• Latest

کچھ لوگ مجھ سے نفرت کم کرتے ہیں، میری جرآت سے زیادہ کرتے ہیں! ۔ تحریر: اسد مفتی

جون 11, 2024

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
منگل, مئی 20, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home مضامین

کچھ لوگ مجھ سے نفرت کم کرتے ہیں، میری جرآت سے زیادہ کرتے ہیں! ۔ تحریر: اسد مفتی

للکار نیوز by للکار نیوز
جون 11, 2024
in مضامین
A A
0

میرے نزدیک کسی بھی قسم کا واقعہ، حادثہ یا تخلیق کی اہم اور بڑی خوبی کوئی بنتی ہے تو وہ یہی کہ یہ واقعہ یا تخلیق پڑھنے یا سُننے والے کو متحرک کر دے، کہ میرے جیسے شخص کے لئے یہی زندہ رہنے کا جواز ہے۔

تو آئیے! آج آپ کو چند زندہ رہنے والے واقعات سُناتا ہوں؛-

البرٹ آئن سٹائین ایک یہودی سائنس دان تھا۔ اسرائیل کے پہلے صدر روحائیم وائزمین کے انتقال کے بعد 1952ء میں آئن سٹائین کو اسرائیل کی صدارت کا عہدہ پیش کیا گیا مگر اس نے اس عہدہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے امریکہ میں مقیم اسرائیلی سفیر ابا بیان سے کہا؛۔

”میں فطرت کے بارے میں بہت کم جاتا ہوں اور انسان کے بارے میں تو بمشکل کوئی چیز مجھے معلوم ہے، میں اسرائیل کی طرف سے اس پیشکش سے بہت متاثر ہوں اور اسی کے ساتھ مجھے افسوس اور شرمندگی بھی ہے کہ میں اس کو قبول نہیں کرسکتا۔ میں زندگی بھر دوسری چیزوں پر کام کرتا رہا ہوں اس لیے میں عوام سے درست طور پر معاملہ کر نے اور سرکاری اُمور کو برتنے کی فطری استعداد اور تجربہ دونوں سے محروم ہوں، میری بڑھتی ہوئی عمر نے میری قوت کو متاثر نہ کیا ہوتا، تب بھی تنہا ان وجوہ سے میں اس اعلیٰ عہدہ کی ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے غیر موزوں تھا۔“

ایک روز چین کا نامور فلسفی کنفیوشیس اپنے شاگردوں کے ساتھ کسی پہاڑی سفر پر جارہا تھا انہوں نے ایک جگہ ایک عورت کو زارو قطار روتے دیکھا، دریافت کرنے پر عورت نے بتایا کہ اس مقام پر اس سے جوان بیٹے کو شیر چیر پھاڑ کر کھا گیا ہے۔ کنفیوشیس نے اظہار ہمدردی کیا تو عورت بولی کہ اس مقام پر شیر اس کے باپ اور شوہر کو بھی چیر پھاڑ کر کھا چکا ہے۔ کنفیوشیس نے حیران ہو کر پوچھا۔

”تم اس مقام کو چھوڑ کر کہیں اور کیوں نہیں چلی جاتی؟“

 ابوظہبی کے حکمران اپنی دولت شروع شروع میں اپنے محل کے ایک کمرے میں رکھا کرتے تھے اور انہیں شکایت تھی کہ چوہے ان کے کرنسی نوٹ کُتر جاتے ہیں۔ ایک برطانوی بینک مینیجر نے بڑی مشکل سے انہیں راضی کیا کہ وہ اپنی دولت بنک میں جمع کرادیں جس پر وہ مشکل ہے آمادہ ہوئے۔ انہیں بینکوں پر کوئی اعتبار نہ تھا۔ شروع میں انہوں نے تجرباتی طور پر صرف دس لاکھ پونڈ بنک میں جمع کرائےاور اسی دن بنک بند ہونے سے پہلے یہ تمام دولت دوبارہ نکال لی۔ انہوں سے یہ عمل کئی بار دُہرایا اور تب انہیں یقین آیا کہ بنک میں ان کی رقم نہ صرف محفوظ ہے بلکہ جب چاہیں وہ اسے نکلوا سکتے ہیں۔ اسی تجربہ کے بعد ابو ظہبی میں بینکنگ کے نظام نے فروغ پایا۔۔۔

