عہد ِزوال میں اقدار ہی نہیں، محاورے بھی مسخ ہو جاتے ہیں ۔ سرکاری تمغوں اور اعزازات کی "عطائی” میں تھوڑی بہت ناانصافی کی روایت تو بہت پرانی ہے بھلے وقتوں میں، اس نوع کی ڈنڈی مارے جانے کے بعد ، سرکار مدار کی جانب سے اس باب میں کسی نوع کی تلافی اور معزرت خواہی کا سلیقہ بھی استوار رکھا جاتا۔ خیر وہ زمانہ بھی مختلف تھا کہ علم و ادب کی بابت معاشرے کا احساس بڑی حد تک زندہ تھا اور ہیئت۔حاکمہ کی آنکھ کا پانی بھی ابھی مرا نہیں تھا : یعنی کوئی پچاس برس پہلے۔ پھر یوں ہوا کہ ایک منظم طریق پر ان ریوڑیوں کی بندر بانٹ شروع ہوئی کبھی بنام ۔سیاست کبھی برائے گروہ ۔ اور ادھر , چند برسوں سے تو ہوائے حرص و ہوس نے وہ رنگ بدلا ہے کہ بندر بانٹ کا صدیوں پرانا محاورہ، "اندر بانٹ” کی درفنطنی میں منقلب ہوگیا ہے۔ تاہم بہت چالاکی سے اس مکروہ "اندر بانٹ” پر اعتبار کی چادر اوڑھانے کیلئے درجنوں غلط بخشیوں کے پہلو بہ پہلو دو تین حقیقی استحقاق رکھنے والوں کو بھی تمغہءوخلعت سے ‘ سرفراز ‘ فرمادیا جاتا ہے کہ کوئی انگلی اٹھائے تو ان ‘حقیقیوں’ کی قدر افزائی کا حوالہ دے کر تیغ۔ تنقید کو کند کردیا جائے۔
اس ‘اندر بانٹ’ کا سب سے تکلیف دہ زاویہ یہ ہے کہ زیادہ وقیع کام کرنے والوں کو نسبتاً کم درجہ اور مالی استعانت سے خالی تمغہء و خلعت کی چوسنی تھما دی جائے اور ان کہیں کمتر علمی و تخلیقی کارگزاری کی حامل "اصحاب۔نا صفہ” کو برتر اور مالی فوائد سے لیس اعزازات کا سزاوار ۔۔۔۔ کسی شرما حضوری کا تکلف برتے بغیر ۔ علم و ادب کے منطقے میں اس برس کی ‘زیر شناسیوں’ کی نمایاں ترین مثالیں سلیم شہزاد اور عقیل عباس جعفری کی ہیں جن کے کثیرالجہات اور وقیع کام کے مقابل، بہت سے ‘بوزنوں’ کی ڈیوڑھے بلکہ اول درجے کے ڈبے میں نشست فرمائی ، غلط بخشی ہی نہیں، شرمناکی پر بھی دال ہے ۔
اس محضر کا جوہری مقصد تنقیص ۔محض ہے نا پکی پکائی ہنڈیا میں اپنے پاس سے مکھی ڈالنا۔ بلکہ حق بہ حق دار رسید کے مصداق ، ستائش۔حسنہ کے پہلو بہ پہلو، ان ‘ڈنڈی بازیوں’ اور صریح غلط بخشیوں کی نشاندہی اور ان پر گرفت کرنا ہے کہ بہرطور یہ اعزازات کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ مملکت کی امانت ہیں اور ان میں خیانت کرنے والا (خواہ کوئ ہو) اپنے ضمیر ہی کا نہیں، مملکت کا گنہ گار بھی ہوتا ہے ۔ واضح رہے کہ اس فقیر کو مفت میں برا بننے ، اور ادبی مافیاؤں کا خواہ مخواہ ہدف قرار دیئے جانے کا ‘رسک’ لینے کی ضرورت اس لئے بھی محسوس ہوئی کہ اس خاک بسر کی ساری زندگی لفظ و خیال کی سرفرازی اور بے آواز ادیبوں کی آواز بنے رہنے میں صرف ہوئ ہے ، ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کئے بغیر ۔ اور یہ خاک بہ سر ادبی قبیلے کے بے آوازوں اور محرومین کا ترجمان ہونے میں فخر محسوس کرتا ہے ۔سو ایک بے لاگ اظہاریہ پیش ہے۔
