پاکستان میں تعلیم کو بھی ایک منافع بخش کاروبار کے طور پرکیا جانے لگا ہے۔تعلیم جو کہ بنیادی انسانی حق ہے، اس کی کمرشلائزیشن اور تعلیم کے شعبہ سے فرار ہوتی ریاست نے اس بنیادی انسانی حق کو بھی غریب پاکستانیوں سے چھین لیا ہے۔
ایسی ریاست صرف یہ چاہتی ہے کہ کوئی اس کے سامنے گھٹنے ٹیک کر کھڑے ہونے کے سوا کچھ نا کرے اور نا ہی اسے یہ شعور آنے دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا سد باب کرنے کی جرآت کرے۔ اور نا ہی عوام میں یہ شعور اُجاگر ہو کہ اگر وہ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کریں تو ایوانوں کی دیواروں تک ہلا کر رکھ دیں گئے۔ اور نا یہ ہمت آنے دیتی ہے کہ اگر عوام کا حکومت کے کسی بھی غلط اقدام پر سخت ردعمل اور اکھٹ ہو گیا تو پھر کوئی اس موج تلاطم کو نہیں روک سکتا ۔
تعلیم کسی بھی ملک وقوم کی اساس ہوتی ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی عوام کو تعلیم جیسی سہولیات مفت فراہم کرے ۔ معیاری اور مفت تعلیم دینا گورنمنٹ کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے ۔ تاکہ انے والے دنوں میں ریاست ایک مضبوط وتوانا چٹان بن کر دنیا کے سامنے چمکتے ہوئے سورج کی طرح ابھرے۔
لیکن پاکستان میں اب صورتحال کافی بدل چکی ہے ۔ اب تعلیم کو مکمل کاروبار کا درجہ دینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور بہت سارے بچے ابھی سکولوں میں فیس نا ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں ۔
یہاں میں بتاتی چلوں کہ قومی اسمبلی کے مطابق ملک میں شرح خواندگی 62.8 فیصد ہے جبکہ 2 کروڑ 30 لاکھ بچے ابھی تک تعلیم جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ تعلیم سے محرومی کی سب سے بڑی وجہ ریاست کی طرف سے معاشی نظام کی تقسیم اور غلط معاشی منصوبہ بندی ہے۔ ایسی ہی ایک اور منصوبہ بندی جو اب کی جا رہی ہے وہ ہے سکولوں کی نجکاری۔
پاکستان بھر سے پہلے چار گیٹگری کے سکولز پرائمری ،مڈل ، ہائی اور ہائیر سیکنڈری اسکولز کی پرائیوٹائزیشن کی جا رہی ہے اور ہر ضلع سے تقریباً بیس سکول دانش اٹھارٹی کے حوالے کئے جائیں گئے ۔یہ بیس سکول وہ ٹاپر سکول ہونگے جن کی بلڈنگ کا میعار بہت اچھا ہے ۔طلباء کی تعداد ایک ہزار سے اوپر ہے ۔ رزلٹس بہترین ہیں اور دیگر تمام سہولیات سے آراستہ ہیں۔ ( اس وجہ شاید یہ ہے کہ ان سکولز کی نا تو بڈنگز کا ایشو ہو نا طلبہ کہ کمی کے لئے اشتہار بازی کی ضرورت ہو گی ۔نا مشہور اسا تذہ کی کمی نا سکول کے لئے کوئی کمرشل و مزید محنت کی ضرورت ہو گی وغیرہ وغیرہ ) اور باقی این جی اوز باجیوں کے حوالے وہ سکولز جن میں بچوں کی تعداد کم ، کمزور رزلٹس، خستہ حال بلڈنگز ، اور قلیل سٹاف اور دیگر سہولیات سے محروم ہیں ۔ گورنمنٹ خالی آسامیاں کو ختم کر دے گی اور پھر آہستہ آہستہ جو ریگولر استاد ہیں انہیں بھی بالکل ختم کر دیا جائے گا ۔ اور ایک دن محکمہ تعلیم مکمل طور پر پرائیویٹ ہو چکا ہو گا ۔ اس معاملے میں ہر ضلع میں حکومتی نمائندوں کے وزٹ شروع پہو چکے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں مہنگائی ساتویں آسمان پر ہے لوگ بجلی کے بل ادا نہیں کر پا رہے ۔جہاں ایک وقت کی روٹی میسر نہیں ۔جہاں لوگ مہنگائی کے باعث اپنے بچوں کو قتل کر رہے خودکشیاں کر رہے ہیں وہاں تعلیم پہلے ہی عوام سے کوسوں دور تھی اور اسے مزید دور کر دیا جائے گا ۔بلکہ مجھے تو لگتا ہے لوگ سکول کا راستہ اور نام تک بھول جائیں گے۔
—♦—
سفینہ حسن سماجی، سیاسی اور عوامی مسائل پر لکھتی رہتی ہیں، ان کا تعلق لاہور سے ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی مزدور تحریک اور ترقی پسند سیاست سے بھی منسلک ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
