پینٹاگون کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ وہ معاہدے کے مطابق 2027 ءتک کیمیاوی ہتھیاروں کا ذخیرہ تباہ نہیں کر سکے گا جبکہ ان پر اخراجات بھی 9 ارب ڈالر ز زیادہ آئیں گے،پینٹا گون کے اعلیٰ عہدیداروں نے ارکانِ کانگریس کے ساتھ ملاقات میں بتایا ہے کہ تباہی کے علاقوں کے ارد گرد رہنے والے امریکی شہریوں کے تحفظ کے لئے کم از کم گیارہ ، بارہ برس درکار ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ تباہی پر 15 ارب ڈالرز اخراجات کی توقع تھی مگر اب یہ اندازہ 25 ارب ڈالرز ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ کے پاس اس وقت 45 ہزار ٹن ہلاکت خیز کیمیاوی ہتھیار موجود ہیں۔
اُدھر سنڈے ایکسپریس میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ؛
” برطانوی سیکرٹ سروس ایم آئی فائیو کو خطرہ ہے کہ پناہ گزینوں کے رُوپ میں برطانیہ آنے والے افراد خطرناک کیمیاوی اشیا ءبھی اپنے ساتھ لارہے ہیں، سیکرٹ سروس کے ایجنٹوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ممکنہ دہشت گردی کی روک تھام کے لئے چوکس رہیں“
اخبار نے آگے چل کرلکھا ہے کہ؛
” اس بات کا خطرہ انٹر نیشنل سپائی آپریشن میں یہ جاننے کے بعد آیا ہے کہ داعش اپنے کیمیائی و حیاتیاتی خطرناک ہتھیار دہشت گردوں تک پہنچانے کے لئے ”اپنے لوگوں“ جو کہ پناہ گزینوں کے بھیس میں ہوں گے، کے ذریعے برطانیہ بھیج سکتے ہیں، اور یہ کہ داعش نے ان کو وارننگ دی ہے کہ اگر انہوں نے حکم عدولی کی تو ان کے اہلِ خانہ اور دوستوں کو نشانہ بنایا جائے گا وغیرہ وغیرہ“
سوال یہ ہے کہ برطانیہ کے اس” سچ“ کا تعین کون کرے گا؟ آج دُنیا کو اس بچے کا انتظار ہے جو برہنہ بادشاہ کو یہ بتاسکے کہ وہ برہنہ ہے۔ ترقی، امداد اور خیر سگالی کے جتنے خوش نما لباس آج یورپ اور امریکہ نے پہن رکھے ہیں وہ سب کے سب ہر چند کہیں ہیں کہ نہیں ہیں۔ اس لیے کہ انسانوں اور انسانوں میں تفریق کرنے والا نظام خواہ کتنی ہی کامیابی کا دعویٰ کرے، اُس وقت تک ناکام کہلائے گا جب تک کہ فلاح کا دائرہ پوری انسانیت کو یکساں طور پر اپنے گھیرے میں نہیں لے لیتا۔ اس کی مثال میں یوں دیتا ہوں کہ جراثیمی اور کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں دنیا آج کتنا جانتی ہے؟ ان ترقی یافتہ ممالک امریکہ،برطانیہ ، فرانس، جرمنی اور اٹلی وغیرہ نے اعلان شدہ تجربات کے علا وہ جراثیمی، کیمیاوی اور ریڈیائی تابکاری کے کتنے خفیہ تجربات کئے ہیں؟
دُنیا میں انسانوں کی ایک پوری نسل ایسی بھی ہے جس کی حیثیت ترقی یافتہ بے لباس شہنشاہوں کے نزدیک تجرباتی چوہوں سے بھی کم ہے! اپنی بات کے ثبوت کے لئے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ایٹم اور ہائیڈروجن بموں سے کہیں زیادہ خطرناک وہ جراثیمی اور کیمیاوی ہتھیار ہیں جو امریکہ اور مغربی ممالک نے تیار کر رکھے ہیں ۔