اس برس کے یافتگان ( تمغہءحسنِ کارکردگی) میں نزیر قیصر , مسرت کلانچوی اور محمد الیاس کے نام دیکھ کر دلی مسرت ہوئی اور فیصلہ کرنے والوں کیلئے دل سے دعا بھی نکلی کہ یہ محترمین ساری زندگی ادب اور معیاری ادب کی تخلیق میں غایت درجہ درویشی اور خلوص کے ساتھ منہمک رہے ہیں، کسی سیڑھی کے مرہون ہوئے نہ کسی لابی کی چشم۔عنایت کے متمنی ۔ خصوصآ جناب۔نزیر قیصر جنہیں کئی بار یہ اعزاز ملتے ملتے رہ گیا کہ ہر مرتبہ کوئی کم توفیق لیکن ‘اندھوں’ کا منظورِنظر شکرا ، تمغے کی بوٹی لے اڑا ۔
لیکن ادب کے اس پیرِتسمہ پا کی ‘ہل من مزید ‘ ہوس۔سپاس و انعام کا کیا جائے جسے کسی پل چین ہے نہ جس کے شانت ہونے کا دور دور تک کوئ امکان ۔ موصوف ہر دوسرے برس کسی نہ کسی خلعت پر نظریں جما لیتے ہیں اور مزے کی بات کہ اپنی بےمثال استعداد۔خوماشد، حاکمان۔وقت کی چاپلوسی اور مؤثر لابئنگ کے طفیل اسے ہتھیانے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں ۔ ورنہ کسے علم نہیں کہ نام نہاد افتخار. ادب کی کل کمائی اوسط درجے کی شاعری کے سوا کچھ نہیں (جس پر بہت سے متقدمین اور ہم عصروں کے فکر سخن کی واضح چھاپ لگی ہے). ہاں ! میڈیا اور ہیئت۔حاکمہ کی بیساکھیاں انہیں ہر دور میں دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ ‘سخاوت سے میسر رہی ہیں لیکن آپ جانیں ، ادب کی قلمرو میں کھوٹا سکہ زیادہ دیر نہیں چلتا۔ اگرچہ موصوف کی مکروہانہ کارگزاریوں پر دفتر کے دفتر سیاہ کئے جاسکتے ہیں تاہم، مختصرآ یہی کہ وہ اس عہد کے ادبی ‘عالمگیر’ ہیں جن کی دستبرد سے کوئ ادارہ بچا نہ مفاد و انعام کا کوئی موقع ۔ اس بار وہ بغیر کسی عہد آفریں ادبی کاوش کے، مملکت کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز ‘ بھی ‘ غصب’ کر کے لیکن اگلے برس وہ کیا کریں گے !! بہتر یہی ہے کہ ان کے, اور ان جیسے چند اور دائمی خلعت پسندوں کیلئے بطور ۔ خاص نشان۔حیدر (سول) اختراع کرکے انکے گلوئے خم ناک میں ابھی سے آویزاں کردیا جائے۔ لیکن اس امر میں بھی اندیشہ بہرحال مضمر ہے کہ وہ یہ نہ کہہ دیں ” میں دو لوں گا” ۔ ضرور ہے کہ نشان حیدر ایسے مقدس اعزاز کیلئے جام۔شہادت نوش کرنا لازم ہے لیکن جام۔شہادت نہ سہی ، ان کی تحویل میں جام۔خوشامد و اطاعت تو ہے نا جو ادبی حریفوں اور لفظ و خیال کے حقیقی قدآوروں کے کشتوں کے پشتے لگانے پر بخوبی قادر ہے ۔
تمغوں اور خلعتوں کی اس چوہا دوڑ کا نسبتاًنیا کھلاڑی کراچی کا ایک وارداتیںا ہے جسے وہاں کا گھس بیٹھیا ہی کہا جانا چاہیئے کہ علوم و فنون میں کسی نوع کی استعداد تو درکنار اس کا ادب اور آرٹ سے دور کا بھی واسطہ نہیں لیکن ‘آقاؤں’ کی مسلسل سرپرستی اور کاسہ لیسی کے باعث وہ ، ملک کی سب سے بڑی آرٹس کونسل پر برسوں سے قابض ہے ، بظاہر منتخب طریقے سے لیکن درپردہ خفیہ ہاتھوں کی تائید و معاونت سے۔ موصوف کی نمایاں ترین کارگزاری، بڑے پیمانے کی کانفرنسیں کروانا اور اس لاسے سرکار دربار کے علاؤہ کارپوریٹ سیکٹر سے اپنے ‘مربیوں’ کی اشیرباد سے باقاعدگی کے ساتھ کروڑوں روپے اینٹھنا (جن کی شفافیت اور آڈٹ کا کوئ اہتمام نہیں).
