بھگت سنگھ 27 ستمبر 1907ء کو ضلع فیصل آباد ( لائل پور ) کی تحصیل جڑانوالہ کے گاؤں بنگہ میں پیدا ہوا۔ بھگت سنگھ کے والد سردار کشن سنگھ اور چچا سوارن سنگھ آزادی کی تحریکوں میں حصہ لینے کی وجہ سے قید کاٹ چکے تھے۔ ان کے ایک چچا اجیت سنگھ کو اس جرم میں کالے پانی کی سزا ہوئی تھی، ان پر الزام تھا کہ وہ نہ صرف کسانوں کو قوم پرست تحریک کے لئے منظم کر رہے تھے بلکہ وہ خود بھی انقلاب کے داعی تھے۔ ایسے ماحول میں پیدا ہونے والے بچے منزل سے پہلے راستے میں کہیں قیام ہی نہیں کرتے۔ بھگت سنگھ ابھی بارہ سال کا تھا جب جلیا نوالہ باغ میں انسانی خون سے ہولی کھیلی گئی۔ بھگت سنگھ اس وقت لاہور میں لالہ لاجپت رائے اور بھائی پرمانند کے قائم کردہ نیشنل سکول میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔
بھگت سنگھ کے دل میں آزادی کی شمع تو بچپن ہی سے منور تھی اسے جوالا بننے کے لئے کسی معمولی سے محرک کی ضرورت تھی۔
یہ موقع اس کے گھر والوں نے ہی اسے مہیا کر دیا کہ جب اس کے والد نے اس کی منگنی طے کر دی۔ بھگت ان زنجیروں کا بھلا کب عادی تھا اس نے گھر کو خیر باد کہ دیا اور جاتے ہوئے ایک خط اپنے والد کے نام چھوڑ گیا جس میں مختصر یہ تحریر تھا کہ؛
”میری زندگی پہلے ہی ایک عظیم مقصد سے وابستہ ہو چکی ہے یہی وجہ ہے کہ آرام اور دنیاوی خواہشات میرے لئے بے معنی ہیں۔“
بھگت سنگھ لاہور سے کان پور چلا گیا جہاں اس کی ملاقات باتو کشوردَت ، بیجوئے کمارسنہا اور چندر شیکھر آزادؔ سے ہوئی اور اس کے بعد ایک طویل جدو جہد کا آغاز ہو گیا۔
اکالی تحریک، نوجوان بھارت سمجھا ، لاہور سٹوڈنٹس یونین سے لے کر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن ( آرمی ونگ) تک پھیلے ہوئے اس سلسلے نے بھگت سنگھ کو ایک منجھے ہوئے مارکسسٹ میں تبدیل کر دیا۔
بھگت سنگھ نے مارکسزم کا مفصّل مطالعہ کیا۔ اسی فلسفے نے بھگت کو وہ عزم دیا جس کے باعث وہ جاں کے زیاں کی تشویش سے کہیں دور چلا گیا۔
ہندوستان کی آزادی کی خاطر تحریکوں نے جب زور پکڑا تو انگریز حکومت نے اپنی سفاکیت کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا ۔ لالہ لاجپت رائے لاہور میں ایک جلوس کی قیادت کر رہے تھے۔ جلوس پر لاٹھیاں برسائی گئیں، لالہ جی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار بیٹھے۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے لالہ لاجپت رائے کی موت کا انتقام لینے کا فیصلہ کیا۔ اس کوشش میں لالہ لاجپت کی موت کے ذمہ دار پولیس افسر ایس پی سکاٹ کی جگہ اے ایس پی سانڈرس مارا گیا۔
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے سانڈرس کی موت پر کہا، ہمیں انسانی خون بہنے پر افسوس ہے مگر انقلاب کی قربان گاہ پر افراد کی قربانی ناگزیر ہے۔ وہ انقلاب جو ہر ایک کے لئے آزادی لائے گا اور انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کا خاتمہ کر دے گا۔
انقلاب زندہ باد !