ابوالقاہیہ، خلافتِ عباسیہ کے عہد کا ایک معروف شاعر گزرا ہے۔ ایک روز وہ کچھ ملول سا بیٹھا تھا۔ کسی نے دریافت حال کیا تو بولا؛۔

”بھائی بات یہ ہے کہ میں کچھ عجیب سی زندگی بسر کر رہا ہوں اس سے نہ تو میں خوش ہوں نہ میرا اللہ خوش ہے اور نہ شیطان خوش ہے“۔

پوچھنے والے نے حیرت سے اسے دیکھا اور پوچھا حضرت بات سمجھ میں نہیں آئی، وضاحت فرمائیں۔

ابو القاہیہ نے کہا؛

”اس میں ہر بات واضح ہے، میں دولت کے لالچ میں گرفتار ہوں، بہت مال و متاع چاہتا ہوں جو مجھے میّسر نہیں ہے لہٰذا سخت ناخوش رہتا ہوں، اُدھر اللہ تعالیٰ مجھ سے ناخوش ہے کہ میں اُسکی اطاعتِ کاملہ اختیار نہیں کر رہا ہوں۔ اب رہا شیطان تو وہ بدبخت بھی مجھ سے خوش نہیں ہے میں اتنے بڑے بڑے گناہ بھی کرنے کی ہمت نہیں کرتا جو وہ مجھ سے کروانا چاہتا ہے۔“

ایک دن ابنِ سماک، خلیفہ ہارون الرشید کے پاس بیٹھا تھا۔ خلیفہ کو پیاس لگی پانی کیلئے حکم ہوا، ہاتھ میں پانی کا گلاس لے کر ابنِ سماک نے پوچھا؛

”امیر المومنین! پہلے یہ بتائے کہ اگر آپ کو پانی نہ ملے تو شدتِ پیاس میں آپ پانی کا ایک پیالہ کس قیمت پر خریدیں گے؟ آدھی سلطنت دے کر بھی خرید لونگا۔“   ہارون الرشید نے کہا۔

ابنِ سماک نے پانی کا گلاس دیتے ہوئے کہا لیجئے اب پانی پی لیجئے۔ جب خلیفۂ وقت پانی پی چکا تو ابنِ سماک نے پھر پوچھا۔

”امیر المومنین! اگر یہ پانی آپ کے پیٹ میں رہ جائے اور باہر نہ نکلے تو آپ اس کو نکلوانے کیلئے کتنی رقم خرچ کر سکتے ہیں؟“

خلیفہ نے جواب دیا۔

”باقی کی آدھی سلطنت دے دو نگا۔“

ابنِ سماک نے فوراً کہا؛

”بس یہ سمجھ لیجئے کہ آپ کی تمام سلطنت ایک گھونٹ پانی اور چند قطرے پیشاب کی قیمت رکھتا ہے، اس لئے اپنی حکومت پر کبھی تکبر نہ کیجئے اور جہاں تک ہو سکے لوگوں سے نیک سلوک کیجئے۔“

ہارون الرشید یہ سُن کر دیر تک روتارہا۔۔۔

آخر میں ایک واقعہ تمثیل کی زبان میں سُنئے!

کسی سیٹھ نے خواب میں دیکھا کہ دولت کی دیوی یعنی لکشمی جی کہہ رہی ہے۔

”سیٹھ تیری نیک اور پارسا تگ و دَو اور جدوجہد ختم ہو رہی ہے اس لیے میں چند دنوں میں تیرے گھر سے رخصت ہو جاؤں گی۔ تجھے مجھ سے جو مانگنا ہو مانگ لے۔“

سیٹھ نے کہا کل صبح اپنے گھر والوں سے صلاح مشورہ کر کے جو مانگنا ہوگا مانگ لوں گا۔ صبح ہوئی سیٹھ نے خواب کا ماجرا سب کے سامنے رکھا۔ کُنبے میں سے کسی نے ہیرے جواہرات مانگنے کیلئے کہا، کسی نے سونے کا ڈھیر، کسی نے لمبی چوڑی گاڑیاں تو اور کسی نے کوٹھی بنگلے مانگنے کی صلاح دی۔ آخر پر سیٹھ کی چھوٹی بہو نے کہا؛