ان کانفرنسوں میں برسوں سے ایک ہی طرح کے چہرے اور ایک ہی ڈھب کے موضوعات ارزانی رہے ہیں۔ بے شمار جینوئن ادیبوں پر ان کانفرنسوں کے دروازے ہمیشہ سے بند ہیں البتہ ایک دو برس سے ادبی کانفرنس کے نام پر منعقد کئے جانے والے اس ادبی سرکس میں صحافیوں اور اداکاروں کی ‘انٹری اور کلیدی حیثیت سے شرکت کا لازمی اہتمام کیا جاتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کی کیا صحافیوں اور اداکاروں نے اپنے کسی اجتماع میں کبھی ، ادب اور ادیبوں کو اس فضیلت کا سزاوار گردانا ہے ۔ لیکن یہ ادب نہیں تعلقات ۔عامہ کا کھیل ہے ۔ اس ‘کارگزاری’ کے عوض موصوف کو پچھلے برس ستارہء امتیاز سے نوازا گیا تو اس سال ہلال امتیاز سے اور آئندہ برس ؟؟؟ ۔ یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ کوئ پوچھے کہ مملکت۔ خداد کے یہ اعلیٰ ترین اعزازات کیا اتنے بے توقیر ہوچکے کہ ایک سرتاپا غیر تخلیقی شخص پر یہ ادبی اشرفیاں بلااستحقاق اور تواترسے نچھاور کی جارہی ہیں وہ بھی ادب کے تخلیقی گوشوارے سے ۔
اعزازات کی اس لوٹ سیل میں, سب سے زیادہ بے توقیری کا ہدف, تمغہءحسن ۔کارکردگی رہا ہے۔ آج سے نہیں عشروں سے۔ غالبآ اس لئے کہ اس ‘مظلوم’ کے ساتھ خطیر انعامی رقم بھی منسلک ہے۔ ریوڑیاں بانٹنے والوں کا یہ آزمودہ طریقہء کار ہے کہ ایک دو مستحقین کی آڑ میں آٹھ دس حاشیہ برداروں کو بھی نوازدیا جائے ، ان کے نام اور کام کی کم حیثیئتی سے قطع نظر ۔ اس بار کے دو سرفرازان نہ صرف ایک ہی شاخ۔بے تخم کے برگ و بار ہیں بلکہ غلیظ ادبی سیاست اور غیر نصابی ۔مشاغل کے پشتی بان بھی۔ مشاعراتی لوٹ مار کے علاؤہ مستحقین کا پتہ کٹوانا ، بغل بچوں کے زریعے دوسروں کی پگڑیاں اچھلوانا، دساور و اندرونِ ملک کے مشاعروں پر ہر صورت ہاتھ صاف کرنا اور کسی جینوئن شاعر کا سو جتنوں سے پتا کاٹنا ، ان کے مرغوب مشغلے ہیں ۔
اس گروہ کے گرو گھنٹال کے گلوئے سخن پر بیسیوں ژندہ اور مرحوم شعرا کے کلام پر انتہائ مستقل مزاجی اور بے خوفی سے ہاتھ صاف کرنا اور کمال ڈھٹائی سے اسے حق بجانب قرار دینا ہے ۔ موصوف کسی علمی اور تحقیقی استحقاق کے بغیر ، ایک شاگرد پیشہ ‘برمکی ‘ کی عنایت ۔بےجا سے اردو دنیا کے معتبر ترین علمی اور تحقیقی ادارے کی سربراہی پر پہلے ہی ‘مے’ متمکن ہوچکے اور اب اعزازوں کی نا مختتم میراتھن کا حصہ۔ رہا ان کے خلیفہء نامجاز و بے اعجاز کا قصہ : جن کا اس اعزاز کیلئے نمایاں ترین استحقاق محض اتنا ہے کہ وہ۔ نوکر شاہی کے کل پرزہ ہیں اور دارالحکومت کے ترقیاتی (!!) ادارے میں ایک کلیدی عہدے پر فائز ۔ رہی بات ان کی شاعری کی تو وہ اوسط درجے سے زیادہ کی ہرگز نہیں بلکہ بعض صورتوں میں تو اس سے بھی کم۔ یونہی رہا تو کیا عجب کہ اس مثلث۔ قبضہ و غصبہ کا ایک مغبجہ بھی ، جلد ہی،اپنی مخنث شاعری کی بنیاد پر، اس دستار ۔فضیلت کا اہل ٹھہرے جسے اپنے سر سجانے کی آرزو لئے ہیروں ایسے درجنوں سخنور، خاک کو عزیز ہوگئے اور بیسیوں ایس باری کے انتظار میں بستر سے لگے ییں, جس کے بر آنے کا امکان، ان پیداگیروں کی موجودگی میں بہت مدھم ہے ۔
تمغوں کی اسی صف میں شاعری کے کوٹے سے ایک ایسے تک بند اور خالصتاً ناشاعر کے سر پر بھی سہرا باندھا گیا ہے جس کی ‘ تک بندانہ ‘ پوٹلی میں سرے سے کوئ شعر موجود ہی نہیں اور جس کا کل اثاثہ پھکڑ پن اور مجع گیری سے عبارت ہے (اب مجمع آرائی کا کیا مزکور، وہ تو سلاجیت بیچنے والا کوئی چرب ساز بھی جب چاہے، بیچ سڑک لگا سکتا ہے اور جب تک چاہے لگا سکتا ہے ۔ مجھے اور ادب کے مخلص طالب علموں کی تشویش کا مرکزہ تو مزاحیہ شاعری کی اس درخشاں روایت کی جاریہ بے آبروئ ہے، جسے اکبر اللہ آبادی، ضمیر جعفری ، دلاور فگار، سید محمد جعفری، عنایت علی خان اور اطہر شاہ خان جیدی ایسے خوں فگاروں نے تہذیب کیا اور غایت درجہ تخلیقیت سے ادبی اعتبار فراہم کیا (یہاں انور مسعود صاحب کا زکر دانستہ نہیں کیا گیا کہ وہ امسال بھی ادب کا اعلٰی ترین اعزاز وصولنے میں کامیاب ہی نہیں رہے بلکہ اپنی لازوال پرفارمینس اور صدیوں پرانی ‘بنین’ ، کے صدقے جس کے دھاگے تک ،دونوں ہاتھوں بلکہ پاؤں کی انگلیوں تک سے ہن سمیٹنے میں سرگرداں ہیں اور بس ۔ بھاڑ میں گئ ادیب کی درویشی اور بے لوثی)
اس ضمن میں اہل۔نظر کی خدمت میں ایک بنیادی اورکلیدی سوال رکھنا ازبس ضروری ہے :
کیا مذکورہ صاحبان کی شاعری ، تقدم اور ادبی قد و قامت غلام حسین ساجد، حلیم قریشی ، شاہدہ حسن، نسیم سید ،پروین طاہر رفیق سندیلوی، شاید شیدائی، نصیر احمد ناصر، رفیق سندیلوی، محمد علی فرشی ، باقی احمد پوری ، حسن عباس رضا، شاہین عباس (اور بہت سے دوسرے محترمین) سے زیادہ بڑا ہے کہ انہیں نظر انداز کرکے یہ ریوڑی انوکھے لاڈلوں کے ہاتھ میں تھما دی گئی!
