سانحہ جڑانوالہ کی تصاویر اور ویڈیوزسوشل میڈیا پر دیکھ کر دل دہل کے رہ گیا۔ اکیسویں صدی میں بھی وحشت و بربریت کا چلن ہے کہ ہمارا پیچھا ہی چھوڑنے کو نہیں آتا۔ کبھی کوئی ہجوم مذہب کے نام پر ہزاروں میل دور اپنے بچوں کے لئے روزی کمانے آئے کسی باپ کو زندہ جلا دیتا ہے تو کبھی بستیوں کی بستیاں جلا کر راکھ کر دی جاتی ہیں۔ اس ملک کے باسی جنگل کے دور کے وحشی پن کی طرف لوٹ گئے ہوں، جیسے ریاست نام کی تو کوئی چیز ہی ایسے معاملات میں نظر نہیں آتی۔ اور ایسا وحشی پن دکھانے والوں کو کبھی بھی نشانِ عبرت نہیں بنایا گیا کہ جن کے اندر کے جانور پروحشت طاری ہونے لگے تو وہ اپنے سے پہلے وحشیوں کا انجام سوچ کر ہی دہل جائے۔
ایسے سانحے اب تو لگتا ہے ہر چند ماہ بعد کسی خاص پیٹرن سے دوہرائے جاتے ہیں۔ محض مذمتیں، وقتی طفل تسلیاں ہی ایسے اندوہناک واقعات کو مستقبل میں بھی رونما ہونے سے نہیں روکا جا سکتا، بلکہ اس کے اسباب کا خاتمہ کرنا ناگزیر ہے۔کسی بھی سانحے کی مذمت سے بہتر ہے اس کی وجوہات پہ غور کر لینا۔ جہالت اور بے علمی ہی ہمارا مسئلہ ہے اور اس سے بھی بڑا مسئلہ افلاس ہے۔
پچھلے چند سالوں سے ہاتھ میں تسبیح یا پرچی پکڑ کر منافقت اور جہالت سے لبریز حضرات نے جھوٹی فتوحات کے حوالے دے کر جھوٹی تعمیر و ترقی کے خواب دکھائے ہیں۔ دو طبقوں میں بٹا ہوا ملک کیا تصویر دکھائے گا بھلا! جس کی %20 آبادی تو دنیا کو جنت بنا کر مزے کر رہی ہے۔ اور باقی %80 آبادی فاقوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ پسماندہ ہے، ناخواندہ ہے، درماندہ ہے۔ اب جس قدر منافقت اور نفس کی بھوک لوگوں میں بھر دی گئی ہے اگر یہی لوگ کوئی انقلاب لے آئیں اور بازی پلٹ بھی دیں تو کیا ہے! فقط کردار بدلیں گے۔ وہی دولتیں وہی بڑی بڑی گاڑیاں پھر ان کے پاس ہوں گی۔ جب تک دماغ سیراب نہیں ہوں گے ، حقیقی آزادی اور حقیقی ضروریات کا ادراک نہیں آئے گا۔ زندگی گزارنے کے لیے انسان کو کیا چاہیے؟ ایک انسان دن میں کتنی روٹی کھا لیتا ہے! لیکن انہی انسانوں کے مطابق ایک طرف تو دنیا فانی ہے اور دوسری طرف پتا نہیں کتنے جنموں کی دولت سمیٹنی ہے۔ انسان فانی ہے۔ انسانیت نہیں۔ زندگی فانی ہے، دنیا نہیں۔
سب سے ڈراؤنی حقیقت یہ ہے کہ علم اور علم والوں کو اچھوت ثابت کیا گیا ہے۔ سچے علم پر اندھا دُھند فتوے لگائے گئے ہیں۔ سچائیاں چھپائی گئی ہیں۔ یہ وہ سچائیاں ہیں جو یقین سے نہیں شک سے آشکار ہوتی ہیں۔ سوچنا انسان میں شک و شبہات پیدا کرتا ہے جس سے انسان کسی غلط نتیجے پر نہیں پہنچتا بلکہ مسلسل خود احتسابی سے خود کو اور گرد و نواح کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ مگر سوچنے والوں کو ملحد، دہریے، بے دین اور تو اور پاگل جیسے خطابات سے نوازا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یقین ایک فتور ہے، بے وقوفی ہے۔ اور سوچنے والے دانشور اگر پاگل ہیں تو یہ ہی دیوانے اصل میں دیوانِ اعلیٰ ہیں جن کے سر پر بڑی بڑی ذمہ داریاں ہیں۔