”ابا! اگر لکشمی دیوی کو جانا ہی ہے تو یہ سب چیزیں ملنے پر بھی رہیں گی کیسے؟ آپ تو محض یہ مانگئے کہ خاندان میں پیار محبت بنی رہے۔ کُنبے کے سب لوگوں میں بھائی چارہ، محبت اور قربانی کا جذبہ رہے گا تومصیبت کے دن بھی آرام سے کٹ جائیں گے۔“

سیٹھ کو یہ تجویز پسند آئی اور جب رات کو پھر خواب میں لکشمی دیوی کے درشن ہوئے تو اس نے کہا بولو کیا مانگتے ہو؟

سیٹھ نے کہا کہ دیوی آپ جانا ہی چاہتی ہیں تو خوشی سے جائیے لیکن میں آپ سے صرف ایک وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ ہمارے کُنبے کے لوگوں میں ہمیشہ بنی رہے گی۔ ہمیشہ پیار، محبر رہے گا۔“

 لکشمی بولی؛ ”سیٹھ تو نے ایسا وعدہ مانگا ہے کہ مجھے باندھ ہی لیا ہے بھلا جس کُنبے کے افراد میں محبت، پیار اور پریم ہوگا وہاں سے میں کیسے جا سکتی ہوں۔“

—♦—

 

241138016_10226968470148503_1010491716447353546_n
مصنف کے بارے

 اسد مفتی معروف پاکستانی / ڈچ ترقی پسند صحافی ہیں جو عرصہ دراز سے یورپ میں مقیم ہیں۔ مارکسسٹ، لیننسٹ سوچ رکھنے والے سینئر صحافی اسد مفتی کی تحریروں سے عوام بخوبی واقف ہیں۔
انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز (1969) روزنامہ امروز لاہور سے کیا تھا۔ فیض احمد فیض، سبط حسن،حمید اختر، کلدیپ نیر اور آئی کے گجرال کے قریبی دوستوں میں سے  ہیں۔
  آپ  ڈیلی للکار کے لئے  ہفتہ وار کالم ”پانچواں موسم“ کے نام سے لکھتے ہیں۔ 

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">

میرے نزدیک کسی بھی قسم کا واقعہ، حادثہ یا تخلیق کی اہم اور بڑی خوبی کوئی بنتی ہے تو وہ یہی کہ یہ واقعہ یا تخلیق پڑھنے یا سُننے والے کو متحرک کر دے، کہ میرے جیسے شخص کے لئے یہی زندہ رہنے کا جواز ہے۔

تو آئیے! آج آپ کو چند زندہ رہنے والے واقعات سُناتا ہوں؛-

البرٹ آئن سٹائین ایک یہودی سائنس دان تھا۔ اسرائیل کے پہلے صدر روحائیم وائزمین کے انتقال کے بعد 1952ء میں آئن سٹائین کو اسرائیل کی صدارت کا عہدہ پیش کیا گیا مگر اس نے اس عہدہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے امریکہ میں مقیم اسرائیلی سفیر ابا بیان سے کہا؛۔

”میں فطرت کے بارے میں بہت کم جاتا ہوں اور انسان کے بارے میں تو بمشکل کوئی چیز مجھے معلوم ہے، میں اسرائیل کی طرف سے اس پیشکش سے بہت متاثر ہوں اور اسی کے ساتھ مجھے افسوس اور شرمندگی بھی ہے کہ میں اس کو قبول نہیں کرسکتا۔ میں زندگی بھر دوسری چیزوں پر کام کرتا رہا ہوں اس لیے میں عوام سے درست طور پر معاملہ کر نے اور سرکاری اُمور کو برتنے کی فطری استعداد اور تجربہ دونوں سے محروم ہوں، میری بڑھتی ہوئی عمر نے میری قوت کو متاثر نہ کیا ہوتا، تب بھی تنہا ان وجوہ سے میں اس اعلیٰ عہدہ کی ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے غیر موزوں تھا۔“

ایک روز چین کا نامور فلسفی کنفیوشیس اپنے شاگردوں کے ساتھ کسی پہاڑی سفر پر جارہا تھا انہوں نے ایک جگہ ایک عورت کو زارو قطار روتے دیکھا، دریافت کرنے پر عورت نے بتایا کہ اس مقام پر اس سے جوان بیٹے کو شیر چیر پھاڑ کر کھا گیا ہے۔ کنفیوشیس نے اظہار ہمدردی کیا تو عورت بولی کہ اس مقام پر شیر اس کے باپ اور شوہر کو بھی چیر پھاڑ کر کھا چکا ہے۔ کنفیوشیس نے حیران ہو کر پوچھا۔