1929ء میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی باتو کشوردَت نے قانون ساز اسمبلی میں بم دھما کہ کیا۔ یہ بم بے ضرر تھے اور ان کا مقصد عوامی تحفظ اور تجارتی تنازعات کے حوالے سے پیش کئے گئے بلوں کے خلاف احتجاج تھا۔ اس کے علاوہ یہ میرٹھ سازش کیس کے خلاف بھی ایک احتجاج تھا۔ جس میں بہت سے ٹریڈ یونین لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بم پھینکنے کے بعد دونوں انقلابیوں نے اپنی گرفتاری پیش کر دی۔
بھگت سنگھ کی گرفتاری نے پورے ہندوستان کے نوجوانوں میں ہلچل پیدا کر دی اب ہر کوئی بھگت سنگھ بننے کے لئے بے قرار تھا۔ خود کانگریس سوشلزم کا نام لینے پرمجبور ہو گئی۔
گاندھی کی اَہنسا ( عدم تشدد ) کے بارے میں بھگت سنگھ نے اپنی تقریر میں کہا۔ انگلستان کو نیند سے جگانے کے لئے بم دھما کا ضروری تھا ہم نے ان لوگوں کی جانب سے احتجاج کرتے ہوئے اسمبلی میں بم پھینکا۔ جن کے پاس اپنی اذیت کے اظہار کا کوئی اور طریقہ باقی نہیں بچا تھا۔ بھگت سنگھ اور با تو کشور دَت کو کالے پانی کی سزا سنادی گئی لیکن اس سے نہ تو انگریز کی استعماریت کی تشفی ہوئی اور نہ ہی گاندھی کے مذموم عزائم کی تسلی ، چنانچہ سانڈرس کیس کو دوبارہ سے زندہ کر دیا گیا۔
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی اپنے مقدمے کی پیروی کرنے کی بجائے اسے انقلابی جدو جہد کے لئے ایک پلیٹ فارم کی حیثیت سے استعمال کرنا چاہتے تھے ۔ 12 مئی 1930 ء کو رسوائے زمانہ لاہور سازش کیس میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا۔
مقدمے میں اپنا دفاع ان جانبازوں کا مقصد نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے یہ بھی کچھ ایک سوانگ ہے فیصلہ تو کب کا ہو چکا ہے۔
جب چندر شیکھر آزادؔ نے بھگت سنگھ کو جیل سے نکالنے کی تجویز دی تو بھگت سنگھ نے مسکرا کر اسے رد کر دیا۔ بھگت سنگھ نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ یہ لوگ مجھے تختہ دار پر لٹکا دیں تاکہ انہی قتل گاہوں سے کئی بھگت سنگھ نکلیں جو بہار کے امکانات کو جنم دیں۔
ٹربیونل بنا اور ٹوٹا اور پھر نیا ٹربیونل تشکیل دیا گیا کیونکہ ٹربیونل کے ایک رکن آغا حیدر نے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کی وجہ سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو خبر تھی کہ فیصلہ تو پہلے سے ہو چکا تھا یہ تو صرف اشک شوئی تھی جسے مقدمے کا نام دیا جا رہا تھا۔
اکتوبر 1930ء میں عدالت نے بھگت سنگھ، راج گرو اور سُکھ دیو کو موت کی سزا سنائی۔
جس کا استقبال انہوں نے انقلاب زندہ باد کے نعروں سے کیا۔ اسی اثناء میں گاندھی جی نے وائسرائے سے ملاقات کی، پورے ہندوستان میں بھگت سنگھ کی سزا کے خلاف احتجاج جاری تھا۔ لوگوں کو توقع تھی کہ گاندھی جی بھگت سنگھ کی سزائے موت کے خلاف وائسرائے سے نہ صرف اپیل کریں گے، بلکہ اسے سیاسی فیصلہ قرار دے کر اس فیصلے کو کالعدم بھی کروائیں گے. لیکن یہ لوگوں کی خوش فہی تھی ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جیل کے آخری ایام میں بھگت سنگھ کے والد نے شدتِ جذبات میں وائسرائے کو بیٹے کی جان بخشی کے لئے درخواست دی ۔ بھگت سنگھ یہ ذلت برداشت نہ کر سکا اس نے اپنے والد کو جو جواب دیا وہ اس انقلاب کے جذبۂ حریت کا آخری پیغام تھا۔ اس نے لکھا؛
”
ابا مجھے حیرت ہے، مجھے خدشہ ہے کہ میں آپ کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہیں ادب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ دوں ۔ میں لگی لپٹی رکھے بغیر کہتا ہوں کہ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی نے میری پیٹھ میں چُھرا گھونپ دیا ہو، اگر کسی اور نے ایسا کیا ہوتا تو میں اُسے بے وفائی کہتا مگر مجھے کہنے دیجئے آپ نے کمزوری دکھائی ہے۔ بدترین کمزوری۔
“
بھگت سنگھ کارل مارکس کے بارے میں کہتا ہے کہ مارکس کے نہ ہونے کی صورت میں کوئی اور شخص یہ کردار ادا کرتا کیونکہ تاریخی جبر نے اس فلسفے کے لئے راہ ہموار کر دی تھی۔ اس لئے وہ اپنے خط میں سُکھ دیو کو زندگی کے آخری لمحات میں یہ احساس دلاتا ہے کہ میں نے اور تم نے اس ملک میں سوشلسٹ یا کمیونسٹ نظریات تخلیق نہیں کئے۔ ہم آنے والے وقت اور حالات کے جبر کا نتیجہ ہیں ۔ بے شک ہم نے ان نظریات کے فروغ کے لئے سادہ اور عاجزانہ انداز سے کام کیا ہے۔