دوسری طرف علم والوں کی ایک ایسی تعداد بھی ہے جو جانتی ہے مگر دوغلی ہے۔ یہ وہ علم والے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ کب کیا وار کرنا ہے۔ بے علم لوگ محض بے وقوف ہیں مگر یہ علم والے خود پسند اور گھمنڈی ہیں۔ وہ مخصوص علم حاصل کرتے ہیں کہ بے علمی اس علم سے بہتر ہوتی ہے۔ کم سے کم اُس میں معصومیت کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ اس طرح لا علمی ان کا مستقل مقدر بنی رہتی ہے۔ پھر بہتری کیسے آئے۔ غربت و افلاس نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ پیٹ میں بھوک ہے، رویوں میں چڑ چڑاپن ہے۔ سفاکی اتنی ہے کہ عمارتوں کی عمارتیں چاہے بھسم ہو جائیں، کوئی بڑے سے بڑا حادثہ رونما ہو جائے، خون کی ندیاں بہہ جائیں، لوگوں کے لیے معمول کی بات ہے۔ کیا ہوا کسی اور کا ہی تو نقصان ہوا ہے۔ یاد رہے دوسرے انسانوں سے نفرت کر کے خود سے بھی محبت کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ خود سے محبت میں بھی کوئی ذوق ہوتا ہے، کوئی ڈھنگ ہوتا ہے، کوئی رنگ ہوتا ہے۔ مگر محبت جیسی خوبصورت چیز کہاں ہے؟ یہاں تو نہیں ہے۔ دُور تک نہیں ہے۔ بس گھٹن ہے، تھکن ہے اور ہر ماتھے پہ شکن ہے۔ اب ضروری ہے کہ کاغذ اور قلم کی اہمیت کو سمجھا جائے تاکہ عقل و دانش کو فروغ ملے اور گھٹن ختم ہو۔
دوسری طرف علم والوں کی ایک ایسی تعداد بھی ہے جو جانتی ہے مگر دوغلی ہے۔ یہ وہ علم والے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ کب کیا وار کرنا ہے۔ بے علم لوگ محض بے وقوف ہیں مگر یہ علم والے خود پسند اور گھمنڈی ہیں۔ وہ مخصوص علم حاصل کرتے ہیں کہ بے علمی اس علم سے بہتر ہوتی ہے۔ کم سے کم اُس میں معصومیت کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ اس طرح لا علمی ان کا مستقل مقدر بنی رہتی ہے۔ پھر بہتری کیسے آئے۔ غربت و افلاس نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ پیٹ میں بھوک ہے، رویوں میں چڑ چڑاپن ہے۔ سفاکی اتنی ہے کہ عمارتوں کی عمارتیں چاہے بھسم ہو جائیں، کوئی بڑے سے بڑا حادثہ رونما ہو جائے، خون کی ندیاں بہہ جائیں، لوگوں کے لیے معمول کی بات ہے۔ کیا ہوا کسی اور کا ہی تو نقصان ہوا ہے۔ یاد رہے دوسرے انسانوں سے نفرت کر کے خود سے بھی محبت کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ خود سے محبت میں بھی کوئی ذوق ہوتا ہے، کوئی ڈھنگ ہوتا ہے، کوئی رنگ ہوتا ہے۔ مگر محبت جیسی خوبصورت چیز کہاں ہے؟ یہاں تو نہیں ہے۔ دُور تک نہیں ہے۔ بس گھٹن ہے، تھکن ہے اور ہر ماتھے پہ شکن ہے۔ اب ضروری ہے کہ کاغذ اور قلم کی اہمیت کو سمجھا جائے تاکہ عقل و دانش کو فروغ ملے اور گھٹن ختم ہو۔
اس ملک کی کروڑوں کی آبادی کے آنے والے چند سال کیسے ہوں گے! کہتے ہوئے زباں ساتھ نہیں دیتی۔ مگر جو کہا نہیں جا سکتا، کاش کہ سوچا بھی نہ جائے۔ کاش یہ ملک بھی پڑھے لکھے مہذب انسانوں کا ملک ہو، جو جانتے ہوں کہ انسانیت کیا ہے، جو دوسروں کے مصائب کو اپنا سمجھیں، جو وقت کی قدر کرنا جانتے ہوں، جو جھوٹے نہ ہوں، بے ایمان نہ ہوں، ظالم نہ ہوں، مگر یہ ایک خواب ہی تو ہے۔ یہ خواب پورا ہو بھی سکتا ہے اگر اس سوال کا جواب ڈھونڈ لیا جائے کہ پہلے غربت جائے گی اور لوگ پڑھیں گے یا لوگ پڑھیں گے تو غربت کا خاتمہ ہو گا۔
———♦———
تنزیلہ مغل شاعرہ، مصنفہ اور گلوکارہ ہیں۔ زیادہ تر انگریزی زبان میں لکھتی ہیں، ان کی شاعری کی دو کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ سماجی مسائل پر اکثر مضامین بھی لکھتی رہتی ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