”تم اس مقام کو چھوڑ کر کہیں اور کیوں نہیں چلی جاتی؟“

 ابوظہبی کے حکمران اپنی دولت شروع شروع میں اپنے محل کے ایک کمرے میں رکھا کرتے تھے اور انہیں شکایت تھی کہ چوہے ان کے کرنسی نوٹ کُتر جاتے ہیں۔ ایک برطانوی بینک مینیجر نے بڑی مشکل سے انہیں راضی کیا کہ وہ اپنی دولت بنک میں جمع کرادیں جس پر وہ مشکل ہے آمادہ ہوئے۔ انہیں بینکوں پر کوئی اعتبار نہ تھا۔ شروع میں انہوں نے تجرباتی طور پر صرف دس لاکھ پونڈ بنک میں جمع کرائےاور اسی دن بنک بند ہونے سے پہلے یہ تمام دولت دوبارہ نکال لی۔ انہوں سے یہ عمل کئی بار دُہرایا اور تب انہیں یقین آیا کہ بنک میں ان کی رقم نہ صرف محفوظ ہے بلکہ جب چاہیں وہ اسے نکلوا سکتے ہیں۔ اسی تجربہ کے بعد ابو ظہبی میں بینکنگ کے نظام نے فروغ پایا۔۔۔

ابوالقاہیہ، خلافتِ عباسیہ کے عہد کا ایک معروف شاعر گزرا ہے۔ ایک روز وہ کچھ ملول سا بیٹھا تھا۔ کسی نے دریافت حال کیا تو بولا؛۔

”بھائی بات یہ ہے کہ میں کچھ عجیب سی زندگی بسر کر رہا ہوں اس سے نہ تو میں خوش ہوں نہ میرا اللہ خوش ہے اور نہ شیطان خوش ہے“۔

پوچھنے والے نے حیرت سے اسے دیکھا اور پوچھا حضرت بات سمجھ میں نہیں آئی، وضاحت فرمائیں۔

ابو القاہیہ نے کہا؛

”اس میں ہر بات واضح ہے، میں دولت کے لالچ میں گرفتار ہوں، بہت مال و متاع چاہتا ہوں جو مجھے میّسر نہیں ہے لہٰذا سخت ناخوش رہتا ہوں، اُدھر اللہ تعالیٰ مجھ سے ناخوش ہے کہ میں اُسکی اطاعتِ کاملہ اختیار نہیں کر رہا ہوں۔ اب رہا شیطان تو وہ بدبخت بھی مجھ سے خوش نہیں ہے میں اتنے بڑے بڑے گناہ بھی کرنے کی ہمت نہیں کرتا جو وہ مجھ سے کروانا چاہتا ہے۔“

ایک دن ابنِ سماک، خلیفہ ہارون الرشید کے پاس بیٹھا تھا۔ خلیفہ کو پیاس لگی پانی کیلئے حکم ہوا، ہاتھ میں پانی کا گلاس لے کر ابنِ سماک نے پوچھا؛

”امیر المومنین! پہلے یہ بتائے کہ اگر آپ کو پانی نہ ملے تو شدتِ پیاس میں آپ پانی کا ایک پیالہ کس قیمت پر خریدیں گے؟ آدھی سلطنت دے کر بھی خرید لونگا۔“   ہارون الرشید نے کہا۔

ابنِ سماک نے پانی کا گلاس دیتے ہوئے کہا لیجئے اب پانی پی لیجئے۔ جب خلیفۂ وقت پانی پی چکا تو ابنِ سماک نے پھر پوچھا۔

”امیر المومنین! اگر یہ پانی آپ کے پیٹ میں رہ جائے اور باہر نہ نکلے تو آپ اس کو نکلوانے کیلئے کتنی رقم خرچ کر سکتے ہیں؟“

خلیفہ نے جواب دیا۔

”باقی کی آدھی سلطنت دے دو نگا۔“

ابنِ سماک نے فوراً کہا؛

”بس یہ سمجھ لیجئے کہ آپ کی تمام سلطنت ایک گھونٹ پانی اور چند قطرے پیشاب کی قیمت رکھتا ہے، اس لئے اپنی حکومت پر کبھی تکبر نہ کیجئے اور جہاں تک ہو سکے لوگوں سے نیک سلوک کیجئے۔“

ہارون الرشید یہ سُن کر دیر تک روتارہا۔۔۔

آخر میں ایک واقعہ تمثیل کی زبان میں سُنئے!

