ایک مصیبت سے نکل کر دوسری اور پھر تیسری مصیبت میں گرفتار ہو جانا اب تقدیر نہیں کہلوائے گی بلکہ یہ طاقت کے اظہار کی وہ اسکواش گیند ہے جو ریباؤنڈ ہو کر عمران خان سے خود ٹکراتی رہے گی جب تک کہ ” کھیل کا وقت” ختم نہ ہو جائے کیونکہ یہ کھیل تو خان نے ہی خود شروع کیا تھا۔
سو اس نے خود بڑھ کر اس کھیل میں قدم رکھ دیا اور پھرطاقت ور حلقوں کے ذریعے ہی حکمران بن گیا۔ طاقت اور دولت کا فطری کمال یہ ہے کہ وہ انسان کی وحشیانہ جبلت کو مکمل طور پر کھول دیتی ہے۔
اسی لیے مذاہب ان دونوں عناصر کو انسان کا بدترن دشمن قرار دیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ انسان کا امتحان شروع ہوگیا۔
خان ایک معمولی لیکن مکار ذہن کا شخص تھا وہ اقتدار کی طاقت کا اسیر ہو کر اپنی جبلت سے مجبور ہو کر حکمرانی کے نشے میں سب سے لڑ بیٹھا۔اور زیادہ طاقت وروں نے اب اسے نکال باہر کر دیا ہے۔ اب وہ تاریخ کا حصہ ہی رہے گا۔ بھلے وہ جیل کے اندر ہو یا باہر۔
دریں چی شک است کہ ہم آج گزشتہ آمروں کی بوئی ہوئی فصل ہی تو آج کاٹ رہے ہیں ۔ جو معاشرتی و معاشی بربادی ‘ تضحیک ‘ مذہبی فقہی اور لسانی تفریق سماج میں پہلے ہی ضیا کے وقت سے پیدا ہو چکی تھی ۔ خان نے اس میں نفرت کے بیج بو کر اپنے کلٹ یا مقبولیت کی کھاد سے اس ملک کی پوری نئی فصل کو زہریلا کر دیا۔
یاد رہے کہ ایسی صورت میں فصل کو جلانا پڑتا ہے تاکہ نئی فصل انسان کے لیے بہتر آئے لیکن یہاں فصل نہیں نسلِ انسانی کا سوال ہے ۔
چنانچہ سماج جب تک خود اس کا ادراک نہیں کرے گا جب تک کھیت زہریلے ہی رہیں گے۔
خان نے صدیوں کی بربادی اپنی حکمرانی کے چند برس میں کر دی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے کل پرزے اور نیو امپیرئیل ازم کے اس ایجنٹ نے پاکستانی ریاست کے راستے میں ایسے کانٹے بو دئیے ہیں کہ اب پاکستان کے ترقی پسند ادیب و شاعر پاکستان کے دیگر نظریاتی طبقات اہل علم و ادب کے ساتھ شامل بھی ہوجائیں تو تب بھی سماج کی درستگی میں بہت عرصہ درکار ہوگا تب جا کر ریاست درست سمت میں سفر کرنے کے قابل ہوگی ۔
—♦—
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے سنئیر وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک ملکی و عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے تاحیات ممبر ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
ایک مصیبت سے نکل کر دوسری اور پھر تیسری مصیبت میں گرفتار ہو جانا اب تقدیر نہیں کہلوائے گی بلکہ یہ طاقت کے اظہار کی وہ اسکواش گیند ہے جو ریباؤنڈ ہو کر عمران خان سے خود ٹکراتی رہے گی جب تک کہ ” کھیل کا وقت” ختم نہ ہو جائے کیونکہ یہ کھیل تو خان نے ہی خود شروع کیا تھا۔
سو اس نے خود بڑھ کر اس کھیل میں قدم رکھ دیا اور پھرطاقت ور حلقوں کے ذریعے ہی حکمران بن گیا۔ طاقت اور دولت کا فطری کمال یہ ہے کہ وہ انسان کی وحشیانہ جبلت کو مکمل طور پر کھول دیتی ہے۔
اسی لیے مذاہب ان دونوں عناصر کو انسان کا بدترن دشمن قرار دیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ انسان کا امتحان شروع ہوگیا۔
خان ایک معمولی لیکن مکار ذہن کا شخص تھا وہ اقتدار کی طاقت کا اسیر ہو کر اپنی جبلت سے مجبور ہو کر حکمرانی کے نشے میں سب سے لڑ بیٹھا۔اور زیادہ طاقت وروں نے اب اسے نکال باہر کر دیا ہے۔ اب وہ تاریخ کا حصہ ہی رہے گا۔ بھلے وہ جیل کے اندر ہو یا باہر۔
دریں چی شک است کہ ہم آج گزشتہ آمروں کی بوئی ہوئی فصل ہی تو آج کاٹ رہے ہیں ۔ جو معاشرتی و معاشی بربادی ‘ تضحیک ‘ مذہبی فقہی اور لسانی تفریق سماج میں پہلے ہی ضیا کے وقت سے پیدا ہو چکی تھی ۔ خان نے اس میں نفرت کے بیج بو کر اپنے کلٹ یا مقبولیت کی کھاد سے اس ملک کی پوری نئی فصل کو زہریلا کر دیا۔
یاد رہے کہ ایسی صورت میں فصل کو جلانا پڑتا ہے تاکہ نئی فصل انسان کے لیے بہتر آئے لیکن یہاں فصل نہیں نسلِ انسانی کا سوال ہے ۔
چنانچہ سماج جب تک خود اس کا ادراک نہیں کرے گا جب تک کھیت زہریلے ہی رہیں گے۔
خان نے صدیوں کی بربادی اپنی حکمرانی کے چند برس میں کر دی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے کل پرزے اور نیو امپیرئیل ازم کے اس ایجنٹ نے پاکستانی ریاست کے راستے میں ایسے کانٹے بو دئیے ہیں کہ اب پاکستان کے ترقی پسند ادیب و شاعر پاکستان کے دیگر نظریاتی طبقات اہل علم و ادب کے ساتھ شامل بھی ہوجائیں تو تب بھی سماج کی درستگی میں بہت عرصہ درکار ہوگا تب جا کر ریاست درست سمت میں سفر کرنے کے قابل ہوگی ۔
—♦—