امسال کے اعزازات کی پاکستان کی دیگر زبانوں اور وفاقی اکائیوں کی بھی نمایاں حق تلفی ہوئ ہے جبکہ بہت سی غلط بخشیاں بھی, حسب۔سابق ر وا رکھی گئ ہیں جن کا زکر اور جائزہ الگ دفتر کا متقاضی ہے۔ لیکن مشتے از خروارے کے مصداق پنجابی زبان و ادب کو ہی لیجئے۔ خوشی کا مقام ہے کہ اس زیل میں نگہ۔انتخاب ، ابکے حمید رازی پر ٹھہری ہے جن کا پنجابی ترجمے، کہانی اور تنقید میں نہایت وقیع کام ہے لیکن پنجابی زبان ادب کیلئے پروین ملک، الیاس گھمن، راجا صادق اللہ، مشتاق صوفی، جمیل پال، مقصود ثاقب، غلام حسین ساجد ، زبیر احمد، ناصر بلوچ، اقبال قیصر، خالد فتح محمداور دوسرے درجنوں مہان لکھاری کس جرم میں برس ہا برس سے نظر انداز کئے جارہے ہیں !! جناب نجم حسین سید کا معاملہ اور ماجرا تو خیر بالکل ہی الگ اور ماوراء ہے ۔
اور ہاں ! ناصر عباس نئیر جن کا تنقید اور افسانے میں کام بے مثل بھی ہے اور متواتر بھی، کیوں اس فہرست کا حصّہ نہیں۔ ضرور ہے کہ وہ بہت پہلے اس ‘شرف و عطا ‘ سے بے رغبتی کا اظہار کر چکے ہیں لیکن نگہِ انتخاب کو تو منصفی کا ثبوت دینا ہی چاہئیے، اور کچھ نہیں تو ان اعزازات کو معتبر بنانے اور ان کی زائل شدہ توقیر کو بحال کرنے کیلئے ہی سہی ۔
قارئین کرام! اس محضر کی طوالت کیلئے معزرت ۔ لیکن لفظ و خیال کی سربلندی اورایک مخصوص حلقہ کی جانب سے میرٹ کی مسلسل پامالی اور حقیقی ادیبوں کو پیچھے دھکیل کر ‘لاڈلوں’ کی بے جا ناز بھی کے خلاف بھرپور اور حق پرستانہ آواز بلند کرنا ، ادب کا مقصود بھی ہے اور انصاف کا تقاضا بھی۔ مجھے اس کے مضمرات اور عواقب کا بخوبی اندازہ ہے کہ دربار زادوں کی ایک فوج مجھ پر تقصیر پر فورآ تلواریں سونت لے گی لیکن ایک تو سرکار دربار اورادبی گروہ بندیوں سے میرا کوئ مفاد وابستہ رہا ہے نہ کبھی سروکار۔ دوسرا میں اپنا نہیں حقیقی ادیبوں اور سچے ادب کا مقدمہ لڑ رہا ہوں اور سب سے اہم بات یہ کہ میں حق پرستوں اور صداقت شعاروں کے ازلی و ابدی سالار ، امام حسین کا بے نام بےحیثیت سا، پیروکار ہوں جنہوں نے کربلا میں اپنے آخری خطبے میں دوٹوک اعلان فرمایا تھا :
ظالموں کے ساتھ ژندہ رہنا، ہجائے خود ایک ظلم ہے۔
توصاحبو ! ادب کی اقلیم میں میرٹ کی پامالی سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا !!!
—♦—