کسی سیٹھ نے خواب میں دیکھا کہ دولت کی دیوی یعنی لکشمی جی کہہ رہی ہے۔

”سیٹھ تیری نیک اور پارسا تگ و دَو اور جدوجہد ختم ہو رہی ہے اس لیے میں چند دنوں میں تیرے گھر سے رخصت ہو جاؤں گی۔ تجھے مجھ سے جو مانگنا ہو مانگ لے۔“

سیٹھ نے کہا کل صبح اپنے گھر والوں سے صلاح مشورہ کر کے جو مانگنا ہوگا مانگ لوں گا۔ صبح ہوئی سیٹھ نے خواب کا ماجرا سب کے سامنے رکھا۔ کُنبے میں سے کسی نے ہیرے جواہرات مانگنے کیلئے کہا، کسی نے سونے کا ڈھیر، کسی نے لمبی چوڑی گاڑیاں تو اور کسی نے کوٹھی بنگلے مانگنے کی صلاح دی۔ آخر پر سیٹھ کی چھوٹی بہو نے کہا؛

”ابا! اگر لکشمی دیوی کو جانا ہی ہے تو یہ سب چیزیں ملنے پر بھی رہیں گی کیسے؟ آپ تو محض یہ مانگئے کہ خاندان میں پیار محبت بنی رہے۔ کُنبے کے سب لوگوں میں بھائی چارہ، محبت اور قربانی کا جذبہ رہے گا تومصیبت کے دن بھی آرام سے کٹ جائیں گے۔“

سیٹھ کو یہ تجویز پسند آئی اور جب رات کو پھر خواب میں لکشمی دیوی کے درشن ہوئے تو اس نے کہا بولو کیا مانگتے ہو؟

سیٹھ نے کہا کہ دیوی آپ جانا ہی چاہتی ہیں تو خوشی سے جائیے لیکن میں آپ سے صرف ایک وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ ہمارے کُنبے کے لوگوں میں ہمیشہ بنی رہے گی۔ ہمیشہ پیار، محبر رہے گا۔“

 لکشمی بولی؛ ”سیٹھ تو نے ایسا وعدہ مانگا ہے کہ مجھے باندھ ہی لیا ہے بھلا جس کُنبے کے افراد میں محبت، پیار اور پریم ہوگا وہاں سے میں کیسے جا سکتی ہوں۔“

—♦—

 

241138016_10226968470148503_1010491716447353546_n
مصنف کے بارے

 اسد مفتی معروف پاکستانی / ڈچ ترقی پسند صحافی ہیں جو عرصہ دراز سے یورپ میں مقیم ہیں۔ مارکسسٹ، لیننسٹ سوچ رکھنے والے سینئر صحافی اسد مفتی کی تحریروں سے عوام بخوبی واقف ہیں۔
انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز (1969) روزنامہ امروز لاہور سے کیا تھا۔ فیض احمد فیض، سبط حسن،حمید اختر، کلدیپ نیر اور آئی کے گجرال کے قریبی دوستوں میں سے  ہیں۔
  آپ  ڈیلی للکار کے لئے  ہفتہ وار کالم ”پانچواں موسم“ کے نام سے لکھتے ہیں۔ 

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Tags: ArticlesBraveryFolk WisdomsHaroon RashidSocial BehaviorsSocial Fabric
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

by للکار نیوز
اپریل 6, 2025
0
0

اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر...

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

by للکار نیوز
ستمبر 27, 2024
0
0

پانچ دہائیوں تک ہندوستان کی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برِصغیر کے نامور مارکسی مفکر، انقلابی تحریکوں...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

کالے کوئلے کو سفید بنانے والی ”دانائی“ اور ماحولیاتی سوال! – تحریر:بخشل تھلہو

by للکار نیوز
ستمبر 8, 2024
0
0

اس اگست کی دو تاریخ کو نصیر میمن صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ کی، جس میں...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.