8 فروری 2024ء کے انتخابات اور نتائج مکمل ہو چکے۔ نتائج سے واضح ہو گیا ہے، کہ کسی بھی تین بڑی بورژوا (سرمایہ دار) پارٹیوں مسلم لیگ (ن)، آزاد منتخب ارکان کی شکل میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی میں سے کسی کو بھی سادہ اکثریت نہیں ملی۔ آپ اسے split mandate بھی کہہ سکتے ہیں، کہ کوئی بھی ایک پارٹی اپنے طور پرحکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ہم نے تینوں پارٹیوں کو درست طور بورژوا پارٹیاں کہا ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو آگےجا کر کریں گے۔
جو سوال اس وقت زیر بحث ہے، وہ تحریک انصاف کو غیر متوقع ملنے والا ووٹ ہے۔ عمومی رائے ہے کہ ووٹر نے اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ جذبات کا اظہار کیا ہے۔ جو کہ ایک حد تک درست بھی ہے، اگر ہمارے نزدیک بھی درست ہے، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کون سی نئی بات یا اضافہ کرنے جا رہے ہیں۔ یا یہ معروضات لکھنے کی ضرورت کیوں پڑی؟۔
ہمارے نزدیک دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک ہمارا لیفٹ، ووٹر کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ perception پر ضرورت سے زیادہ جذباتی ہوا ہوا ہے۔ دوسرا ہمیشہ کی طرح اب بھی ان تینوں بڑی پارٹیوں کے طبقاتی کردار بارے ابہام کا شکار ہے۔ ہمارے نزدیک لیفٹ جسے طبقاتی کردار گردانتا ہے۔ وہ کردار کی بجائے rhetoric کا فرق ہے۔ ورنہ معاشی پالیسیوں کے اعتبار سے تینوں پارٹیوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ تینوں فری مارکیٹ اکانومی کی حامی ہیں۔
تینوں نج کاری ( privatization) کا ایجنڈا رکھتی ہیں۔ ہمارے لبرلز اور لیفٹ کے کچھ حصوں میں خاص طور پر پیپلزپارٹی بارے زیادہ کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ بہت سے سمجھدار دوست بھی پیپلزپارٹی کو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا نام دیتے ہیں۔ ہمارا ہمیشہ ان دوستوں سے سوال رہتا ہے کہ
پسماندہ دنیا میں کسی بھی سوشل ڈیموکریٹ کے لیے دو شرائط پوری کرنا لازمی ہے۔ ایک جاگیرداری نظام کا خاتمہ اور دوسرا سیکولر ہونا ضروری ہے۔ پیپلزپارٹی ان دونوں پر پورا نہیں اترتی۔
جاگیرداری پر بلاول بھٹو کا تازہ ترین مؤقف 8 فروری کے پولنگ کے فوری بعد جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے زرعی اصلاحات کی ضرورت سے انکار ہے۔ دوسرا یہاں تک مذہبی بیانیہ کی بات ہے۔ ہم پہلے بھی کئی بار یہ بات دُہرا چکے ہیں، کہ پیپلزپارٹی کا مذہبی بیانیہ جاگیردارانہ سماج کا اوپری پرتو ہے۔
مذہبی بیانیہ rhetoric پسماندہ ممالک کی مڈل کلاس کی ضرورت ہوتا ہے۔ قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں میں مڈل کلاس کی ناپیدگی کی بنا پر مذہبی/شریعت کے سوالات کی زیادہ ضرورت / اہمیت نہیں ہوتی۔
البتہ ایسے معاشروں میں رجعت پرستی / ذہنی پسماندگی بدرجہ اتم ہوتی ہے ۔ جو ایسے معاشروں کے حکمران طبقات کے مفادات کی نگہبانی کے فرائض بھی سرانجام دیتی ہے ۔ بدیں وجہ ذہنی پسماندگی قائم رکھنے میں حکمران طبقہ کی دلچسپی رہتی ہے۔