سانحہ جڑانوالہ کی تصاویر اور ویڈیوزسوشل میڈیا پر دیکھ کر دل دہل کے رہ گیا۔ اکیسویں صدی میں بھی وحشت و بربریت کا چلن ہے کہ ہمارا پیچھا ہی چھوڑنے کو نہیں آتا۔ کبھی کوئی ہجوم مذہب کے نام پر ہزاروں میل دور اپنے بچوں کے لئے روزی کمانے آئے کسی باپ کو زندہ جلا دیتا ہے تو کبھی بستیوں کی بستیاں جلا کر راکھ کر دی جاتی ہیں۔ اس ملک کے باسی جنگل کے دور کے وحشی پن کی طرف لوٹ گئے ہوں، جیسے ریاست نام کی تو کوئی چیز ہی ایسے معاملات میں نظر نہیں آتی۔ اور ایسا وحشی پن دکھانے والوں کو کبھی بھی نشانِ عبرت نہیں بنایا گیا کہ جن کے اندر کے جانور پروحشت طاری ہونے لگے تو وہ اپنے سے پہلے وحشیوں کا انجام سوچ کر ہی دہل جائے۔
ایسے سانحے اب تو لگتا ہے ہر چند ماہ بعد کسی خاص پیٹرن سے دوہرائے جاتے ہیں۔ محض مذمتیں، وقتی طفل تسلیاں ہی ایسے اندوہناک واقعات کو مستقبل میں بھی رونما ہونے سے نہیں روکا جا سکتا، بلکہ اس کے اسباب کا خاتمہ کرنا ناگزیر ہے۔کسی بھی سانحے کی مذمت سے بہتر ہے اس کی وجوہات پہ غور کر لینا۔ جہالت اور بے علمی ہی ہمارا مسئلہ ہے اور اس سے بھی بڑا مسئلہ افلاس ہے۔
پچھلے چند سالوں سے ہاتھ میں تسبیح یا پرچی پکڑ کر منافقت اور جہالت سے لبریز حضرات نے جھوٹی فتوحات کے حوالے دے کر جھوٹی تعمیر و ترقی کے خواب دکھائے ہیں۔ دو طبقوں میں بٹا ہوا ملک کیا تصویر دکھائے گا بھلا! جس کی %20 آبادی تو دنیا کو جنت بنا کر مزے کر رہی ہے۔ اور باقی %80 آبادی فاقوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ پسماندہ ہے، ناخواندہ ہے، درماندہ ہے۔ اب جس قدر منافقت اور نفس کی بھوک لوگوں میں بھر دی گئی ہے اگر یہی لوگ کوئی انقلاب لے آئیں اور بازی پلٹ بھی دیں تو کیا ہے! فقط کردار بدلیں گے۔ وہی دولتیں وہی بڑی بڑی گاڑیاں پھر ان کے پاس ہوں گی۔ جب تک دماغ سیراب نہیں ہوں گے ، حقیقی آزادی اور حقیقی ضروریات کا ادراک نہیں آئے گا۔ زندگی گزارنے کے لیے انسان کو کیا چاہیے؟ ایک انسان دن میں کتنی روٹی کھا لیتا ہے! لیکن انہی انسانوں کے مطابق ایک طرف تو دنیا فانی ہے اور دوسری طرف پتا نہیں کتنے جنموں کی دولت سمیٹنی ہے۔ انسان فانی ہے۔ انسانیت نہیں۔ زندگی فانی ہے، دنیا نہیں۔
سب سے ڈراؤنی حقیقت یہ ہے کہ علم اور علم والوں کو اچھوت ثابت کیا گیا ہے۔ سچے علم پر اندھا دُھند فتوے لگائے گئے ہیں۔ سچائیاں چھپائی گئی ہیں۔ یہ وہ سچائیاں ہیں جو یقین سے نہیں شک سے آشکار ہوتی ہیں۔ سوچنا انسان میں شک و شبہات پیدا کرتا ہے جس سے انسان کسی غلط نتیجے پر نہیں پہنچتا بلکہ مسلسل خود احتسابی سے خود کو اور گرد و نواح کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ مگر سوچنے والوں کو ملحد، دہریے، بے دین اور تو اور پاگل جیسے خطابات سے نوازا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یقین ایک فتور ہے، بے وقوفی ہے۔ اور سوچنے والے دانشور اگر پاگل ہیں تو یہ ہی دیوانے اصل میں دیوانِ اعلیٰ ہیں جن کے سر پر بڑی بڑی ذمہ داریاں ہیں۔