گذشتہ سال میں جون یا جولائی کے کسی شمارے ٹائمزمیں شائع ہونے والی رپورٹ اس کی شاہد ہے، آپ کو یاد ہوگا (غالباً1996ئ) بھارت کے شہر ُسورت میں طاعون کی ہولناک وباءپھیلی تھی، یہ پھیلی نہیں پھیلائی گئی تھی تاکہ ٹیٹرا سا کلین بنانے والی ٹرانس نیشنل کمپنیوں کو فائدہ پہنچا یا جا سکے اور یہ بھی ٹیسٹ کیا جا سکے کہ ضرورت پڑنے پر یہ بھی معلوم کیا جا سکے کہ طاعون یا کوئی دو سری وباءکامیابی کے ساتھ پھیلائی جا سکتی ہے یا نہیں؟
یہاں تک کہ ایڈز کے جرثومے کے بارے میں ایک امریکی سائنسدان ڈاکٹر ایلن جو نیئر کا دعویٰ ہے کہ ایڈز کا وائرس بھی امریکی جراثیمی پروگرام کی پیدا وار ہے۔ اسی ڈاکٹر ایلین جو نیئر کی کتاب جو” ایڈز کے سوداگروں“ کے بارے میں ہے، 1998ءکو شائع ہوئی تھی، اس کتاب کے کچھ حصے نیو افریقن میگزین میں بھی شائع ہوئے تھے لیکن نہ ڈاکٹر ایلن کی کتاب نے شہرت پائی اور نہ اس سے متاثر ڈاکٹراوضو کی مایہ ناز کتاب کو پذیرائی مل سکی جس کے وہ مستحق تھے۔
ڈاکٹر ایلن نے کہا ہے؛
” ایڈز کے وائرس کی پیچیدہ سالمی بناوٹ کی بنا پر یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یا تو اس وائرس کو بنایا گیا ہے یا انجنیئرڈ کیا گیا ہے یا مکس کیا گیا ہے یا پھر یہ کسی دوسرے مہلک وائرس یا کسی قدیم جراثیم کی پیداوار ہے۔“
ڈاکٹر اوضو کی ریسرچ ہے کہ با خبر امریکی سائنسدانوں کو یقین ہے کہ ایڈز وائرس جراثیمی ہتھیاروں کی تیاری کی امریکی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔ کچھ ایسا ہی دوسرے شعبوں میں ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت سائنس سفید فام کے قبضے میں ہے، ترقی کے جو مثبت مظاہر ہمیں اپنے چاروں طرف دکھائی دیتے ہیں ان سے کہیں زیادہ منفی مظاہر دنیا سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔ کبھی کسی رسالے یا کتاب میں کچھ چھپ بھی جاتا ہے تو اس بات کا بھر پور انتظام کیا جاتا ہے کہ بات جہاں کی تہاں ختم کر دی جائے اور افشائِ راز کو شہرت کی کھلی فضاءنصیب نہ ہو سکے۔
کالم ختم کرنے سے پہلے میں آپ 2001ءمیں چھپنے والی رُوسی کتاب کا ایک پیراگراف سُنانا چاہتا ہوں؛
”غیر ملکی کتابوں کا اشاعت گھر“ کے ادارے سے شائع ہونے والی یہ کتاب رُوسی زبان سے اُردو میں ترجمہ کی گئی تھی، اس میں لکھا تھا ؛
”امریکہ کی ریاست البامہ میں 1971ءکے مئی کے مہینے میں جراثیمی اسلحہ پروگرام کے تحت سوزاک کے چار سو غریب سیاہ فام امریکی مریضوں پر ایسے تجربات کئے گئے جن کا مقصد یہ پتہ لگانا تھا کہ سوزاک کا علاج نہ کرنے کی صورت میں مریض پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس زمانے میں اینٹی بائیوٹک دوائیں ایجاد ہو چکی تھیں لیکن سوزاک کے ان سیاہ فام مریضوں کو ان سے محروم رکھا گیا۔ یہاں تک کہ وہ سب مر گئے لیکن تجربہ کرنے والے کامیاب رہے کہ ان کا مقصد حاصل ہو چکا تھا۔“
سو دنیا کو آج اس بچے کا انتظار ہے جو برہنہ بادشاہ کو یہ بتا سکے کہ وہ برہنہ ہے!