اب آتے ہیں خاص طور پر عمران خان یا تحریک انصاف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کے سوال پر۔ ہمارے نزدیک یہ ساری سپورٹ عمران خان کی ذات کے گرد گھومتی ہے۔ ایسے ہی جیسے کل تک نواز شریف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے تک تھی۔ البتہ یہاں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بارے تھوڑا فرق کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ انہوں نے ایک لمبا عرصہ اسٹیبلشمنٹ کے جارحانہ سلوک کا سامنا کیا اور بالآخر چارٹر آف ڈیموکریسی COD پر دستخط کیے۔ آئیڈیلی نہ سہی ایک حد تک اس پر عملدرآمد بھی کیا۔
ہمیں ان بورژوا پارٹیوں کو پسماندہ اور اسٹیبلشمنٹ بالادست معاشروں کے عدسہ ( prism ) سے ہی دیکھنا چاہیے۔ عمران خان کا معاملہ بلکل الگ ہے۔ اسے ابھی چند ماہ ہوئے ان حالات سے واسطہ پڑا ہے۔ ورنہ کل تک وہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا رہا ہے۔ ہمارے نزدیک اسے اب بھی زمینی حقائق کا ادراک نہیں۔ اگر ہوتا تو وہ اپنے گزشتہ کردار پر نظرثانی کرکے دیگر سیاسی قوتوں کے قریب آ جاتا۔ بلکہ اقتدار ملتے ہی ایسا کرتا۔ اسے اپنے پیشروؤں کی نوے کی دہائی کی غلطیوں سے خود ہی سیکھ جانا چاہیے تھا۔
ویسے ہماری ایک پختہ رائے ہے ، کہ عمران خان میں سیکھنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہم نے ” 9 مئی ” کے عنوان سے کچھ گزارشات لکھی تھیں۔ جس میں باقی باتوں کے علاوہ عرض کیا تھا ، کہ عمران خان کے 9 مئی کے ایڈونچر نے رہی سہی سویلین space بھی اسٹیبلشمنٹ کو encroach کرنے کا موقعہ فراہم کر دیا۔ پتہ نہیں ہمارا لبرل اور ایک خاص لیفٹ عمران خان کو ایک populist لیڈر کے طور پر کیوں نہیں دیکھتا۔
ہم اپنے عام قاری کے لیے عرض کرنا چاہتے ہیں، کہ populist اور مقبول popular لیڈر دو مختلف لوگ ہوتے ہیں۔ populist لیڈر جیسے ٹرمپ ، مودی ، خود عمران ،دنیا میں اور بھی مثالیں موجود ہیں۔ جو کسی ایک نظریہ یا پروگرام سے بندھا ہوا نہیں ہوتا۔ ہر قسم کے مقبول عام نعروں سے کھیلتا رہتا ہے۔
غلامی کے نعرے بغیر کسی concrete معنی کے لگاتے رہو ۔ اس کے چاہنے والوں میں مذہبی ، لبرلز، سیکولر ایک ہی وقت میں اس کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔ اس کے پیروکار بھی اسی طرح اس کے ساتھ ساتھ سفر کرتے رہتے ہیں۔ اور متشدد بھی ہوتے ہیں۔
عمران خان کے ریاست مدینہ، تسبیح، مذہبی ٹچ ، انتہا درجے کی تواہم پرستی اور پلے بوائے ایک ہی وقت میں اس کے ساتھ چل رہے ہیں۔
اس کے معتقدین بھی کبھی غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ریاست مدینہ ہوگی تو اس میں شریعت کے سوالات تو اٹھیں گے۔ عدت کے دوران نکاح اور سزا کا سوال تو پیدا ہو گا۔ ہم تو سیکولر ( مذہبی رواداری ) والے لوگ ہیں۔ ایسے مقدمات اور سزاؤں کے حق میں نہیں ہیں۔ ہمارے نزدیک اس سے عورت کے خلاف مرد کے ہاتھ ایک ہتھیار آ جاتا ہے۔ جب چاہے گا استعمال کر لے گا۔
عمران خان اپنے آپ کو امربالمعروف سے ہمیشہ منسوب رکھتا ہے، کہ وہ جو کہتا ہے ، وہی درست ہے۔ باقی سب چور ، ڈاکو، لٹیرے ہیں۔ وہی لٹیرے اگر اس کے ساتھ آجائیں، تو وہ گنگا نہائے ٹھہرتے ہیں۔
