پاکستان کی بدحال معیشت اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے سماجی مسائل اس قدر بھیانک شکل اختیار کر گئے ہیں کہ آج سے قریب 10-20 سال پہلے بھی ان کے بارے میں سوچا تک نہیں جا سکتا تھا کہ کبھی ایسی صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ گو کہ اُس وقت بھی حالات کوئی مثالی نہ تھے بس جیسے تیسے کر کے گزارہ ممکن تھا اور بہت سے خاندان سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے میں قدرے کامیاب بھی تھے۔ لیکن اب وہ بھرم کی ساری چادریں ان کے وجود سے کھینچ کر کہیں پرے پھینک دی گئی ہیں ۔ درمیانے طبقے کی بھی ایک بڑی تعداد مفلسی کے گرداب میں دھکیل دی گئی ہے۔
دوسری طرف حکمران اشرافیہ عوام کو درپیش مسائل اور مشکلات سے بے بہرہ اپنے اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف ہے۔سب ایک دوسرے کو چور اور لٹیرہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر اس معاشی بدحالی اور سماجی ابتری کا حل دینے سے قاصر ہیں۔
اشیائے خوردو نوش جو کہ محنت کشوں کی تو قوتِ خرید سے کب کی نکل چکی ہیں اور اب تو مڈل کلاس کی دسترس سے بھی باہر ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ گوشت ، فروٹ وغیرہ تو اب صرف اشرافیہ ہی خرید سکتی ہے۔ دالیں ، سبزیاں ، گھی ،چینی، آٹے کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ حکومت کی اعلان کردہ کم از کم اجرت جو کہ 32000 روپے ہے ( جو کہ پاکستان میں اکثریت محنت کشوں کو نہیں ملتی) اِ س میں بھی دو سے چار لافراد پر مشتمل کُنبے کا بجٹ بنانا اور مہینہ بھر گزارا کرنا ناممکن ہے۔
بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں آئے روز بے تحاشا اضافے نے تو بہت سے خاندانوں کی زندگی کی آخری آس تک بجھا دی ہے۔ آئے روز معاشی تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر خودکشیوں کا سلسلہ شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ جبکہ اس ملک کی اشرافیہ کو تقریباً 17 ارب ڈالر کی سالانہ مراعات دی جاتی ہیں۔ ان مراعات میں صرف بجلی کی ہی بات کی جائے تو اشرافیہ ، بیوروکریٹوں، ججوں اور جرنیلوں کو ہر ماہ 46 کروڑ یونٹ مفت دئیے جاتے ہیں۔ اور مفت خوری کی یہ لَت ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی نہیں چھوٹتی ، بلکہ اسی شدت سے جاری رہتی ہے۔یہ تو سیدھی سی "قانونی سہولت” ہے اس کے علاوہ طاقتور اور بااختیار لوگ ہی بجلی چوری بھی کرتے ہیں۔ جس کا سارا بوجھ مہنگائی، بے روزگاری سے پریشان ، بدحال اور افلاس زدہ غریب عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے۔
اس صورت حال کے ستائے ہوئے لوگ پاکستان اور کشمیر بھر میں سراپا احتجاج ہیں ، کشمیر میں تو بجلی کے بلوں میں ہوشربا ظالمانہ ٹیکسوں کے خلاف ایک پوری تحریک کھڑی ہو گئی ہے۔ جو کہ عوامی ایکشن کمیٹیوں کے تحت سرگرمِ عمل ہے اور 31 اگست کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں عام ہڑتال کو منظم کیا جا رہاہے۔
کشمیر بھر میں بجلی کے بلوں کا مکمل بائیکاٹ جاری ہے لوگ اجتماعی طور پر مختلف علاقوں میں بل نذرِ آتش کر رہے ہیں۔ اس بائیکاٹ کی کال نے پاکستان کے کچھ شہروں میں بھی عوام لڑنے کا راستہ دکھایا ہے۔ کراچی میں ٹمبر مارکیٹ کے تاجروں اور انجمن تاجران کے بعض دھڑوں نے بھی بجلی کے بل ادا نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
بائیکاٹ کرنے سے بڑے سے بڑے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ بائیکاٹ وہ واحد حل ہوتا ہے جس سے حکومتیں عوام کے آگے ہاتھ جوڑ کر منت کرتی ہیں کہ انہیں آج کے بعد یہ مسئلہ نہیں ہو گا ۔