یہ تھا بھگت سنگھ جسے 23 مارچ 1931ء کو سزائے موت کی تاریخ سے ایک روز قبل ہی پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ بھگت سنگھ کو لاہور کے اس چوک میں پھانسی دی گئی جو شادمان کے بالکل قریب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں جیل تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ؛
جب بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے ریڈ وارنٹ پر دستخط کرنے کے لئے کوئی مجسٹریٹ تیار نہ ہوا تو ایک اعزازی مجسٹریٹ کی خدمات لی گئیں جس کا نام محمد احمد خان قصوری تھا۔ اتفاق سے محمد احمد خان قصوری کو اسی چوک میں قتل کیا گیا۔ آخر انگریزوں کو 1931ء میں محمد احمد خاں جیسے ضمیر فروش شخص کی ضرورت کیوں پڑی ۔ شاید کچھ لوگ تاریخ میں اسی طرح سے نقب زن ہوتے ہیں کہ خود اپنے ہاتھ سے ذلتوں کے داغ اپنی پیشانی پر جا کر یزیدوں کے ہم رکاب بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی تاریخ میں وہ بے نام ہی رہتے ہیں۔
بھگت سنگھ کے نظریات
ایک تقریر میں بھگت سنگھ کہتا ہے کہ؛
انقلاب خونریز فساد کا نام نہیں اور نہ ہی اس میں کسی انفرادی شخصیت کے قتل کی کوئی گنجائش موجود ہے، اسے پستول یا بم کی رسم نہ سمجھا جائے۔ انقلاب سے ہماری مُراد یہ ہے کہ نا انصافی پر مبنی موجودہ نظام کو تبدیل ہونا چاہئے۔
سامراجی یہ جان لیں کہ افراد کو کچلنے سے نظریات ختم نہیں کئے جاسکتے اور دو غیر اہم اکائیوں کوختم کرنے سے پوری قوم ختم نہیں ہو جاتی۔ ہم اس تاریخی سبق پر زور دینا چاہتے ہیں کہ بسٹل کا قید خانہ فرانسیسی انقلاب کی تحریک کو کچلنے میں ناکام رہا۔ پھانسی کے پھندے اور سائبیریا کی قید کی سزائیں روسی انقلاب کا راستہ نہ روک سکیں اور بلڈی سنڈے جیسے واقعات آئرلینڈ کی تحریکِ آزادی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ معاشرے کے اہم ترین عناصر ہونے کے باوجود محنت کشوں کو استحصالی طبقات نے لوٹا اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا۔ کسان جو ہر ایک کے لئے گندم اُگاتا ہے اس کا اپنا خاندان بھوکا رہتا ہے، جولاہا پوری دُنیا کو کپڑے مہیّا کرتا ہے ،مگر خود اس کے بچے نگے ہوتے ہیں۔ مزدور، لوہار اور بڑھئی شاندار محلات بناتے ہیں لیکن خود جھونپڑیوں میں بسیرا کرتے ہیں۔
سرمایہ دار اور استحصالی طبقہ جو معاشرے کا طفیلیہ ہے کروڑوں غریبوں کی رگوں سے خون نچوڑ رہا ہے۔ یہ ہولناک عدم مساوات اور مواقع کی تفاوت سنگین بد نظمی کو جنم دے رہی ہے۔ یہ صورت حال زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی اور یہ عیاں ہے کہ موجودہ معاشرتی نظام آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے۔
اس تہذیب کی پرشکوہ عمارت کو اگر بروقت نہ بچایا گیا تو یہ ریزہ ریزہ ہو جائے گی۔ اس کے لئے ایک بنیادی تبدیلی ناگزیر ہے اور یہ ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو معاشرے کو اشتراکی بنیادوں پر از سرِ نو ترتیب دینے کی ضرورت کا احساس رکھتے ہیں۔ جب تک ایسا نہیں ہو جاتا اور انسان کے ہاتھوں انسان یا اقوام کے ہاتھوں اقوام کا استحصال ختم نہیں ہوتا اس وقت تک انسانیت کو در پیش مصائب اور خونریزی کا خاتمہ ممکن نہیں اور جنگوں کے خاتمے اور آفاقی امن کے دور میں داخلے کی باتیں کھلی منافقت ہیں۔ انقلاب سے ہماری مراد ایک ایسے معاشرتی نظام کا قیام ہے جسے انہدام کا خطرہ نہ ہو۔ پرولتاریہ کی حاکمیت قبول کی جائے اور ایک عالمی تنظیم انسانیت کو آمریت کے شکنجے اور سامراجی جنگوں کی تکالیف سے نجات دلائے۔
جہاں تک بھگت سنگھ پر دہشت پسند ہونے کا الزام تھا تو اس کے جواب میں بھگت سنگھ نے کہا تھا میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ انقلابی کے طور پر اپنے ابتدائی دور کے علاوہ میں کبھی بھی دہشت پسند نہیں رہا، کیونکہ اشتراکی معاشرہ تشدد کے ذریعے سے نہیں لایا جا سکتا۔ یہ اپنے اندر سے نمودار ہوتا ہے، طاقت کا استعمال محض راستے کی رکاوٹوں کو ہٹانے کے لئے کیا جاتا ہے۔
