23 اگست کی شب 5 بجے بھارتی خلائی مشن چندریان-3 کی چاند پر کامیاب لینڈنگ کے بعد پورے بھارت میں جہاں جشن کا سماں تھا وہیں پاکستان میں بھی بھارتی خلائی مشن موضوعِ بحث بنا رہا۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم و دانش نے تو اس کامیابی کو بہت سراہا جبکہ بعض رجعتی حلقے اسے کسی صورت بھی ہضم کرنے کو تیار نہیں۔
بھارتی خلائی پروگرام کی مستقل مزاجی، اس پر کام کرنے والے سائنسدانوں کی قابلیت، انجنیئرز، ٹیکنیشنز، معاونین اور بھارتی عوام یقیناً اس اہم ترین کامیابی پر دادو تحسین کے مستحق ہیں۔ لیکن اس کامیابی کا پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ پہلو ہندوستان کے کروڑوں انسان غربت، بھوک، افلاس اور جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہندوستان کے حکمران طبقات کے پاس ان کے بنیادی مسائل کے حل کا تا حال کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔
"ستاروں پر کمندیں” ڈالنے سے پہلے اپنے دیس باسیوں اور دھرتی باسیوں کے بنیادی انسانی مسائل کا حل ضروری ہے۔ تیسری دنیا کی پسماندہ معیشتوں کے لئے اپنے سماجوں کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے بجائے اس نوعیت کے منصوبوں پر اربوں ڈالروں کی سرمایہ کاری بنیادی انسانی فہم سے بالاتر ہے۔
تیسری دنیا کے ممالک کی خلائی کاوشوں کا موازنہ کریں تو برصغیر میں پاکستان سپیس پروگرام میں سب سے آگے تھا، 1961ء میں سپارکو کا قیام عمل میں لایا گیا، پورے ایشیاء میں جاپان، اسرائیل کے بعد پاکستان وہ واحد ملک تھا جس نے خلاء میں اپنا راکٹ رہبر 1 کامیابی سے لانچ کیا اور اس طرح پاکستان خلا ء میں راکٹ بھیجنے والا دنیا کا دسواں ملک بن گیا تھا۔ اور اگلے برس رہبر 2 کا کامیابی سے تجربہ کیا گیا۔ سرد جنگ کے دوران امریکی خلائی ادارے ناسا کے تعاون کے ساتھ پاکستان کا سپیس پروگرام کافی ترقی یافتہ تھا۔ اور بعد ازاں 1972 میں رہبر راکٹ پروگرام تقریباً ختم کردیا گیا۔ اور پاکستان کو ایک ایسی ڈگر پر ڈالا گیا کہ جس کی راہ میں سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کے جوہر دکھانے کے بجائے بربادیوں کے بیابان تھے۔ ایک پالیسی شفٹ نے سائنس و ٹیکنالوجی کی ساری ممکنہ "ترقی” کو لپیٹ کر رکھ دیا۔
ہندوستان کے چندریان-3مشن کی کامیابی کو خطے میں ہندوستانی اثر و رسوخ بڑھنے کی باتیں بھی کی جارہی ہیں، اور یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ ہندوستان اب عالمی طاقت بننے کی دوڑ میں شامل ہوگیا ہے۔ بعض معاشی پنڈت اگلی دہائی میں ہندوستان کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت بننے کے دعوے بھی کر تے سنائی دیتے ہیں۔ وہ ہندوستان کے ملٹی کلچرل سماجی تضادات کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیتے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے دورِ اقتدار میں ہندوستان کو اُسی ڈگر پر ڈالا ہے جس ڈگر پر چل کر پاکستان کا خلائی پروگرام بند کر دیا گیا۔ نریندر مودی نے اپنے ہندوستانی سماج کو مذہب کی بنیاد پر اس قدر پولرائز کر دیا ہے کہ اس کے نتائج دہلا کر رکھ دیں گے۔ ہندوتوا کے ایجنڈے پر عمل پیرا مودی سرکار کی گرتی عوامی مقبولیت کے وقت مشن چندریان کی کامیابی اسے اپنی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرتے ہوئے آئندہ انتخابات میں خاصی مدد گا ر ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر غربت، بھوک، افلاس اور جہالت کی چکی میں پِستے کروڑوں غریب ہندوستانیوں کے لئے اُمید کی کوئی کرن نہیں۔
بقول شاعر ؎
تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا
مجھے زمیں کے مسائل پر بات کرنی ہے
Comments 2
جواب دیں جواب منسوخ کریں
23 اگست کی شب 5 بجے بھارتی خلائی مشن چندریان-3 کی چاند پر کامیاب لینڈنگ کے بعد پورے بھارت میں جہاں جشن کا سماں تھا وہیں پاکستان میں بھی بھارتی خلائی مشن موضوعِ بحث بنا رہا۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم و دانش نے تو اس کامیابی کو بہت سراہا جبکہ بعض رجعتی حلقے اسے کسی صورت بھی ہضم کرنے کو تیار نہیں۔
بھارتی خلائی پروگرام کی مستقل مزاجی، اس پر کام کرنے والے سائنسدانوں کی قابلیت، انجنیئرز، ٹیکنیشنز، معاونین اور بھارتی عوام یقیناً اس اہم ترین کامیابی پر دادو تحسین کے مستحق ہیں۔ لیکن اس کامیابی کا پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ پہلو ہندوستان کے کروڑوں انسان غربت، بھوک، افلاس اور جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہندوستان کے حکمران طبقات کے پاس ان کے بنیادی مسائل کے حل کا تا حال کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔
"ستاروں پر کمندیں” ڈالنے سے پہلے اپنے دیس باسیوں اور دھرتی باسیوں کے بنیادی انسانی مسائل کا حل ضروری ہے۔ تیسری دنیا کی پسماندہ معیشتوں کے لئے اپنے سماجوں کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے بجائے اس نوعیت کے منصوبوں پر اربوں ڈالروں کی سرمایہ کاری بنیادی انسانی فہم سے بالاتر ہے۔
تیسری دنیا کے ممالک کی خلائی کاوشوں کا موازنہ کریں تو برصغیر میں پاکستان سپیس پروگرام میں سب سے آگے تھا، 1961ء میں سپارکو کا قیام عمل میں لایا گیا، پورے ایشیاء میں جاپان، اسرائیل کے بعد پاکستان وہ واحد ملک تھا جس نے خلاء میں اپنا راکٹ رہبر 1 کامیابی سے لانچ کیا اور اس طرح پاکستان خلا ء میں راکٹ بھیجنے والا دنیا کا دسواں ملک بن گیا تھا۔ اور اگلے برس رہبر 2 کا کامیابی سے تجربہ کیا گیا۔ سرد جنگ کے دوران امریکی خلائی ادارے ناسا کے تعاون کے ساتھ پاکستان کا سپیس پروگرام کافی ترقی یافتہ تھا۔ اور بعد ازاں 1972 میں رہبر راکٹ پروگرام تقریباً ختم کردیا گیا۔ اور پاکستان کو ایک ایسی ڈگر پر ڈالا گیا کہ جس کی راہ میں سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کے جوہر دکھانے کے بجائے بربادیوں کے بیابان تھے۔ ایک پالیسی شفٹ نے سائنس و ٹیکنالوجی کی ساری ممکنہ "ترقی” کو لپیٹ کر رکھ دیا۔
ہندوستان کے چندریان-3مشن کی کامیابی کو خطے میں ہندوستانی اثر و رسوخ بڑھنے کی باتیں بھی کی جارہی ہیں، اور یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ ہندوستان اب عالمی طاقت بننے کی دوڑ میں شامل ہوگیا ہے۔ بعض معاشی پنڈت اگلی دہائی میں ہندوستان کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت بننے کے دعوے بھی کر تے سنائی دیتے ہیں۔ وہ ہندوستان کے ملٹی کلچرل سماجی تضادات کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیتے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے دورِ اقتدار میں ہندوستان کو اُسی ڈگر پر ڈالا ہے جس ڈگر پر چل کر پاکستان کا خلائی پروگرام بند کر دیا گیا۔ نریندر مودی نے اپنے ہندوستانی سماج کو مذہب کی بنیاد پر اس قدر پولرائز کر دیا ہے کہ اس کے نتائج دہلا کر رکھ دیں گے۔ ہندوتوا کے ایجنڈے پر عمل پیرا مودی سرکار کی گرتی عوامی مقبولیت کے وقت مشن چندریان کی کامیابی اسے اپنی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرتے ہوئے آئندہ انتخابات میں خاصی مدد گا ر ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر غربت، بھوک، افلاس اور جہالت کی چکی میں پِستے کروڑوں غریب ہندوستانیوں کے لئے اُمید کی کوئی کرن نہیں۔
بقول شاعر ؎
تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا
مجھے زمیں کے مسائل پر بات کرنی ہے
Comments 2
-
Huma Butt says:
تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا
مجھے زمیں کے مسائل پر بات کرنی ہے
The crux of this topic is brilliantly explained in this Shair. That is what I want to say-
للکار نیوز says:
ہُما صاحبہ آپ نے بالکل درست فرمایا۔ انڈیا اور پاکستان دونوں غریب ممالک ہیں، ان دونوں ملکوں کے عوام کی ایک بڑی تعداد بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ھیں، پہلے زمین زادوں کے مسائل حل کر لئے جائیں تو پھر خلانوردی بھی زیب دیتی ہے۔ اس میں ہندوستان کے خلائی پروگرام بارے کوئی کینے والی بات نہیں مگر ان ممالک کے غریب لوگوں کے ٹیکسوں کے اربوں ڈالر ایسے منصوبوں پر خرچ آتے، جس کا چودراہٹ کے علاوہ کوئی مصرف نہیں۔
-
تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا
مجھے زمیں کے مسائل پر بات کرنی ہے
The crux of this topic is brilliantly explained in this Shair. That is what I want to say
ہُما صاحبہ آپ نے بالکل درست فرمایا۔ انڈیا اور پاکستان دونوں غریب ممالک ہیں، ان دونوں ملکوں کے عوام کی ایک بڑی تعداد بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ھیں، پہلے زمین زادوں کے مسائل حل کر لئے جائیں تو پھر خلانوردی بھی زیب دیتی ہے۔ اس میں ہندوستان کے خلائی پروگرام بارے کوئی کینے والی بات نہیں مگر ان ممالک کے غریب لوگوں کے ٹیکسوں کے اربوں ڈالر ایسے منصوبوں پر خرچ آتے، جس کا چودراہٹ کے علاوہ کوئی مصرف نہیں۔