اسی طرح پٹرول اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کا سوال ہے تو یہاں پر بھی جہاں جہاں ممکن ہو سکے خریداری کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ایسے ہی گراں فروشی بھی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے کوئی پرائس چیکنگ اور کنٹرول موجود نہیں ہے۔ ریاست تو جیسے یکسر ہی اپاہج ہو گئی ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب سرمایہ دار، تاجر اپنی بدمعاشی پر اتر آئیں اور دس روپے کی چیز غریب عوام کو دو سو روپے میں ملنے لگے تو عوام ان سرمایہ دار تاجروں کو ایک ہی طریقے سے ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں وہ ہے عوامی بائیکاٹ ۔
کسی بھی چیز کا بائیکاٹ اس وقت ضروری ہو جاتا ہے جب آپ ہر طرح سے مہنگائی کی چکی میں پسنے لگتے ہیں ۔دھرنے دینے، احتجاج کرنے سے بھی زیادہ فائدہ مند بائیکاٹ ہے ۔ ہم موجودہ صورت حال پر نظر ڈالیں تو ہر طرف جو مہنگائی کا عفریت سر چڑھ کر ناچ رہا ہے اور حکومت اپنی عیاشیوں میں مست ہے اگر عوام کچھ دن کے لئے پٹرول ، ٹیکسسز اور اشیاء خوردونوش کی چیزوں کا بائیکاٹ کر دے تو صورتحال تبدیل ہو جائے گی ،بس بارش کا پہلا قطرہ بننے کی ضرورت ہے سیلاب خود ہی آجائے گا ۔
پاکستان بھر کی عوام دوست قوتوں کو چاہئے کہ عوامی ایکشن کمیٹیاں تشکیل دیں اور موجودہ مہنگائی کا بوجھ عوام کے بجائے حکمران اشرافیہ پر منتقل کیا جائے۔ اشرافیہ، بیوروکریٹوں، ججوں، جرنیلوں اور دیگر سرکاری ملازمین کی مفت خوریاں فوراً بند کرائی جائیں اور ان کی مراعات کا بھی عوامی کمیٹیوں کے ذریعے جائزہ لیتے ہوئے خاتمہ کیا جائے۔
—♦—
سفینہ حسن سماجی، سیاسی اور عوامی مسائل پر لکھتی رہتی ہیں، ان کا تعلق لاہور سے ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی مزدور تحریک اور ترقی پسند سیاست سے بھی منسلک ہیں۔
Comments 2
جواب دیں جواب منسوخ کریں
پاکستان کی بدحال معیشت اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے سماجی مسائل اس قدر بھیانک شکل اختیار کر گئے ہیں کہ آج سے قریب 10-20 سال پہلے بھی ان کے بارے میں سوچا تک نہیں جا سکتا تھا کہ کبھی ایسی صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ گو کہ اُس وقت بھی حالات کوئی مثالی نہ تھے بس جیسے تیسے کر کے گزارہ ممکن تھا اور بہت سے خاندان سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے میں قدرے کامیاب بھی تھے۔ لیکن اب وہ بھرم کی ساری چادریں ان کے وجود سے کھینچ کر کہیں پرے پھینک دی گئی ہیں ۔ درمیانے طبقے کی بھی ایک بڑی تعداد مفلسی کے گرداب میں دھکیل دی گئی ہے۔
دوسری طرف حکمران اشرافیہ عوام کو درپیش مسائل اور مشکلات سے بے بہرہ اپنے اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف ہے۔سب ایک دوسرے کو چور اور لٹیرہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر اس معاشی بدحالی اور سماجی ابتری کا حل دینے سے قاصر ہیں۔
اشیائے خوردو نوش جو کہ محنت کشوں کی تو قوتِ خرید سے کب کی نکل چکی ہیں اور اب تو مڈل کلاس کی دسترس سے بھی باہر ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ گوشت ، فروٹ وغیرہ تو اب صرف اشرافیہ ہی خرید سکتی ہے۔ دالیں ، سبزیاں ، گھی ،چینی، آٹے کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ حکومت کی اعلان کردہ کم از کم اجرت جو کہ 32000 روپے ہے ( جو کہ پاکستان میں اکثریت محنت کشوں کو نہیں ملتی) اِ س میں بھی دو سے چار لافراد پر مشتمل کُنبے کا بجٹ بنانا اور مہینہ بھر گزارا کرنا ناممکن ہے۔
بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں آئے روز بے تحاشا اضافے نے تو بہت سے خاندانوں کی زندگی کی آخری آس تک بجھا دی ہے۔ آئے روز معاشی تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر خودکشیوں کا سلسلہ شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ جبکہ اس ملک کی اشرافیہ کو تقریباً 17 ارب ڈالر کی سالانہ مراعات دی جاتی ہیں۔ ان مراعات میں صرف بجلی کی ہی بات کی جائے تو اشرافیہ ، بیوروکریٹوں، ججوں اور جرنیلوں کو ہر ماہ 46 کروڑ یونٹ مفت دئیے جاتے ہیں۔ اور مفت خوری کی یہ لَت ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی نہیں چھوٹتی ، بلکہ اسی شدت سے جاری رہتی ہے۔یہ تو سیدھی سی "قانونی سہولت” ہے اس کے علاوہ طاقتور اور بااختیار لوگ ہی بجلی چوری بھی کرتے ہیں۔ جس کا سارا بوجھ مہنگائی، بے روزگاری سے پریشان ، بدحال اور افلاس زدہ غریب عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے۔
