وہ سب جو سماجی انصاف کے دلدادہ ہوتے ہیں‘ وہ درحقیقت بھگت سنگھ ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں میں فریڈم فائٹرز ‘ سماجی انسانی حقوق کے لئے نظریاتی جدو جہد کرنے والے عمومی سوشلسٹ ہوں یا مارکسسٹ‘ تاریخ کے پنوں سے بھگت سنگھ کا نام ہمیشہ ان کے لئے ایک انسپائریشن کا کام کرتا رہے گا۔ بھگت سنگھ نے جس طرح کم عمری میں اپنے وطن کی محبتٰ، عوامی سماجی انصاف ‘ اور آزادی کے لئے نوآبادکاروں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے جان کا نذرانہ دے کر خود کو تاریخ میں اَمر کر لیا۔ ایسی مثالیں دُنیا کی صرف دو قوموں میں پائی جاتی ہیں۔ پہلی جاپانی اور دوسرے آئرش۔
اپنی کم عمری میں شاعری کا وجدان رکھنے والا خوش الحان جیانتی اپنی لازوال قربانیوں سےصرف ہندوستان کی آزادی کا ہیرو ہی نہیں‘ وہ نظریاتی جدوجہد کرنے والا ایسا انقلابی بن کر سامنے آتا ہے جو مزاحمت کے انسانی ورثہ کو اگلی نسلوں تک پہنچانے میں نہ صرف کامیاب ہوتا ہے بلکہ تاریخ کے اوراق پر انمٹ ایثار کے نقوش چھوڑتا ہوا امر ہو جاتا ہے۔
یہ کیسا اتفاق ہے کہ بھگت سنگھ کے والد اور ماموں بھگت سنگھ کی پیدائش پر انیس سو چھ میں کالونیل بل کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے لائلپور جیل میں قید ہوتے ہیں۔ اِس کی ماں ودیاوتی اس کی پیدائش پر اسے سینے سے لگا کر اسے دل والا قرار دیتی ہے جو بعدازاں اپنی شاعری میں دل کی آواز کو ہی لبیک کہتا ہے۔
بنگہ لائلپور کی گلیوں میں گھومنے والا آزاد پنچھی اپنے لڑکپن ہی سے ہندوستان کی زیرزمین غدر پارٹی کا رُکن بن جاتا ہے۔
انیس سو سات میں جنم لینے والا بھگت تیرہ چودہ برس کی عمر میں ہی انیس سو انیس اور اکیس میں بالترتیب جلیانوالہ باغ اور گاندھی کی نان کوآپریشن موومنٹ کے اثرات کے زیر آتے ہوئے اپنی پوری فیملی سمیت گاندھی کی نان وائلنس پالیسی سووراج کی حمایت کرتا ہے۔لیکن جلد ہی اسے انگریزوں کی مخفی ریشہ دوانیوں کا علم ہو جاتا ہے اور وہ ینگ ریوولیوشنری موومنٹ کا رُکن بن جاتا ہے۔
بعد ازاں تیز تر جیانتی‘ نوجوان بھارت سبھا اور پھر 1925ءمیں ریڈیکل پارٹی ہندوستان ریپلیکنز ایسوسی ایشن کا سیکریٹری بن کر مسلح جدوجہد کا آغاز کرتا ہے جو اس کی زندگی کے سنہری اوراق پر اس کی زندگی کی تاریخ رقم کرتے ہیں۔
موت سے پہلے نوجوانوں کے لئے بھگت سنگھ مارکسی سوشل ریکنسٹریکشن کا پیغام دیتا ہے۔
لاہور کی زندگی ‘ جان پی سنڈرئیس کا قتل ‘ اسمبلی میں بم دھماکہ ‘ لاہور کورٹ کیس‘ بھگت سنگھ کی پھانسی بلاشبہ اس کی زندگی کے اہم پہلو ہیں لیکن ان پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ میرے اس مختصر نوٹ میں بھگت سنگھ جیانتی کی ذاتی زندگی کی مختصر سوانح لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ ایسے نوجوان جو آزادی کی قدروں کا اِدراک رکھتے ہیں۔ اپنے نظریات کے پرچارک ہوتے ہیں ‘ وہ وطنیت کا درست احاطہ کرتے ہوئے کبھی ہچکچاتے نہیں اور نئی نسلوں کے لئے اپنے نام کو زندہ تعبیر کی صورت امر کردیتے ہیں۔