ابھی تک عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ساتھ نتھی رہنے پر مجبور کر رہا ہے، نہ کہ اسے اس کی domain میں دھکیلنے کی جدوجہد کرتا دکھائی دیتا ہے۔ سویلین بالادستی کی ابھی تک تو اس نے بات نہیں کی۔ ہمارے نزدیک اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا مطلب اسٹیبلشمنٹ کے معاشی سوتے خشک کرنا اور اسے اس کی domain میں دھکیلنا ہی اولین کام ہیں۔
دوسرا اینٹی امریکہ ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ خان صاحب تو خیر اینٹی امریکہ بھی نہیں ہیں۔ اینٹی سامراج (امریکہ) ہونا ضروری امر ہے۔ مطلب امریکی سامراج اور اس کے سرمایہ دارانہ اتحادیوں کی دنیا بھر میں معاشی لوٹ کھسوٹ کے خلاف آواز بلند کرنا۔ امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کے لئے جنگیں مالی مفادات کا باعث بنتی ہیں۔ سامراج جنگوں کو اپنا اسلحہ بیچنے کی غرض سے بڑھاوا دیتا رہتا ہے ۔
اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ عمران خان خود بھی اور اس کے پیروکار بھی اینٹی سامراج ( امریکہ ) اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ، کے معیار پر پورا نہیں اترتے، ناپ تول کے درست ترازو پر تو وہ فیل ہو جاتے ہیں۔ ان کا غصہ صرف عمران خان کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی حد تک ہی ہے۔ کوئی اُصولی، جمہوری مؤقف نہیں بنتا۔ ہم نے لکھتے وقت بھرپور کوشش کی ہے، کہ خان صاحب کے ذاتی کردار پر بات کرنے سےگریز کیا جائے۔ صرف ان کے سیاسی نظریات، مؤقف پر سوالات اٹھاتے ہوئے حالیہ انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کیا جائے۔ اس کو ابھی اور آگے بڑھانے کا ارادہ ہے ۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
8 فروری 2024ء کے انتخابات اور نتائج مکمل ہو چکے۔ نتائج سے واضح ہو گیا ہے، کہ کسی بھی تین بڑی بورژوا (سرمایہ دار) پارٹیوں مسلم لیگ (ن)، آزاد منتخب ارکان کی شکل میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی میں سے کسی کو بھی سادہ اکثریت نہیں ملی۔ آپ اسے split mandate بھی کہہ سکتے ہیں، کہ کوئی بھی ایک پارٹی اپنے طور پرحکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ہم نے تینوں پارٹیوں کو درست طور بورژوا پارٹیاں کہا ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو آگےجا کر کریں گے۔
جو سوال اس وقت زیر بحث ہے، وہ تحریک انصاف کو غیر متوقع ملنے والا ووٹ ہے۔ عمومی رائے ہے کہ ووٹر نے اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ جذبات کا اظہار کیا ہے۔ جو کہ ایک حد تک درست بھی ہے، اگر ہمارے نزدیک بھی درست ہے، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کون سی نئی بات یا اضافہ کرنے جا رہے ہیں۔ یا یہ معروضات لکھنے کی ضرورت کیوں پڑی؟۔
ہمارے نزدیک دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک ہمارا لیفٹ، ووٹر کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ perception پر ضرورت سے زیادہ جذباتی ہوا ہوا ہے۔ دوسرا ہمیشہ کی طرح اب بھی ان تینوں بڑی پارٹیوں کے طبقاتی کردار بارے ابہام کا شکار ہے۔ ہمارے نزدیک لیفٹ جسے طبقاتی کردار گردانتا ہے۔ وہ کردار کی بجائے rhetoric کا فرق ہے۔ ورنہ معاشی پالیسیوں کے اعتبار سے تینوں پارٹیوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ تینوں فری مارکیٹ اکانومی کی حامی ہیں۔