لاہور سازش کیس کا فیصلہ اکتوبر 1930ء میں سنایا گیا جس میں بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیوکو پھانسی کی سزادی گئی۔ سات ملزموں کو عمر قید اور باقی کو لبی لمبی قید کی سزائیں دی گئیں۔
اجے کمار گھوش ان لوگوں میں سے تھا جو بری کر دیئے گئے۔ اجے کمار گھوش اپنی ایک تحریر میں لکھتا ہے کہ جیسے ہی میں جیل سے نکل کر سڑک پر آیا تو میں ایسے محسوس کرنے لگا جیسے میں نے اپنے ساتھیوں کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔
اجے کمار گھوش نے جہاں اپنے ساتھیوں کے خلوص، جاں نثاری اور جرآت کو سراہا ہے وہاں دہشت پسندی کے مسلک اور طریقہ کار میں جو تضاد تھا اس کی وضاحت بھی کر دی ہے۔ ان کا نصب العین سوشلزم تھا۔ وہ انگریزوں کو ملک سے نکال کر محنت کشوں کا پنچایتی راج قائم کرنا چاہتے تھے تا کہ استحصالی طبقوں کی لوٹ مار ختم ہو۔ دولت پیدا کرنے کے تمام ذرائع زمین، فیکٹریاں، مِلیں، بینک وغیرہ محنت کشوں کی مشترکہ ملکیت بن جائیں اور ہر شخص کو اس کی محنت کا پورا معاوضہ ملے۔ لیکن اس نصب العین کو حاصل کرنے کے لئے مہم جوئی اور دہشت انگیزی سے کام نہیں چلتا، کیونکہ محنت کشوں کا راج مار دھاڑ سے نہیں، بلکہ سماجی انقلاب کے ذریعہ وجود میں آتا ہے اور سماجی انقلاب کی پہلی شرط یہ ہے کہ محنت کشوں اور ان کے حلیفوں کی جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر آگے بڑھایا جائے، انہیں انقلابی فریضوں کی تکمیل کے لئے منظم کیا جائے ۔
درمیانہ طبقہ کے مٹھی بھر نوجوان خواہ ان میں کتنی ہی لگن کیوں نہ ہو یہ فریضہ تن تنہا سرانجام نہیں دے سکتے۔ دہشت پسندوں کی بنیادی غلطی یہی تھی کہ وہ عوامی تحریکوں سے الگ تھلگ رہ کر یہ سمجھتے تھے کہ اِکا دُکا انگریزوں پر بم پھینک کر وہ برطانوی سامراج کو مفلوج کر دیں گے اور وہ بوریا بستر باندھ کر یہاں سے چلا جائے گا، حالانکہ افراد کے قتل سے نہ ریاست کی نوعیت بدلتی ہے اور نہ طبقاتی رشتوں میں کوئی فرق آتا ہے۔ ایک زار مارا جاتا ہے تو دوسرا زار اس کی جگہ تخت پر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک سانڈرس ہلاک ہو، تو دوسرا سانڈرس آموجود ہوتا ہے۔
اجے کمار گھوش کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ آخری دنوں میں خود دہشت پسند جماعت کے رہنما اپنے طریقۂ کار کی خامیوں کو محسوس کرنے لگے تھے اور مسلح جدوجہد کو ترک کر کے انقلابی تحریکوں میں شامل ہونے پر مائل ہو رہے تھے لیکن حالات نے ان کو موقع نہیں دیا۔ جیل میں رہ کر طریقۂ کار میں تبدیلی کا اعلان عزتِ نفس کی توہین ہوتی اور یہ انہیں ہرگز منظور نہ تھی۔
بھگت سنگھ اور مذہب
بھگت سنگھ کہتا ہے کہ میرے لئے اس خیال کے سوائے اور کون سا دلاسہ ہے کہ میں ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کررہا ہوں۔ خدا پر یقین رکھنے والے ہندو کو یہ توقع ہو سکتی ہے کہ اگلے جنم میں وہ بادشاہ بن جائے گا۔ مسلمان اور عیسائی جنت میں ایک نئی زندگی اور قربانیوں کے بہترین صلے کا خواب دیکھتے ہیں، مگر مجھے کیا توقع ہے۔ مجھے اس لمحے کا ادراک ہے جب میری گردن پھندے میں ہوگی اور پیروں تلے سے تختہ کھینچ لیا جائے گا۔ یہ آخری لمحہ ہوگا۔ مابعد الطبیعیاتی اصطلاح میں جسے رُوح کہا جاتا ہے وہیں ختم ہو جائے گی۔
جدو جہد سے عبارت ایک مختصر زندگی جس کا کوئی شاندار اختتام بھی نہیں ہے، بجائے خود ایک صلہ ہے۔ یہی سب کچھ ہے۔ میں نے اپنی زندگی خود غرضی پرمبنی کسی محرک اور یہاں وہاں صلے کی تمنّا کے بغیر محض بے غرض آزادی کے لئے وقف کر دی ہے، کیونکہ میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ جس دن لوگوں کی بڑی تعداد نے اس فکر کو اپنا لیا کہ اپنی زندگی کو انسانیت کی خدمت اور نوعِ انسانی کو در پیش مصائب کے خاتمے کے علاوہ کسی اور شے کے لئے وقف نہیں کرنا تو وہ دن آزادی کے دور کی ابتداء ہوگا۔
وہ ظالموں، استحصالیوں اور استبدادیوں کو للکاریں گے۔ ان کا مقصد اس دنیا میں یا کسی جنت یا جہنم میں اجر کا حصول نہیں ہوگا۔ اس کی بجائے وہ انسانیت کی گردن سے غلامی کا طوق اُتار پھینکنے اور امن و آزادی کے حصول کی خاطر ایسی راہ اپنائیں گے۔ لوگ کسی جنت کے لالچ میں انسانیت کی خدمت نہیں کریں گے، بلکہ انسانی ہمدردی میں اپنا فرض سمجھ کر لوگوں کی خدمت کریں گے۔
