے سیاسی بائیں بازو اور دائیں بازو دونوں کے لیے ان کی طرف سے ان کا دعویٰ کرنا اتنا آسان ہو گیا ہے۔
نوٹ: نیچے جیکوبن سے اصل مضمون کا لنک دیا گیا ہے، جو کہ انگریزی زبان میں ہے۔ ⇓
https://jacobin.com/2023/10/george-orwell-class-britain-spanish-civil-war-nineteen-eighty-four