تینوں نج کاری ( privatization) کا ایجنڈا رکھتی ہیں۔ ہمارے لبرلز اور لیفٹ کے کچھ حصوں میں خاص طور پر پیپلزپارٹی بارے زیادہ کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ بہت سے سمجھدار دوست بھی پیپلزپارٹی کو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا نام دیتے ہیں۔ ہمارا ہمیشہ ان دوستوں سے سوال رہتا ہے کہ
پسماندہ دنیا میں کسی بھی سوشل ڈیموکریٹ کے لیے دو شرائط پوری کرنا لازمی ہے۔ ایک جاگیرداری نظام کا خاتمہ اور دوسرا سیکولر ہونا ضروری ہے۔ پیپلزپارٹی ان دونوں پر پورا نہیں اترتی۔
جاگیرداری پر بلاول بھٹو کا تازہ ترین مؤقف 8 فروری کے پولنگ کے فوری بعد جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے زرعی اصلاحات کی ضرورت سے انکار ہے۔ دوسرا یہاں تک مذہبی بیانیہ کی بات ہے۔ ہم پہلے بھی کئی بار یہ بات دُہرا چکے ہیں، کہ پیپلزپارٹی کا مذہبی بیانیہ جاگیردارانہ سماج کا اوپری پرتو ہے۔
مذہبی بیانیہ rhetoric پسماندہ ممالک کی مڈل کلاس کی ضرورت ہوتا ہے۔ قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں میں مڈل کلاس کی ناپیدگی کی بنا پر مذہبی/شریعت کے سوالات کی زیادہ ضرورت / اہمیت نہیں ہوتی۔
البتہ ایسے معاشروں میں رجعت پرستی / ذہنی پسماندگی بدرجہ اتم ہوتی ہے ۔ جو ایسے معاشروں کے حکمران طبقات کے مفادات کی نگہبانی کے فرائض بھی سرانجام دیتی ہے ۔ بدیں وجہ ذہنی پسماندگی قائم رکھنے میں حکمران طبقہ کی دلچسپی رہتی ہے۔
اب آتے ہیں خاص طور پر عمران خان یا تحریک انصاف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کے سوال پر۔ ہمارے نزدیک یہ ساری سپورٹ عمران خان کی ذات کے گرد گھومتی ہے۔ ایسے ہی جیسے کل تک نواز شریف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے تک تھی۔ البتہ یہاں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بارے تھوڑا فرق کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ انہوں نے ایک لمبا عرصہ اسٹیبلشمنٹ کے جارحانہ سلوک کا سامنا کیا اور بالآخر چارٹر آف ڈیموکریسی COD پر دستخط کیے۔ آئیڈیلی نہ سہی ایک حد تک اس پر عملدرآمد بھی کیا۔
ہمیں ان بورژوا پارٹیوں کو پسماندہ اور اسٹیبلشمنٹ بالادست معاشروں کے عدسہ ( prism ) سے ہی دیکھنا چاہیے۔ عمران خان کا معاملہ بلکل الگ ہے۔ اسے ابھی چند ماہ ہوئے ان حالات سے واسطہ پڑا ہے۔ ورنہ کل تک وہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا رہا ہے۔ ہمارے نزدیک اسے اب بھی زمینی حقائق کا ادراک نہیں۔ اگر ہوتا تو وہ اپنے گزشتہ کردار پر نظرثانی کرکے دیگر سیاسی قوتوں کے قریب آ جاتا۔ بلکہ اقتدار ملتے ہی ایسا کرتا۔ اسے اپنے پیشروؤں کی نوے کی دہائی کی غلطیوں سے خود ہی سیکھ جانا چاہیے تھا۔
ویسے ہماری ایک پختہ رائے ہے ، کہ عمران خان میں سیکھنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہم نے ” 9 مئی ” کے عنوان سے کچھ گزارشات لکھی تھیں۔ جس میں باقی باتوں کے علاوہ عرض کیا تھا ، کہ عمران خان کے 9 مئی کے ایڈونچر نے رہی سہی سویلین space بھی اسٹیبلشمنٹ کو encroach کرنے کا موقعہ فراہم کر دیا۔ پتہ نہیں ہمارا لبرل اور ایک خاص لیفٹ عمران خان کو ایک populist لیڈر کے طور پر کیوں نہیں دیکھتا۔