RelatedPosts
پاکستان میں تعلیم کو بھی ایک منافع بخش کاروبار کے طور پرکیا جانے لگا ہے۔تعلیم جو کہ بنیادی انسانی حق ہے، اس کی کمرشلائزیشن اور تعلیم کے شعبہ سے فرار ہوتی ریاست نے اس بنیادی انسانی حق کو بھی غریب پاکستانیوں سے چھین لیا ہے۔
ایسی ریاست صرف یہ چاہتی ہے کہ کوئی اس کے سامنے گھٹنے ٹیک کر کھڑے ہونے کے سوا کچھ نا کرے اور نا ہی اسے یہ شعور آنے دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا سد باب کرنے کی جرآت کرے۔ اور نا ہی عوام میں یہ شعور اُجاگر ہو کہ اگر وہ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کریں تو ایوانوں کی دیواروں تک ہلا کر رکھ دیں گئے۔ اور نا یہ ہمت آنے دیتی ہے کہ اگر عوام کا حکومت کے کسی بھی غلط اقدام پر سخت ردعمل اور اکھٹ ہو گیا تو پھر کوئی اس موج تلاطم کو نہیں روک سکتا ۔
تعلیم کسی بھی ملک وقوم کی اساس ہوتی ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی عوام کو تعلیم جیسی سہولیات مفت فراہم کرے ۔ معیاری اور مفت تعلیم دینا گورنمنٹ کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے ۔ تاکہ انے والے دنوں میں ریاست ایک مضبوط وتوانا چٹان بن کر دنیا کے سامنے چمکتے ہوئے سورج کی طرح ابھرے۔
لیکن پاکستان میں اب صورتحال کافی بدل چکی ہے ۔ اب تعلیم کو مکمل کاروبار کا درجہ دینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور بہت سارے بچے ابھی سکولوں میں فیس نا ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں ۔
یہاں میں بتاتی چلوں کہ قومی اسمبلی کے مطابق ملک میں شرح خواندگی 62.8 فیصد ہے جبکہ 2 کروڑ 30 لاکھ بچے ابھی تک تعلیم جیسی نعمت سے محروم ہیں۔ تعلیم سے محرومی کی سب سے بڑی وجہ ریاست کی طرف سے معاشی نظام کی تقسیم اور غلط معاشی منصوبہ بندی ہے۔ ایسی ہی ایک اور منصوبہ بندی جو اب کی جا رہی ہے وہ ہے سکولوں کی نجکاری۔
پاکستان بھر سے پہلے چار گیٹگری کے سکولز پرائمری ،مڈل ، ہائی اور ہائیر سیکنڈری اسکولز کی پرائیوٹائزیشن کی جا رہی ہے اور ہر ضلع سے تقریباً بیس سکول دانش اٹھارٹی کے حوالے کئے جائیں گئے ۔یہ بیس سکول وہ ٹاپر سکول ہونگے جن کی بلڈنگ کا میعار بہت اچھا ہے ۔طلباء کی تعداد ایک ہزار سے اوپر ہے ۔ رزلٹس بہترین ہیں اور دیگر تمام سہولیات سے آراستہ ہیں۔ ( اس وجہ شاید یہ ہے کہ ان سکولز کی نا تو بڈنگز کا ایشو ہو نا طلبہ کہ کمی کے لئے اشتہار بازی کی ضرورت ہو گی ۔نا مشہور اسا تذہ کی کمی نا سکول کے لئے کوئی کمرشل و مزید محنت کی ضرورت ہو گی وغیرہ وغیرہ ) اور باقی این جی اوز باجیوں کے حوالے وہ سکولز جن میں بچوں کی تعداد کم ، کمزور رزلٹس، خستہ حال بلڈنگز ، اور قلیل سٹاف اور دیگر سہولیات سے محروم ہیں ۔ گورنمنٹ خالی آسامیاں کو ختم کر دے گی اور پھر آہستہ آہستہ جو ریگولر استاد ہیں انہیں بھی بالکل ختم کر دیا جائے گا ۔ اور ایک دن محکمہ تعلیم مکمل طور پر پرائیویٹ ہو چکا ہو گا ۔ اس معاملے میں ہر ضلع میں حکومتی نمائندوں کے وزٹ شروع پہو چکے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں مہنگائی ساتویں آسمان پر ہے لوگ بجلی کے بل ادا نہیں کر پا رہے ۔جہاں ایک وقت کی روٹی میسر نہیں ۔جہاں لوگ مہنگائی کے باعث اپنے بچوں کو قتل کر رہے خودکشیاں کر رہے ہیں وہاں تعلیم پہلے ہی عوام سے کوسوں دور تھی اور اسے مزید دور کر دیا جائے گا ۔بلکہ مجھے تو لگتا ہے لوگ سکول کا راستہ اور نام تک بھول جائیں گے۔
—♦—
سفینہ حسن سماجی، سیاسی اور عوامی مسائل پر لکھتی رہتی ہیں، ان کا تعلق لاہور سے ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی مزدور تحریک اور ترقی پسند سیاست سے بھی منسلک ہیں۔
Comments 1