اس صورت حال کے ستائے ہوئے لوگ پاکستان اور کشمیر بھر میں سراپا احتجاج ہیں ، کشمیر میں تو بجلی کے بلوں میں ہوشربا ظالمانہ ٹیکسوں کے خلاف ایک پوری تحریک کھڑی ہو گئی ہے۔ جو کہ عوامی ایکشن کمیٹیوں کے تحت سرگرمِ عمل ہے اور 31 اگست کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں عام ہڑتال کو منظم کیا جا رہاہے۔
کشمیر بھر میں بجلی کے بلوں کا مکمل بائیکاٹ جاری ہے لوگ اجتماعی طور پر مختلف علاقوں میں بل نذرِ آتش کر رہے ہیں۔ اس بائیکاٹ کی کال نے پاکستان کے کچھ شہروں میں بھی عوام لڑنے کا راستہ دکھایا ہے۔ کراچی میں ٹمبر مارکیٹ کے تاجروں اور انجمن تاجران کے بعض دھڑوں نے بھی بجلی کے بل ادا نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
بائیکاٹ کرنے سے بڑے سے بڑے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ بائیکاٹ وہ واحد حل ہوتا ہے جس سے حکومتیں عوام کے آگے ہاتھ جوڑ کر منت کرتی ہیں کہ انہیں آج کے بعد یہ مسئلہ نہیں ہو گا ۔
اسی طرح پٹرول اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کا سوال ہے تو یہاں پر بھی جہاں جہاں ممکن ہو سکے خریداری کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ایسے ہی گراں فروشی بھی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے کوئی پرائس چیکنگ اور کنٹرول موجود نہیں ہے۔ ریاست تو جیسے یکسر ہی اپاہج ہو گئی ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب سرمایہ دار، تاجر اپنی بدمعاشی پر اتر آئیں اور دس روپے کی چیز غریب عوام کو دو سو روپے میں ملنے لگے تو عوام ان سرمایہ دار تاجروں کو ایک ہی طریقے سے ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں وہ ہے عوامی بائیکاٹ ۔
کسی بھی چیز کا بائیکاٹ اس وقت ضروری ہو جاتا ہے جب آپ ہر طرح سے مہنگائی کی چکی میں پسنے لگتے ہیں ۔دھرنے دینے، احتجاج کرنے سے بھی زیادہ فائدہ مند بائیکاٹ ہے ۔ ہم موجودہ صورت حال پر نظر ڈالیں تو ہر طرف جو مہنگائی کا عفریت سر چڑھ کر ناچ رہا ہے اور حکومت اپنی عیاشیوں میں مست ہے اگر عوام کچھ دن کے لئے پٹرول ، ٹیکسسز اور اشیاء خوردونوش کی چیزوں کا بائیکاٹ کر دے تو صورتحال تبدیل ہو جائے گی ،بس بارش کا پہلا قطرہ بننے کی ضرورت ہے سیلاب خود ہی آجائے گا ۔
پاکستان بھر کی عوام دوست قوتوں کو چاہئے کہ عوامی ایکشن کمیٹیاں تشکیل دیں اور موجودہ مہنگائی کا بوجھ عوام کے بجائے حکمران اشرافیہ پر منتقل کیا جائے۔ اشرافیہ، بیوروکریٹوں، ججوں، جرنیلوں اور دیگر سرکاری ملازمین کی مفت خوریاں فوراً بند کرائی جائیں اور ان کی مراعات کا بھی عوامی کمیٹیوں کے ذریعے جائزہ لیتے ہوئے خاتمہ کیا جائے۔
—♦—
سفینہ حسن سماجی، سیاسی اور عوامی مسائل پر لکھتی رہتی ہیں، ان کا تعلق لاہور سے ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی مزدور تحریک اور ترقی پسند سیاست سے بھی منسلک ہیں۔
Comments 2
-
نعیم بیگ says:
بہت عمدہ تبصرہ و تجزیہ۔عام سفید پوش لوگوں کے مالی حالات پہلے ہی مخدوش تھے اب بجلی گرا کر ان سے زندگی ہی چھینی جا رہی ہے۔ بہت سے دوستوں نے اس بارے بہت تکلیف دہ باتیں کی ہیں ۔
بہت عمدہ تبصرہ و تجزیہ۔عام سفید پوش لوگوں کے مالی حالات پہلے ہی مخدوش تھے اب بجلی گرا کر ان سے زندگی ہی چھینی جا رہی ہے۔ بہت سے دوستوں نے اس بارے بہت تکلیف دہ باتیں کی ہیں ۔
جی شکریہ نعیم بیگ صاحب۔ ضرورت اب اس امر کی ہے کہ لوگوں کو حکمران اشرافیہ کی اس لوٹ کھسوٹ کے خلاف منظم کرتے ہوئے ملک گیر عوامی تحریک کھڑی کی جائے۔ ورنہ یہ حکمران عوام کے جموں سے گوشت بھی نوچ ڈالیں گے۔