—♦—
مصنف کا نوٹ:
میرا تعلق ضلع لاہور کے سرحدی گاؤں موضع جاہمن سے ہے، جب میں نے 23 مارچ 2022ء کوانجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کے اجلاس میں یہ مضمون پڑھا تو پنجابی زبان کے سینئر لکھاری جناب اقبال قیصر نے بتایا کہ جب بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی کیمپ جیل لاہور میں قید کی سزا کاٹ رہے تھے تو ان کی رہائی کے لئے جو لوگ جدو جہد کر رہے تھے۔ ان کے اجلاس موضع جاہمن کے گوردوارے میں ہوا کرتے تھے۔ جس دن بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی لگتی تھی اس دن لاہور کے دیہاتی علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد احتجاج کے لئے کیمپ جیل لاہور کے باہر جمع ہوئی تھی۔ لیکن انگریز حکمران بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو ایک دن پہلے ہی شام کو پھانسی دے کر ان کے جسموں کو جیل سے لے گئے تھے۔
—♦—

ڈاکٹر طاہر شبّیر کا تعلق لاہور سے ہے۔ آپ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ آپ ترقی پسند شاعر اور ادیب ہیں۔ انجمن ترقی پسند مصّنفین پنجاب کے اہم رُکن ہیں۔ آپ پاکستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
بھگت سنگھ 27 ستمبر 1907ء کو ضلع فیصل آباد ( لائل پور ) کی تحصیل جڑانوالہ کے گاؤں بنگہ میں پیدا ہوا۔ بھگت سنگھ کے والد سردار کشن سنگھ اور چچا سوارن سنگھ آزادی کی تحریکوں میں حصہ لینے کی وجہ سے قید کاٹ چکے تھے۔ ان کے ایک چچا اجیت سنگھ کو اس جرم میں کالے پانی کی سزا ہوئی تھی، ان پر الزام تھا کہ وہ نہ صرف کسانوں کو قوم پرست تحریک کے لئے منظم کر رہے تھے بلکہ وہ خود بھی انقلاب کے داعی تھے۔ ایسے ماحول میں پیدا ہونے والے بچے منزل سے پہلے راستے میں کہیں قیام ہی نہیں کرتے۔ بھگت سنگھ ابھی بارہ سال کا تھا جب جلیا نوالہ باغ میں انسانی خون سے ہولی کھیلی گئی۔ بھگت سنگھ اس وقت لاہور میں لالہ لاجپت رائے اور بھائی پرمانند کے قائم کردہ نیشنل سکول میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔
بھگت سنگھ کے دل میں آزادی کی شمع تو بچپن ہی سے منور تھی اسے جوالا بننے کے لئے کسی معمولی سے محرک کی ضرورت تھی۔
یہ موقع اس کے گھر والوں نے ہی اسے مہیا کر دیا کہ جب اس کے والد نے اس کی منگنی طے کر دی۔ بھگت ان زنجیروں کا بھلا کب عادی تھا اس نے گھر کو خیر باد کہ دیا اور جاتے ہوئے ایک خط اپنے والد کے نام چھوڑ گیا جس میں مختصر یہ تحریر تھا کہ؛
”میری زندگی پہلے ہی ایک عظیم مقصد سے وابستہ ہو چکی ہے یہی وجہ ہے کہ آرام اور دنیاوی خواہشات میرے لئے بے معنی ہیں۔“
بھگت سنگھ لاہور سے کان پور چلا گیا جہاں اس کی ملاقات باتو کشوردَت ، بیجوئے کمارسنہا اور چندر شیکھر آزادؔ سے ہوئی اور اس کے بعد ایک طویل جدو جہد کا آغاز ہو گیا۔
اکالی تحریک، نوجوان بھارت سمجھا ، لاہور سٹوڈنٹس یونین سے لے کر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن ( آرمی ونگ) تک پھیلے ہوئے اس سلسلے نے بھگت سنگھ کو ایک منجھے ہوئے مارکسسٹ میں تبدیل کر دیا۔
بھگت سنگھ نے مارکسزم کا مفصّل مطالعہ کیا۔ اسی فلسفے نے بھگت کو وہ عزم دیا جس کے باعث وہ جاں کے زیاں کی تشویش سے کہیں دور چلا گیا۔
ہندوستان کی آزادی کی خاطر تحریکوں نے جب زور پکڑا تو انگریز حکومت نے اپنی سفاکیت کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا ۔ لالہ لاجپت رائے لاہور میں ایک جلوس کی قیادت کر رہے تھے۔ جلوس پر لاٹھیاں برسائی گئیں، لالہ جی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار بیٹھے۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے لالہ لاجپت رائے کی موت کا انتقام لینے کا فیصلہ کیا۔ اس کوشش میں لالہ لاجپت کی موت کے ذمہ دار پولیس افسر ایس پی سکاٹ کی جگہ اے ایس پی سانڈرس مارا گیا۔
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے سانڈرس کی موت پر کہا، ہمیں انسانی خون بہنے پر افسوس ہے مگر انقلاب کی قربان گاہ پر افراد کی قربانی ناگزیر ہے۔ وہ انقلاب جو ہر ایک کے لئے آزادی لائے گا اور انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کا خاتمہ کر دے گا۔
انقلاب زندہ باد !