جب زندگی کو اپنے موافق نہ کر سکا
تو کشتیِ حیات بھنور میں اُتار دی
—♦—
مصنف کے بارے
اسد مفتی معروف پاکستانی / ڈچ ترقی پسند صحافی ہیں جو عرصہ دراز سے یورپ میں مقیم ہیں۔ مارکسسٹ، لیننسٹ سوچ رکھنے والے سینئر صحافی اسد مفتی کی تحریروں سے عوام بخوبی واقف ہیں۔
انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز (1969) روزنامہ امروز لاہور سے کیا تھا۔ فیض احمد فیض، سبط حسن،حمید اختر، کلدیپ نیر اور آئی کے گجرال کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔ آپ آج سے ڈیلی للکار کے لئے ہفتہ وار کالم ”پانچواں موسم“ کے نام سے لکھا کریں گے۔
اسد مفتی معروف پاکستانی / ڈچ ترقی پسند صحافی ہیں جو عرصہ دراز سے یورپ میں مقیم ہیں۔ مارکسسٹ، لیننسٹ سوچ رکھنے والے سینئر صحافی اسد مفتی کی تحریروں سے عوام بخوبی واقف ہیں۔
انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز (1969) روزنامہ امروز لاہور سے کیا تھا۔ فیض احمد فیض، سبط حسن،حمید اختر، کلدیپ نیر اور آئی کے گجرال کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔ آپ آج سے ڈیلی للکار کے لئے ہفتہ وار کالم ”پانچواں موسم“ کے نام سے لکھا کریں گے۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
پینٹاگون کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ وہ معاہدے کے مطابق 2027 ءتک کیمیاوی ہتھیاروں کا ذخیرہ تباہ نہیں کر سکے گا جبکہ ان پر اخراجات بھی 9 ارب ڈالر ز زیادہ آئیں گے،پینٹا گون کے اعلیٰ عہدیداروں نے ارکانِ کانگریس کے ساتھ ملاقات میں بتایا ہے کہ تباہی کے علاقوں کے ارد گرد رہنے والے امریکی شہریوں کے تحفظ کے لئے کم از کم گیارہ ، بارہ برس درکار ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ تباہی پر 15 ارب ڈالرز اخراجات کی توقع تھی مگر اب یہ اندازہ 25 ارب ڈالرز ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ کے پاس اس وقت 45 ہزار ٹن ہلاکت خیز کیمیاوی ہتھیار موجود ہیں۔
اُدھر سنڈے ایکسپریس میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ؛
” برطانوی سیکرٹ سروس ایم آئی فائیو کو خطرہ ہے کہ پناہ گزینوں کے رُوپ میں برطانیہ آنے والے افراد خطرناک کیمیاوی اشیا ءبھی اپنے ساتھ لارہے ہیں، سیکرٹ سروس کے ایجنٹوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ممکنہ دہشت گردی کی روک تھام کے لئے چوکس رہیں“
اخبار نے آگے چل کرلکھا ہے کہ؛
” اس بات کا خطرہ انٹر نیشنل سپائی آپریشن میں یہ جاننے کے بعد آیا ہے کہ داعش اپنے کیمیائی و حیاتیاتی خطرناک ہتھیار دہشت گردوں تک پہنچانے کے لئے ”اپنے لوگوں“ جو کہ پناہ گزینوں کے بھیس میں ہوں گے، کے ذریعے برطانیہ بھیج سکتے ہیں، اور یہ کہ داعش نے ان کو وارننگ دی ہے کہ اگر انہوں نے حکم عدولی کی تو ان کے اہلِ خانہ اور دوستوں کو نشانہ بنایا جائے گا وغیرہ وغیرہ“