بھگت سنگھ جیانتی صرف اس سرزمین کا ہی ہیرو نہیں بلکہ اس کی انسپائریشن کی تاریخ دنیا بھر میں ایک مثل کی مانند ہے اور جہاں جہاں دنیا میں آزادی کی تحریکیں ہیں وہیں بھگت سنگھ اپنے لازوال رُوپ میں زندہ ہے۔
—♦—

ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے سنیئر وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک ملکی و عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے تاحیات ممبر ہیں۔
Comments 4
جواب دیں جواب منسوخ کریں
وہ سب جو سماجی انصاف کے دلدادہ ہوتے ہیں‘ وہ درحقیقت بھگت سنگھ ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں میں فریڈم فائٹرز ‘ سماجی انسانی حقوق کے لئے نظریاتی جدو جہد کرنے والے عمومی سوشلسٹ ہوں یا مارکسسٹ‘ تاریخ کے پنوں سے بھگت سنگھ کا نام ہمیشہ ان کے لئے ایک انسپائریشن کا کام کرتا رہے گا۔ بھگت سنگھ نے جس طرح کم عمری میں اپنے وطن کی محبتٰ، عوامی سماجی انصاف ‘ اور آزادی کے لئے نوآبادکاروں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے جان کا نذرانہ دے کر خود کو تاریخ میں اَمر کر لیا۔ ایسی مثالیں دُنیا کی صرف دو قوموں میں پائی جاتی ہیں۔ پہلی جاپانی اور دوسرے آئرش۔
اپنی کم عمری میں شاعری کا وجدان رکھنے والا خوش الحان جیانتی اپنی لازوال قربانیوں سےصرف ہندوستان کی آزادی کا ہیرو ہی نہیں‘ وہ نظریاتی جدوجہد کرنے والا ایسا انقلابی بن کر سامنے آتا ہے جو مزاحمت کے انسانی ورثہ کو اگلی نسلوں تک پہنچانے میں نہ صرف کامیاب ہوتا ہے بلکہ تاریخ کے اوراق پر انمٹ ایثار کے نقوش چھوڑتا ہوا امر ہو جاتا ہے۔
یہ کیسا اتفاق ہے کہ بھگت سنگھ کے والد اور ماموں بھگت سنگھ کی پیدائش پر انیس سو چھ میں کالونیل بل کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے لائلپور جیل میں قید ہوتے ہیں۔ اِس کی ماں ودیاوتی اس کی پیدائش پر اسے سینے سے لگا کر اسے دل والا قرار دیتی ہے جو بعدازاں اپنی شاعری میں دل کی آواز کو ہی لبیک کہتا ہے۔
بنگہ لائلپور کی گلیوں میں گھومنے والا آزاد پنچھی اپنے لڑکپن ہی سے ہندوستان کی زیرزمین غدر پارٹی کا رُکن بن جاتا ہے۔
انیس سو سات میں جنم لینے والا بھگت تیرہ چودہ برس کی عمر میں ہی انیس سو انیس اور اکیس میں بالترتیب جلیانوالہ باغ اور گاندھی کی نان کوآپریشن موومنٹ کے اثرات کے زیر آتے ہوئے اپنی پوری فیملی سمیت گاندھی کی نان وائلنس پالیسی سووراج کی حمایت کرتا ہے۔لیکن جلد ہی اسے انگریزوں کی مخفی ریشہ دوانیوں کا علم ہو جاتا ہے اور وہ ینگ ریوولیوشنری موومنٹ کا رُکن بن جاتا ہے۔
بعد ازاں تیز تر جیانتی‘ نوجوان بھارت سبھا اور پھر 1925ءمیں ریڈیکل پارٹی ہندوستان ریپلیکنز ایسوسی ایشن کا سیکریٹری بن کر مسلح جدوجہد کا آغاز کرتا ہے جو اس کی زندگی کے سنہری اوراق پر اس کی زندگی کی تاریخ رقم کرتے ہیں۔