ہم اپنے عام قاری کے لیے عرض کرنا چاہتے ہیں، کہ populist اور مقبول popular لیڈر دو مختلف لوگ ہوتے ہیں۔ populist لیڈر جیسے ٹرمپ ، مودی ، خود عمران ،دنیا میں اور بھی مثالیں موجود ہیں۔ جو کسی ایک نظریہ یا پروگرام سے بندھا ہوا نہیں ہوتا۔ ہر قسم کے مقبول عام نعروں سے کھیلتا رہتا ہے۔
غلامی کے نعرے بغیر کسی concrete معنی کے لگاتے رہو ۔ اس کے چاہنے والوں میں مذہبی ، لبرلز، سیکولر ایک ہی وقت میں اس کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔ اس کے پیروکار بھی اسی طرح اس کے ساتھ ساتھ سفر کرتے رہتے ہیں۔ اور متشدد بھی ہوتے ہیں۔
عمران خان کے ریاست مدینہ، تسبیح، مذہبی ٹچ ، انتہا درجے کی تواہم پرستی اور پلے بوائے ایک ہی وقت میں اس کے ساتھ چل رہے ہیں۔
اس کے معتقدین بھی کبھی غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ریاست مدینہ ہوگی تو اس میں شریعت کے سوالات تو اٹھیں گے۔ عدت کے دوران نکاح اور سزا کا سوال تو پیدا ہو گا۔ ہم تو سیکولر ( مذہبی رواداری ) والے لوگ ہیں۔ ایسے مقدمات اور سزاؤں کے حق میں نہیں ہیں۔ ہمارے نزدیک اس سے عورت کے خلاف مرد کے ہاتھ ایک ہتھیار آ جاتا ہے۔ جب چاہے گا استعمال کر لے گا۔
عمران خان اپنے آپ کو امربالمعروف سے ہمیشہ منسوب رکھتا ہے، کہ وہ جو کہتا ہے ، وہی درست ہے۔ باقی سب چور ، ڈاکو، لٹیرے ہیں۔ وہی لٹیرے اگر اس کے ساتھ آجائیں، تو وہ گنگا نہائے ٹھہرتے ہیں۔
ابھی تک عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ساتھ نتھی رہنے پر مجبور کر رہا ہے، نہ کہ اسے اس کی domain میں دھکیلنے کی جدوجہد کرتا دکھائی دیتا ہے۔ سویلین بالادستی کی ابھی تک تو اس نے بات نہیں کی۔ ہمارے نزدیک اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا مطلب اسٹیبلشمنٹ کے معاشی سوتے خشک کرنا اور اسے اس کی domain میں دھکیلنا ہی اولین کام ہیں۔
دوسرا اینٹی امریکہ ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ خان صاحب تو خیر اینٹی امریکہ بھی نہیں ہیں۔ اینٹی سامراج (امریکہ) ہونا ضروری امر ہے۔ مطلب امریکی سامراج اور اس کے سرمایہ دارانہ اتحادیوں کی دنیا بھر میں معاشی لوٹ کھسوٹ کے خلاف آواز بلند کرنا۔ امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کے لئے جنگیں مالی مفادات کا باعث بنتی ہیں۔ سامراج جنگوں کو اپنا اسلحہ بیچنے کی غرض سے بڑھاوا دیتا رہتا ہے ۔
اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ عمران خان خود بھی اور اس کے پیروکار بھی اینٹی سامراج ( امریکہ ) اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ، کے معیار پر پورا نہیں اترتے، ناپ تول کے درست ترازو پر تو وہ فیل ہو جاتے ہیں۔ ان کا غصہ صرف عمران خان کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی حد تک ہی ہے۔ کوئی اُصولی، جمہوری مؤقف نہیں بنتا۔ ہم نے لکھتے وقت بھرپور کوشش کی ہے، کہ خان صاحب کے ذاتی کردار پر بات کرنے سےگریز کیا جائے۔ صرف ان کے سیاسی نظریات، مؤقف پر سوالات اٹھاتے ہوئے حالیہ انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کیا جائے۔ اس کو ابھی اور آگے بڑھانے کا ارادہ ہے ۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