سوال یہ ہے کہ برطانیہ کے اس” سچ“ کا تعین کون کرے گا؟ آج دُنیا کو اس بچے کا انتظار ہے جو برہنہ بادشاہ کو یہ بتاسکے کہ وہ برہنہ ہے۔ ترقی، امداد اور خیر سگالی کے جتنے خوش نما لباس آج یورپ اور امریکہ نے پہن رکھے ہیں وہ سب کے سب ہر چند کہیں ہیں کہ نہیں ہیں۔ اس لیے کہ انسانوں اور انسانوں میں تفریق کرنے والا نظام خواہ کتنی ہی کامیابی کا دعویٰ کرے، اُس وقت تک ناکام کہلائے گا جب تک کہ فلاح کا دائرہ پوری انسانیت کو یکساں طور پر اپنے گھیرے میں نہیں لے لیتا۔ اس کی مثال میں یوں دیتا ہوں کہ جراثیمی اور کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں دنیا آج کتنا جانتی ہے؟ ان ترقی یافتہ ممالک امریکہ،برطانیہ ، فرانس، جرمنی اور اٹلی وغیرہ نے اعلان شدہ تجربات کے علا وہ جراثیمی، کیمیاوی اور ریڈیائی تابکاری کے کتنے خفیہ تجربات کئے ہیں؟
دُنیا میں انسانوں کی ایک پوری نسل ایسی بھی ہے جس کی حیثیت ترقی یافتہ بے لباس شہنشاہوں کے نزدیک تجرباتی چوہوں سے بھی کم ہے! اپنی بات کے ثبوت کے لئے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ایٹم اور ہائیڈروجن بموں سے کہیں زیادہ خطرناک وہ جراثیمی اور کیمیاوی ہتھیار ہیں جو امریکہ اور مغربی ممالک نے تیار کر رکھے ہیں ۔گذشتہ سال میں جون یا جولائی کے کسی شمارے ٹائمزمیں شائع ہونے والی رپورٹ اس کی شاہد ہے، آپ کو یاد ہوگا (غالباً1996ئ) بھارت کے شہر ُسورت میں طاعون کی ہولناک وباءپھیلی تھی، یہ پھیلی نہیں پھیلائی گئی تھی تاکہ ٹیٹرا سا کلین بنانے والی ٹرانس نیشنل کمپنیوں کو فائدہ پہنچا یا جا سکے اور یہ بھی ٹیسٹ کیا جا سکے کہ ضرورت پڑنے پر یہ بھی معلوم کیا جا سکے کہ طاعون یا کوئی دو سری وباءکامیابی کے ساتھ پھیلائی جا سکتی ہے یا نہیں؟
یہاں تک کہ ایڈز کے جرثومے کے بارے میں ایک امریکی سائنسدان ڈاکٹر ایلن جو نیئر کا دعویٰ ہے کہ ایڈز کا وائرس بھی امریکی جراثیمی پروگرام کی پیدا وار ہے۔ اسی ڈاکٹر ایلین جو نیئر کی کتاب جو” ایڈز کے سوداگروں“ کے بارے میں ہے، 1998ءکو شائع ہوئی تھی، اس کتاب کے کچھ حصے نیو افریقن میگزین میں بھی شائع ہوئے تھے لیکن نہ ڈاکٹر ایلن کی کتاب نے شہرت پائی اور نہ اس سے متاثر ڈاکٹراوضو کی مایہ ناز کتاب کو پذیرائی مل سکی جس کے وہ مستحق تھے۔
ڈاکٹر ایلن نے کہا ہے؛
” ایڈز کے وائرس کی پیچیدہ سالمی بناوٹ کی بنا پر یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یا تو اس وائرس کو بنایا گیا ہے یا انجنیئرڈ کیا گیا ہے یا مکس کیا گیا ہے یا پھر یہ کسی دوسرے مہلک وائرس یا کسی قدیم جراثیم کی پیداوار ہے۔“