1929ء میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی باتو کشوردَت نے قانون ساز اسمبلی میں بم دھما کہ کیا۔ یہ بم بے ضرر تھے اور ان کا مقصد عوامی تحفظ اور تجارتی تنازعات کے حوالے سے پیش کئے گئے بلوں کے خلاف احتجاج تھا۔ اس کے علاوہ یہ میرٹھ سازش کیس کے خلاف بھی ایک احتجاج تھا۔ جس میں بہت سے ٹریڈ یونین لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بم پھینکنے کے بعد دونوں انقلابیوں نے اپنی گرفتاری پیش کر دی۔
بھگت سنگھ کی گرفتاری نے پورے ہندوستان کے نوجوانوں میں ہلچل پیدا کر دی اب ہر کوئی بھگت سنگھ بننے کے لئے بے قرار تھا۔ خود کانگریس سوشلزم کا نام لینے پرمجبور ہو گئی۔
گاندھی کی اَہنسا ( عدم تشدد ) کے بارے میں بھگت سنگھ نے اپنی تقریر میں کہا۔ انگلستان کو نیند سے جگانے کے لئے بم دھما کا ضروری تھا ہم نے ان لوگوں کی جانب سے احتجاج کرتے ہوئے اسمبلی میں بم پھینکا۔ جن کے پاس اپنی اذیت کے اظہار کا کوئی اور طریقہ باقی نہیں بچا تھا۔ بھگت سنگھ اور با تو کشور دَت کو کالے پانی کی سزا سنادی گئی لیکن اس سے نہ تو انگریز کی استعماریت کی تشفی ہوئی اور نہ ہی گاندھی کے مذموم عزائم کی تسلی ، چنانچہ سانڈرس کیس کو دوبارہ سے زندہ کر دیا گیا۔
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی اپنے مقدمے کی پیروی کرنے کی بجائے اسے انقلابی جدو جہد کے لئے ایک پلیٹ فارم کی حیثیت سے استعمال کرنا چاہتے تھے ۔ 12 مئی 1930 ء کو رسوائے زمانہ لاہور سازش کیس میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا۔
مقدمے میں اپنا دفاع ان جانبازوں کا مقصد نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے یہ بھی کچھ ایک سوانگ ہے فیصلہ تو کب کا ہو چکا ہے۔
جب چندر شیکھر آزادؔ نے بھگت سنگھ کو جیل سے نکالنے کی تجویز دی تو بھگت سنگھ نے مسکرا کر اسے رد کر دیا۔ بھگت سنگھ نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ یہ لوگ مجھے تختہ دار پر لٹکا دیں تاکہ انہی قتل گاہوں سے کئی بھگت سنگھ نکلیں جو بہار کے امکانات کو جنم دیں۔
ٹربیونل بنا اور ٹوٹا اور پھر نیا ٹربیونل تشکیل دیا گیا کیونکہ ٹربیونل کے ایک رکن آغا حیدر نے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کی وجہ سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو خبر تھی کہ فیصلہ تو پہلے سے ہو چکا تھا یہ تو صرف اشک شوئی تھی جسے مقدمے کا نام دیا جا رہا تھا۔
اکتوبر 1930ء میں عدالت نے بھگت سنگھ، راج گرو اور سُکھ دیو کو موت کی سزا سنائی۔
جس کا استقبال انہوں نے انقلاب زندہ باد کے نعروں سے کیا۔ اسی اثناء میں گاندھی جی نے وائسرائے سے ملاقات کی، پورے ہندوستان میں بھگت سنگھ کی سزا کے خلاف احتجاج جاری تھا۔ لوگوں کو توقع تھی کہ گاندھی جی بھگت سنگھ کی سزائے موت کے خلاف وائسرائے سے نہ صرف اپیل کریں گے، بلکہ اسے سیاسی فیصلہ قرار دے کر اس فیصلے کو کالعدم بھی کروائیں گے. لیکن یہ لوگوں کی خوش فہی تھی ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جیل کے آخری ایام میں بھگت سنگھ کے والد نے شدتِ جذبات میں وائسرائے کو بیٹے کی جان بخشی کے لئے درخواست دی ۔ بھگت سنگھ یہ ذلت برداشت نہ کر سکا اس نے اپنے والد کو جو جواب دیا وہ اس انقلاب کے جذبۂ حریت کا آخری پیغام تھا۔ اس نے لکھا؛
”
ابا مجھے حیرت ہے، مجھے خدشہ ہے کہ میں آپ کے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہیں ادب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ دوں ۔ میں لگی لپٹی رکھے بغیر کہتا ہوں کہ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی نے میری پیٹھ میں چُھرا گھونپ دیا ہو، اگر کسی اور نے ایسا کیا ہوتا تو میں اُسے بے وفائی کہتا مگر مجھے کہنے دیجئے آپ نے کمزوری دکھائی ہے۔ بدترین کمزوری۔
“
بھگت سنگھ کارل مارکس کے بارے میں کہتا ہے کہ مارکس کے نہ ہونے کی صورت میں کوئی اور شخص یہ کردار ادا کرتا کیونکہ تاریخی جبر نے اس فلسفے کے لئے راہ ہموار کر دی تھی۔ اس لئے وہ اپنے خط میں سُکھ دیو کو زندگی کے آخری لمحات میں یہ احساس دلاتا ہے کہ میں نے اور تم نے اس ملک میں سوشلسٹ یا کمیونسٹ نظریات تخلیق نہیں کئے۔ ہم آنے والے وقت اور حالات کے جبر کا نتیجہ ہیں ۔ بے شک ہم نے ان نظریات کے فروغ کے لئے سادہ اور عاجزانہ انداز سے کام کیا ہے۔
یہ تھا بھگت سنگھ جسے 23 مارچ 1931ء کو سزائے موت کی تاریخ سے ایک روز قبل ہی پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ بھگت سنگھ کو لاہور کے اس چوک میں پھانسی دی گئی جو شادمان کے بالکل قریب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں جیل تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ؛
جب بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے ریڈ وارنٹ پر دستخط کرنے کے لئے کوئی مجسٹریٹ تیار نہ ہوا تو ایک اعزازی مجسٹریٹ کی خدمات لی گئیں جس کا نام محمد احمد خان قصوری تھا۔ اتفاق سے محمد احمد خان قصوری کو اسی چوک میں قتل کیا گیا۔ آخر انگریزوں کو 1931ء میں محمد احمد خاں جیسے ضمیر فروش شخص کی ضرورت کیوں پڑی ۔ شاید کچھ لوگ تاریخ میں اسی طرح سے نقب زن ہوتے ہیں کہ خود اپنے ہاتھ سے ذلتوں کے داغ اپنی پیشانی پر جا کر یزیدوں کے ہم رکاب بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی تاریخ میں وہ بے نام ہی رہتے ہیں۔
بھگت سنگھ کے نظریات
ایک تقریر میں بھگت سنگھ کہتا ہے کہ؛
انقلاب خونریز فساد کا نام نہیں اور نہ ہی اس میں کسی انفرادی شخصیت کے قتل کی کوئی گنجائش موجود ہے، اسے پستول یا بم کی رسم نہ سمجھا جائے۔ انقلاب سے ہماری مُراد یہ ہے کہ نا انصافی پر مبنی موجودہ نظام کو تبدیل ہونا چاہئے۔
سامراجی یہ جان لیں کہ افراد کو کچلنے سے نظریات ختم نہیں کئے جاسکتے اور دو غیر اہم اکائیوں کوختم کرنے سے پوری قوم ختم نہیں ہو جاتی۔ ہم اس تاریخی سبق پر زور دینا چاہتے ہیں کہ بسٹل کا قید خانہ فرانسیسی انقلاب کی تحریک کو کچلنے میں ناکام رہا۔ پھانسی کے پھندے اور سائبیریا کی قید کی سزائیں روسی انقلاب کا راستہ نہ روک سکیں اور بلڈی سنڈے جیسے واقعات آئرلینڈ کی تحریکِ آزادی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ معاشرے کے اہم ترین عناصر ہونے کے باوجود محنت کشوں کو استحصالی طبقات نے لوٹا اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا۔ کسان جو ہر ایک کے لئے گندم اُگاتا ہے اس کا اپنا خاندان بھوکا رہتا ہے، جولاہا پوری دُنیا کو کپڑے مہیّا کرتا ہے ،مگر خود اس کے بچے نگے ہوتے ہیں۔ مزدور، لوہار اور بڑھئی شاندار محلات بناتے ہیں لیکن خود جھونپڑیوں میں بسیرا کرتے ہیں۔
سرمایہ دار اور استحصالی طبقہ جو معاشرے کا طفیلیہ ہے کروڑوں غریبوں کی رگوں سے خون نچوڑ رہا ہے۔ یہ ہولناک عدم مساوات اور مواقع کی تفاوت سنگین بد نظمی کو جنم دے رہی ہے۔ یہ صورت حال زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی اور یہ عیاں ہے کہ موجودہ معاشرتی نظام آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے۔
اس تہذیب کی پرشکوہ عمارت کو اگر بروقت نہ بچایا گیا تو یہ ریزہ ریزہ ہو جائے گی۔ اس کے لئے ایک بنیادی تبدیلی ناگزیر ہے اور یہ ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو معاشرے کو اشتراکی بنیادوں پر از سرِ نو ترتیب دینے کی ضرورت کا احساس رکھتے ہیں۔ جب تک ایسا نہیں ہو جاتا اور انسان کے ہاتھوں انسان یا اقوام کے ہاتھوں اقوام کا استحصال ختم نہیں ہوتا اس وقت تک انسانیت کو در پیش مصائب اور خونریزی کا خاتمہ ممکن نہیں اور جنگوں کے خاتمے اور آفاقی امن کے دور میں داخلے کی باتیں کھلی منافقت ہیں۔ انقلاب سے ہماری مراد ایک ایسے معاشرتی نظام کا قیام ہے جسے انہدام کا خطرہ نہ ہو۔ پرولتاریہ کی حاکمیت قبول کی جائے اور ایک عالمی تنظیم انسانیت کو آمریت کے شکنجے اور سامراجی جنگوں کی تکالیف سے نجات دلائے۔
جہاں تک بھگت سنگھ پر دہشت پسند ہونے کا الزام تھا تو اس کے جواب میں بھگت سنگھ نے کہا تھا میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ انقلابی کے طور پر اپنے ابتدائی دور کے علاوہ میں کبھی بھی دہشت پسند نہیں رہا، کیونکہ اشتراکی معاشرہ تشدد کے ذریعے سے نہیں لایا جا سکتا۔ یہ اپنے اندر سے نمودار ہوتا ہے، طاقت کا استعمال محض راستے کی رکاوٹوں کو ہٹانے کے لئے کیا جاتا ہے۔
لاہور سازش کیس کا فیصلہ اکتوبر 1930ء میں سنایا گیا جس میں بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیوکو پھانسی کی سزادی گئی۔ سات ملزموں کو عمر قید اور باقی کو لبی لمبی قید کی سزائیں دی گئیں۔
اجے کمار گھوش ان لوگوں میں سے تھا جو بری کر دیئے گئے۔ اجے کمار گھوش اپنی ایک تحریر میں لکھتا ہے کہ جیسے ہی میں جیل سے نکل کر سڑک پر آیا تو میں ایسے محسوس کرنے لگا جیسے میں نے اپنے ساتھیوں کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔
اجے کمار گھوش نے جہاں اپنے ساتھیوں کے خلوص، جاں نثاری اور جرآت کو سراہا ہے وہاں دہشت پسندی کے مسلک اور طریقہ کار میں جو تضاد تھا اس کی وضاحت بھی کر دی ہے۔ ان کا نصب العین سوشلزم تھا۔ وہ انگریزوں کو ملک سے نکال کر محنت کشوں کا پنچایتی راج قائم کرنا چاہتے تھے تا کہ استحصالی طبقوں کی لوٹ مار ختم ہو۔ دولت پیدا کرنے کے تمام ذرائع زمین، فیکٹریاں، مِلیں، بینک وغیرہ محنت کشوں کی مشترکہ ملکیت بن جائیں اور ہر شخص کو اس کی محنت کا پورا معاوضہ ملے۔ لیکن اس نصب العین کو حاصل کرنے کے لئے مہم جوئی اور دہشت انگیزی سے کام نہیں چلتا، کیونکہ محنت کشوں کا راج مار دھاڑ سے نہیں، بلکہ سماجی انقلاب کے ذریعہ وجود میں آتا ہے اور سماجی انقلاب کی پہلی شرط یہ ہے کہ محنت کشوں اور ان کے حلیفوں کی جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر آگے بڑھایا جائے، انہیں انقلابی فریضوں کی تکمیل کے لئے منظم کیا جائے ۔
درمیانہ طبقہ کے مٹھی بھر نوجوان خواہ ان میں کتنی ہی لگن کیوں نہ ہو یہ فریضہ تن تنہا سرانجام نہیں دے سکتے۔ دہشت پسندوں کی بنیادی غلطی یہی تھی کہ وہ عوامی تحریکوں سے الگ تھلگ رہ کر یہ سمجھتے تھے کہ اِکا دُکا انگریزوں پر بم پھینک کر وہ برطانوی سامراج کو مفلوج کر دیں گے اور وہ بوریا بستر باندھ کر یہاں سے چلا جائے گا، حالانکہ افراد کے قتل سے نہ ریاست کی نوعیت بدلتی ہے اور نہ طبقاتی رشتوں میں کوئی فرق آتا ہے۔ ایک زار مارا جاتا ہے تو دوسرا زار اس کی جگہ تخت پر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک سانڈرس ہلاک ہو، تو دوسرا سانڈرس آموجود ہوتا ہے۔
اجے کمار گھوش کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ آخری دنوں میں خود دہشت پسند جماعت کے رہنما اپنے طریقۂ کار کی خامیوں کو محسوس کرنے لگے تھے اور مسلح جدوجہد کو ترک کر کے انقلابی تحریکوں میں شامل ہونے پر مائل ہو رہے تھے لیکن حالات نے ان کو موقع نہیں دیا۔ جیل میں رہ کر طریقۂ کار میں تبدیلی کا اعلان عزتِ نفس کی توہین ہوتی اور یہ انہیں ہرگز منظور نہ تھی۔
بھگت سنگھ اور مذہب
بھگت سنگھ کہتا ہے کہ میرے لئے اس خیال کے سوائے اور کون سا دلاسہ ہے کہ میں ایک اعلیٰ و ارفع مقصد کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کررہا ہوں۔ خدا پر یقین رکھنے والے ہندو کو یہ توقع ہو سکتی ہے کہ اگلے جنم میں وہ بادشاہ بن جائے گا۔ مسلمان اور عیسائی جنت میں ایک نئی زندگی اور قربانیوں کے بہترین صلے کا خواب دیکھتے ہیں، مگر مجھے کیا توقع ہے۔ مجھے اس لمحے کا ادراک ہے جب میری گردن پھندے میں ہوگی اور پیروں تلے سے تختہ کھینچ لیا جائے گا۔ یہ آخری لمحہ ہوگا۔ مابعد الطبیعیاتی اصطلاح میں جسے رُوح کہا جاتا ہے وہیں ختم ہو جائے گی۔
جدو جہد سے عبارت ایک مختصر زندگی جس کا کوئی شاندار اختتام بھی نہیں ہے، بجائے خود ایک صلہ ہے۔ یہی سب کچھ ہے۔ میں نے اپنی زندگی خود غرضی پرمبنی کسی محرک اور یہاں وہاں صلے کی تمنّا کے بغیر محض بے غرض آزادی کے لئے وقف کر دی ہے، کیونکہ میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ جس دن لوگوں کی بڑی تعداد نے اس فکر کو اپنا لیا کہ اپنی زندگی کو انسانیت کی خدمت اور نوعِ انسانی کو در پیش مصائب کے خاتمے کے علاوہ کسی اور شے کے لئے وقف نہیں کرنا تو وہ دن آزادی کے دور کی ابتداء ہوگا۔
وہ ظالموں، استحصالیوں اور استبدادیوں کو للکاریں گے۔ ان کا مقصد اس دنیا میں یا کسی جنت یا جہنم میں اجر کا حصول نہیں ہوگا۔ اس کی بجائے وہ انسانیت کی گردن سے غلامی کا طوق اُتار پھینکنے اور امن و آزادی کے حصول کی خاطر ایسی راہ اپنائیں گے۔ لوگ کسی جنت کے لالچ میں انسانیت کی خدمت نہیں کریں گے، بلکہ انسانی ہمدردی میں اپنا فرض سمجھ کر لوگوں کی خدمت کریں گے۔
—♦—
مصنف کا نوٹ:
میرا تعلق ضلع لاہور کے سرحدی گاؤں موضع جاہمن سے ہے، جب میں نے 23 مارچ 2022ء کوانجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کے اجلاس میں یہ مضمون پڑھا تو پنجابی زبان کے سینئر لکھاری جناب اقبال قیصر نے بتایا کہ جب بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی کیمپ جیل لاہور میں قید کی سزا کاٹ رہے تھے تو ان کی رہائی کے لئے جو لوگ جدو جہد کر رہے تھے۔ ان کے اجلاس موضع جاہمن کے گوردوارے میں ہوا کرتے تھے۔ جس دن بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی لگتی تھی اس دن لاہور کے دیہاتی علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد احتجاج کے لئے کیمپ جیل لاہور کے باہر جمع ہوئی تھی۔ لیکن انگریز حکمران بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو ایک دن پہلے ہی شام کو پھانسی دے کر ان کے جسموں کو جیل سے لے گئے تھے۔
—♦—

ڈاکٹر طاہر شبّیر کا تعلق لاہور سے ہے۔ آپ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ آپ ترقی پسند شاعر اور ادیب ہیں۔ انجمن ترقی پسند مصّنفین پنجاب کے اہم رُکن ہیں۔ آپ پاکستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