دوسری طرف علم والوں کی ایک ایسی تعداد بھی ہے جو جانتی ہے مگر دوغلی ہے۔ یہ وہ علم والے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ کب کیا وار کرنا ہے۔ بے علم لوگ محض بے وقوف ہیں مگر یہ علم والے خود پسند اور گھمنڈی ہیں۔ وہ مخصوص علم حاصل کرتے ہیں کہ بے علمی اس علم سے بہتر ہوتی ہے۔ کم سے کم اُس میں معصومیت کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ اس طرح لا علمی ان کا مستقل مقدر بنی رہتی ہے۔ پھر بہتری کیسے آئے۔ غربت و افلاس نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ پیٹ میں بھوک ہے، رویوں میں چڑ چڑاپن ہے۔ سفاکی اتنی ہے کہ عمارتوں کی عمارتیں چاہے بھسم ہو جائیں، کوئی بڑے سے بڑا حادثہ رونما ہو جائے، خون کی ندیاں بہہ جائیں، لوگوں کے لیے معمول کی بات ہے۔ کیا ہوا کسی اور کا ہی تو نقصان ہوا ہے۔ یاد رہے دوسرے انسانوں سے نفرت کر کے خود سے بھی محبت کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ خود سے محبت میں بھی کوئی ذوق ہوتا ہے، کوئی ڈھنگ ہوتا ہے، کوئی رنگ ہوتا ہے۔ مگر محبت جیسی خوبصورت چیز کہاں ہے؟ یہاں تو نہیں ہے۔ دُور تک نہیں ہے۔ بس گھٹن ہے، تھکن ہے اور ہر ماتھے پہ شکن ہے۔ اب ضروری ہے کہ کاغذ اور قلم کی اہمیت کو سمجھا جائے تاکہ عقل و دانش کو فروغ ملے اور گھٹن ختم ہو۔
دوسری طرف علم والوں کی ایک ایسی تعداد بھی ہے جو جانتی ہے مگر دوغلی ہے۔ یہ وہ علم والے ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ کب کیا وار کرنا ہے۔ بے علم لوگ محض بے وقوف ہیں مگر یہ علم والے خود پسند اور گھمنڈی ہیں۔ وہ مخصوص علم حاصل کرتے ہیں کہ بے علمی اس علم سے بہتر ہوتی ہے۔ کم سے کم اُس میں معصومیت کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ اس طرح لا علمی ان کا مستقل مقدر بنی رہتی ہے۔ پھر بہتری کیسے آئے۔ غربت و افلاس نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ پیٹ میں بھوک ہے، رویوں میں چڑ چڑاپن ہے۔ سفاکی اتنی ہے کہ عمارتوں کی عمارتیں چاہے بھسم ہو جائیں، کوئی بڑے سے بڑا حادثہ رونما ہو جائے، خون کی ندیاں بہہ جائیں، لوگوں کے لیے معمول کی بات ہے۔ کیا ہوا کسی اور کا ہی تو نقصان ہوا ہے۔ یاد رہے دوسرے انسانوں سے نفرت کر کے خود سے بھی محبت کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ خود سے محبت میں بھی کوئی ذوق ہوتا ہے، کوئی ڈھنگ ہوتا ہے، کوئی رنگ ہوتا ہے۔ مگر محبت جیسی خوبصورت چیز کہاں ہے؟ یہاں تو نہیں ہے۔ دُور تک نہیں ہے۔ بس گھٹن ہے، تھکن ہے اور ہر ماتھے پہ شکن ہے۔ اب ضروری ہے کہ کاغذ اور قلم کی اہمیت کو سمجھا جائے تاکہ عقل و دانش کو فروغ ملے اور گھٹن ختم ہو۔
اس ملک کی کروڑوں کی آبادی کے آنے والے چند سال کیسے ہوں گے! کہتے ہوئے زباں ساتھ نہیں دیتی۔ مگر جو کہا نہیں جا سکتا، کاش کہ سوچا بھی نہ جائے۔ کاش یہ ملک بھی پڑھے لکھے مہذب انسانوں کا ملک ہو، جو جانتے ہوں کہ انسانیت کیا ہے، جو دوسروں کے مصائب کو اپنا سمجھیں، جو وقت کی قدر کرنا جانتے ہوں، جو جھوٹے نہ ہوں، بے ایمان نہ ہوں، ظالم نہ ہوں، مگر یہ ایک خواب ہی تو ہے۔ یہ خواب پورا ہو بھی سکتا ہے اگر اس سوال کا جواب ڈھونڈ لیا جائے کہ پہلے غربت جائے گی اور لوگ پڑھیں گے یا لوگ پڑھیں گے تو غربت کا خاتمہ ہو گا۔
———♦———
تنزیلہ مغل شاعرہ، مصنفہ اور گلوکارہ ہیں۔ زیادہ تر انگریزی زبان میں لکھتی ہیں، ان کی شاعری کی دو کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ سماجی مسائل پر اکثر مضامین بھی لکھتی رہتی ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT