اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی ضمانت پر رہائی کے حکم پر تحریکِ انصاف کے وکلاء اور کارکنان خوشی کے شادیانے بجانے لگے۔ اور انہیں لگا کہ شاید عمران خان کی رہائی اب یقینی ہو جائے جائے گی اور وہ اٹک جیل سے رہا ہو کر اپنے گھر جا سکیں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے اس فیصلے پر تحریکِ انصاف کے کارکنان کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان کی بہت زیادہ تحسین کی گئی کہ بہت درست فیصلہ دیا ہے اور عمران خان کی سزا معطل کر دی گئی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ سزا معطلی کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اس مقدمے سے بری ہوگئے ہیں۔
دوسری طرف حقائق یہ بتاتے ہیں کہ عمران خان کی سزا معطلی کے باوجودوہ فوری طور پر رہا نہیں ہو سکیں گے کیونکہ اسلام آباد میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بنائی جانے والی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی جانب سے اٹک جیل کے سپرٹنڈنٹ کو حکم دیا گیا ہے کہ ملزم عمران خان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمہ میں جوڈیشل ریمانڈ میں زیر حراست رکھا جائے۔حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملزم کو تیس اگست یعنی بدھ کے دن ان کی عدالت میں پیش کیا جائے۔یعنی عمران خان توشہ خانہ کیس میں سزا کے ساتھ ساتھ سائفر مقدمے میں بھی جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔
اس ساری صورتحال کے پیشِ نظر اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ آنے سے کچھ دیر قبل ہی عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی کو کسی اور کیس میں گرفتار نہ کرنے کی درخواست بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کر دی گئی تھی۔ جس پر کوئی پیش رفت سامنے نہ آسکی۔ بادیَ النظر میں اسلام آباد ہائیکورٹ ساری صورتحال میں صرف اپنا دامن بچاتی نظر آتی ہے۔ کیونکہ اکثر ایسے مقدمات میں مجرم کی جانب سے سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ آنے تک سزاکی معطلی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی عمران خان کے مقدمات میں خصوصی طور پر ” ذاتی دلچسپی” پہلے دن سے عیاں ہے جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن ) کی طرف سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو چیف جسٹس عمر عطاء بندل کے زیر اثر فیصلہ قرار دیا گیا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی تمام ترکوششوں کے باوجود عمران خان کے لئے ” عشق کے امتحاں ابھی اور بھی ہیں”۔
اس ساری صورتحال سے کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو ایک بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ عمران خان اُسی قانونی شکنجے میں جکڑے جا چکے ہیں جس میں وہ اپنے سیاسی حریفوں کو بڑے فخر سے جکڑتے رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ عمران خان اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے خود ایسے دوراہے پر آپہنچا ہے کہ جہاں سے اب اس کی واسپ شاید ممکن نہیں۔ ابھی تو 9 مئی کے واقعات کا مقدمہ عمران خان کا انتظار کر رہا ہے جو سب سے خطرنا ک ثابت ہو سکتا ہے۔عمران خان نے پاکستان کی سیاست میں جس درجے کی غلاظت اور انتہا پسندی کو پروان چڑھایا ہے اس کی 76 سالہ تاریخ میں اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ عمران خان کے جرائم کی ایک لمبی فہرست ہے کہ کس طرح پاکستانی سماج کو ایک انتہائی خطرنات دوراہے لا کھڑا کیا ہے،جن میں 40 ہزار پاکستانی طالبان کو بھی اپنے دورِ حکومت میں خیبر پختونخواہ میں دوبارہ آباد کروانا انتہائی بھیانک ہے۔( ان معاملات پر علیحدہ سے کسی تحریر میں تفصیل سے بحث کریں گے) ۔
عمران خان کو ایک چیز سمجھ لینی چاہئے کہ پاکستانی سیاست میں اب شاید ان کا کوئی مستقبل نہیں رہا۔ یا تو عمران خان کو سیاست کو خیر باد کہہ کر ملک چھوڑنا پڑے گا یا پھر ایک لمبا عرصہ جیلوں میں گزارنا ہوگا۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی ضمانت پر رہائی کے حکم پر تحریکِ انصاف کے وکلاء اور کارکنان خوشی کے شادیانے بجانے لگے۔ اور انہیں لگا کہ شاید عمران خان کی رہائی اب یقینی ہو جائے جائے گی اور وہ اٹک جیل سے رہا ہو کر اپنے گھر جا سکیں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے اس فیصلے پر تحریکِ انصاف کے کارکنان کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان کی بہت زیادہ تحسین کی گئی کہ بہت درست فیصلہ دیا ہے اور عمران خان کی سزا معطل کر دی گئی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ سزا معطلی کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اس مقدمے سے بری ہوگئے ہیں۔
دوسری طرف حقائق یہ بتاتے ہیں کہ عمران خان کی سزا معطلی کے باوجودوہ فوری طور پر رہا نہیں ہو سکیں گے کیونکہ اسلام آباد میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بنائی جانے والی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی جانب سے اٹک جیل کے سپرٹنڈنٹ کو حکم دیا گیا ہے کہ ملزم عمران خان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمہ میں جوڈیشل ریمانڈ میں زیر حراست رکھا جائے۔حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملزم کو تیس اگست یعنی بدھ کے دن ان کی عدالت میں پیش کیا جائے۔یعنی عمران خان توشہ خانہ کیس میں سزا کے ساتھ ساتھ سائفر مقدمے میں بھی جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔
اس ساری صورتحال کے پیشِ نظر اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ آنے سے کچھ دیر قبل ہی عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی کو کسی اور کیس میں گرفتار نہ کرنے کی درخواست بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کر دی گئی تھی۔ جس پر کوئی پیش رفت سامنے نہ آسکی۔ بادیَ النظر میں اسلام آباد ہائیکورٹ ساری صورتحال میں صرف اپنا دامن بچاتی نظر آتی ہے۔ کیونکہ اکثر ایسے مقدمات میں مجرم کی جانب سے سزا کے خلاف اپیل کا فیصلہ آنے تک سزاکی معطلی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی عمران خان کے مقدمات میں خصوصی طور پر ” ذاتی دلچسپی” پہلے دن سے عیاں ہے جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن ) کی طرف سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کو چیف جسٹس عمر عطاء بندل کے زیر اثر فیصلہ قرار دیا گیا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی تمام ترکوششوں کے باوجود عمران خان کے لئے ” عشق کے امتحاں ابھی اور بھی ہیں”۔
اس ساری صورتحال سے کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو ایک بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ عمران خان اُسی قانونی شکنجے میں جکڑے جا چکے ہیں جس میں وہ اپنے سیاسی حریفوں کو بڑے فخر سے جکڑتے رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ عمران خان اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے خود ایسے دوراہے پر آپہنچا ہے کہ جہاں سے اب اس کی واسپ شاید ممکن نہیں۔ ابھی تو 9 مئی کے واقعات کا مقدمہ عمران خان کا انتظار کر رہا ہے جو سب سے خطرنا ک ثابت ہو سکتا ہے۔عمران خان نے پاکستان کی سیاست میں جس درجے کی غلاظت اور انتہا پسندی کو پروان چڑھایا ہے اس کی 76 سالہ تاریخ میں اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ عمران خان کے جرائم کی ایک لمبی فہرست ہے کہ کس طرح پاکستانی سماج کو ایک انتہائی خطرنات دوراہے لا کھڑا کیا ہے،جن میں 40 ہزار پاکستانی طالبان کو بھی اپنے دورِ حکومت میں خیبر پختونخواہ میں دوبارہ آباد کروانا انتہائی بھیانک ہے۔( ان معاملات پر علیحدہ سے کسی تحریر میں تفصیل سے بحث کریں گے) ۔
عمران خان کو ایک چیز سمجھ لینی چاہئے کہ پاکستانی سیاست میں اب شاید ان کا کوئی مستقبل نہیں رہا۔ یا تو عمران خان کو سیاست کو خیر باد کہہ کر ملک چھوڑنا پڑے گا یا پھر ایک لمبا عرصہ جیلوں میں گزارنا ہوگا۔