موت سے پہلے نوجوانوں کے لئے بھگت سنگھ مارکسی سوشل ریکنسٹریکشن کا پیغام دیتا ہے۔
لاہور کی زندگی ‘ جان پی سنڈرئیس کا قتل ‘ اسمبلی میں بم دھماکہ ‘ لاہور کورٹ کیس‘ بھگت سنگھ کی پھانسی بلاشبہ اس کی زندگی کے اہم پہلو ہیں لیکن ان پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ میرے اس مختصر نوٹ میں بھگت سنگھ جیانتی کی ذاتی زندگی کی مختصر سوانح لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ ایسے نوجوان جو آزادی کی قدروں کا اِدراک رکھتے ہیں۔ اپنے نظریات کے پرچارک ہوتے ہیں ‘ وہ وطنیت کا درست احاطہ کرتے ہوئے کبھی ہچکچاتے نہیں اور نئی نسلوں کے لئے اپنے نام کو زندہ تعبیر کی صورت امر کردیتے ہیں۔
بھگت سنگھ جیانتی صرف اس سرزمین کا ہی ہیرو نہیں بلکہ اس کی انسپائریشن کی تاریخ دنیا بھر میں ایک مثل کی مانند ہے اور جہاں جہاں دنیا میں آزادی کی تحریکیں ہیں وہیں بھگت سنگھ اپنے لازوال رُوپ میں زندہ ہے۔
—♦—

ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے سنیئر وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک ملکی و عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے تاحیات ممبر ہیں۔
Comments 4
-
مختصر مگر جامع تحریر۔ متفق کہ ایسے لوگ "اپنے نظریات کے پرچارک ہوتے ہیں ‘ وہ وطنیت کا درست احاطہ کرتے ہوئے کبھی ہچکچاتے نہیں اور نئی نسلوں کے لئے اپنے نام کو زندہ تعبیر کی صورت امر کردیتے ہیں۔ ”
بہت عمدہ لکھا ۔-
للکار نیوز says:
مضمون کی پسندیدگی کا بہت شکریہ، نعیم بیگ صاحب پاکستان کے سینئر ترقی پسند ناول نگار و لکھاری ہیں اور سیاسی سماجی مسائل پر وہ للکار اور دیگر متعدد پلیٹ فارمز پر لکھتے رہتے ہیں۔ امید ہے ان کی آئندہ تحریریں بھی یونہی پڑھنے والوں کو پسند آئیں گی۔
-
-
مصنف نے بھگت سنگھ کے نظریاتی ارتقاء اور ابتداء میں عدم تشدد کی سوچ سے لے کر ایک حریت پسند مزاحمت کار کے سفر کا بخوبی احاطہ کیا ہے۔ بھگت سنگھ کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جا چکا ہے۔
مختصر مگر جامع تحریر۔ متفق کہ ایسے لوگ "اپنے نظریات کے پرچارک ہوتے ہیں ‘ وہ وطنیت کا درست احاطہ کرتے ہوئے کبھی ہچکچاتے نہیں اور نئی نسلوں کے لئے اپنے نام کو زندہ تعبیر کی صورت امر کردیتے ہیں۔ ”
بہت عمدہ لکھا ۔
مضمون کی پسندیدگی کا بہت شکریہ، نعیم بیگ صاحب پاکستان کے سینئر ترقی پسند ناول نگار و لکھاری ہیں اور سیاسی سماجی مسائل پر وہ للکار اور دیگر متعدد پلیٹ فارمز پر لکھتے رہتے ہیں۔ امید ہے ان کی آئندہ تحریریں بھی یونہی پڑھنے والوں کو پسند آئیں گی۔
مصنف نے بھگت سنگھ کے نظریاتی ارتقاء اور ابتداء میں عدم تشدد کی سوچ سے لے کر ایک حریت پسند مزاحمت کار کے سفر کا بخوبی احاطہ کیا ہے۔ بھگت سنگھ کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جا چکا ہے۔
سبین علی صاحبہ بہت شکریہ مضمون کی پسندیدگی کا۔