ڈاکٹر اوضو کی ریسرچ ہے کہ با خبر امریکی سائنسدانوں کو یقین ہے کہ ایڈز وائرس جراثیمی ہتھیاروں کی تیاری کی امریکی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔ کچھ ایسا ہی دوسرے شعبوں میں ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت سائنس سفید فام کے قبضے میں ہے، ترقی کے جو مثبت مظاہر ہمیں اپنے چاروں طرف دکھائی دیتے ہیں ان سے کہیں زیادہ منفی مظاہر دنیا سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔ کبھی کسی رسالے یا کتاب میں کچھ چھپ بھی جاتا ہے تو اس بات کا بھر پور انتظام کیا جاتا ہے کہ بات جہاں کی تہاں ختم کر دی جائے اور افشائِ راز کو شہرت کی کھلی فضاءنصیب نہ ہو سکے۔
کالم ختم کرنے سے پہلے میں آپ 2001ءمیں چھپنے والی رُوسی کتاب کا ایک پیراگراف سُنانا چاہتا ہوں؛
”غیر ملکی کتابوں کا اشاعت گھر“ کے ادارے سے شائع ہونے والی یہ کتاب رُوسی زبان سے اُردو میں ترجمہ کی گئی تھی، اس میں لکھا تھا ؛
”امریکہ کی ریاست البامہ میں 1971ءکے مئی کے مہینے میں جراثیمی اسلحہ پروگرام کے تحت سوزاک کے چار سو غریب سیاہ فام امریکی مریضوں پر ایسے تجربات کئے گئے جن کا مقصد یہ پتہ لگانا تھا کہ سوزاک کا علاج نہ کرنے کی صورت میں مریض پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس زمانے میں اینٹی بائیوٹک دوائیں ایجاد ہو چکی تھیں لیکن سوزاک کے ان سیاہ فام مریضوں کو ان سے محروم رکھا گیا۔ یہاں تک کہ وہ سب مر گئے لیکن تجربہ کرنے والے کامیاب رہے کہ ان کا مقصد حاصل ہو چکا تھا۔“
سو دنیا کو آج اس بچے کا انتظار ہے جو برہنہ بادشاہ کو یہ بتا سکے کہ وہ برہنہ ہے!
جب زندگی کو اپنے موافق نہ کر سکا
تو کشتیِ حیات بھنور میں اُتار دی
—♦—
مصنف کے بارے
اسد مفتی معروف پاکستانی / ڈچ ترقی پسند صحافی ہیں جو عرصہ دراز سے یورپ میں مقیم ہیں۔ مارکسسٹ، لیننسٹ سوچ رکھنے والے سینئر صحافی اسد مفتی کی تحریروں سے عوام بخوبی واقف ہیں۔
انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز (1969) روزنامہ امروز لاہور سے کیا تھا۔ فیض احمد فیض، سبط حسن،حمید اختر، کلدیپ نیر اور آئی کے گجرال کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔ آپ آج سے ڈیلی للکار کے لئے ہفتہ وار کالم ”پانچواں موسم“ کے نام سے لکھا کریں گے۔
اسد مفتی معروف پاکستانی / ڈچ ترقی پسند صحافی ہیں جو عرصہ دراز سے یورپ میں مقیم ہیں۔ مارکسسٹ، لیننسٹ سوچ رکھنے والے سینئر صحافی اسد مفتی کی تحریروں سے عوام بخوبی واقف ہیں۔
انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز (1969) روزنامہ امروز لاہور سے کیا تھا۔ فیض احمد فیض، سبط حسن،حمید اختر، کلدیپ نیر اور آئی کے گجرال کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔ آپ آج سے ڈیلی للکار کے لئے ہفتہ وار کالم ”پانچواں موسم“ کے نام سے لکھا کریں گے۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT