- نوٹ: رانا اعظم کے ”انقلاب کے امکانات“ پر مضامین کی سیریز کی قسط- 6 قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔
جن سوالات پر ابھی تک ہم نے گفتگو کی ہے وہ ہیں: کیا انقلاب کا دور ختم ہو چکا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیوں؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ ابھی تک کی بحث سے ہم نے یہ نتیجہ تو اخذ کر لیا ہے کہ مستقبل میں انقلابات بپا ہوں گے۔ اس کی حدیں کیا ہوں گی؟ اس کی حکمتِ عملیاں کیا ہوں گی؟ کیسا ہم دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیسے ہوگا ؟ کتنے عرصے میں ہوگا جو ہم چاہتے ہیں۔ یہ سارے مستقبل سے جڑے سوالات ہیں۔ مستقبل سے وابستہ سوالات کے درست جوابات ممکن نہیں ہوتے۔ یہ عرصے والا سوال ہمارے اپنے لئے ہی کتنا بیہودہ ہے۔ بیہودہ سمجھتے ہوئے بھی ہم نے رکھ لیا ہے۔ یہی وہ سوال ہے جو ہمارے لمپن، ان گھڑت، لیفٹ کو خود بھی اپنی ذہنی آوارہ گردی کی بنا پر سمجھ نہیں آتا، ہمیں بھی جینے نہیں دیتے۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے یا کسی کے پاس بھی اس کا کوئی حتمی جواب نہیں ہے۔ اس بیہودگی کا ایک جواب تو فی الوقت دیا جا سکتا ہے کہ یہ سب پاکستان کی حد تک جلد ممکن نہیں ہے۔ لیکن حتمی بات ناممکن بلکل نہیں ہے۔
جیسا کہ ہم گزشتہ تحریروں میں بیان کردہ سماجی حالات اور مارکسی سائنس کی روشنی میں بڑے وثوق سے کہتے آئے ہیں یا کہہ سکتے ہیں کہ عوام کی شعوری تحریکیں اور جدوجہد جلد یا بدیر سوئی کے ناکے سے گزر کر بھی بہتر دنیا میں جائیں گی۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انقلابی سماجی تحریکوں کو سوئی کے ناکے سے گزارنے والے ذرائع پیداوار کرنے ہوں گے۔
چلیں اس سوال سے شروع کرتے ہیں کہ ہم کیسا انقلاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ انقلاب کی تعریف کو ہم کھلا نہیں چھوڑ سکتے۔ اس لیئے کہ ردِ انقلاب قوتیں ابہام در ابہام پیدا کرتی جائیں گی ۔۔۔ سکوکپول ( Skocpol) انقلاب کی تعریف یوں کرتی ہیں کہ ” کسی سوسائٹی کی ریاست اور طبقاتی ڈھانچوں میں فوری تبدیلی۔۔۔ طبقاتی بنیادوں والی نیچے سے کی جانے والی بغاوتوں کے ساتھ اور جزوی طور پر ان کے ذریعے“ سوویت انقلاب سے لے کر جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، آج تک کے تیسری دنیا کے عظیم سماجی انقلابوں، چین، کیوبا، ویتنام وغیرہ کی کایا کلپ۔ انتخابی انقلابوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔ الاندے( Allende ) کے تحت چلی، حالیہ لاطینی امریکہ اور ہمارے پڑوس نیپال میں جس کی خاص بات یہ ہے کہ نیپال کے انتخاب کے نتیجے میں کیمونسٹ پارٹیاں براہِ راست اقتدار میں آئیں، کے تجربات۔
یہ ہیں وہ سوالات جن کے جواب کے لئے دانشوروں کو اپنی زیادہ سے زیادہ قوت صرف کرنا ہوگی۔
ہم نے اوپر ایک بات حتمی طور پر کہی ہے کہ انقلابات ناممکن بالکل نہیں ہیں۔
انقلابی سماجی تبدیلی کی تحریکیں سوئی کے ناکے سے گزر کر بھی بہتر دنیا میں جائیں گی۔
انقلابی تبدیلی محض ایک امنگ نہیں ، طبقاتی کشمکشوں کی پیداوار ہوتی ہے۔ جو اس سوسائٹی میں برسرپیکار ہوتی ہیں جس میں ہم رہ رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں ہمعصر دنیا سے شروع ہونا پڑے گا۔ نکتہ آغاز ہر دو کے لیے انقلابات کے تجزیے اوران لوگوں کے غصے کے لیے جو قربانی اور بغاوت کے خطرات جھیلتے ہیں، حال کو رد کرنے سے ہوگا۔
مارکس نےسرمائے میں اس سوسائٹی اور اس کی معیشت پر توجہ مرکوز کی جس میں وہ رہتا تھا ۔ لینن نے اپنے وقت پر ۔
آج کے بدلے ہوئے حالات میں دو سوالات پیدا ہوتے ہیں پہلا سوال جس سے انقلابی تجزبہ شروع ہوتا ہے۔ جدید سوسائٹی کی سماجیات سے متعلق ہے۔ سرمایہ داری اور کچھ نہ بھی ہو تو ایک ایسا نظام ہے جو مسلسل تبدیلی میں ہے۔ اس کا اطلاق ان عناصر پر بھی ہوتا ہے جو انقلاب کا کوئی تجزبہ تشکیل کرتے ہیں۔
طبقاتی ڈھانچہ، نظریات، ریاست کی تشکیلات اور تیکنیکیات دو نسلیں پہلے انقلاب کی بحث بہت ابتدائی اور سادہ تھی۔ آج کی سماجیات کی پیچیدگی، ریاست، نظریے، طاقت کے عالمی ڈھانچے اور دولت شامل ہیں جو ہماری فہم میں گرانقدر اضافہ کرتے ہیں۔
انقلاب کی سیاسی سوشیالوجی، مطالعے کا نیا میدان ہے۔ اگر ہم نے کچھ پایا ہے تو کچھ چیزیں کھوئی بھی ہیں۔ ان میں سے خود واقعات کے ڈرامائی ہونے کا احساس ہے۔
سائنسی اور ساختیاتی بیانات سے متعلق ہمارا احترام، گو ہمیں لبھاتا ہے لیکن اکثر انقلاب کے تاریخ نویسوں کے کام کو رد کرنا بر خود غلط ہوتا ہے ۔ان کا کام بہت سے غیر یقینی حالات تناو اوراخلاقیاتی ماحول کے ساتھ بغاوت کی امیدوں کو گرفت میں لاتا ہے۔ ہمیں زیادہ سماجیاتی اور تقابلی انداز میں ان بیانیوں پر اپنا نظریہ استوار کرنا چاہیے۔
انقلاب کے تجزیے اور مستقبل کے لیے موجود دنیا کی آئیڈیالوجی کا انتقاد/ نقد، استحصال کا ڈھانچہ، سیاسی اور سماجی قوتوں کا توازن تنظیموں کی شکلیں اور طرفین کو مہیا طاقت۔ انقلاب کی اُمنگ کا یوٹوپیائی لیکن پروگرام اور تجزیے میں حقیقت پسند ہونا لازمی ہوگا۔ کسی بھی”موجود حالت“ کے تجزیے میں ان دونوں ضرورتوں کو پیش نظر رکھنا ایک عظیم ترین چیلنج ہے۔ ہر قسم کا نسیان ( بھولنے کی بیماری)۔۔۔ ردِ انقلاب اور انقلاب والا۔ دونوں قابل قبول نہیں ورنہ تاریخ کے دہرانے کا مقدر جھیلنا پڑے گا۔ یہاں ہمیں ہمعصر تحریکیں چاہے وہ قومی یا پھر بین الاقوامی شکل میں ہوں کے تنقیدی غور کے نسیان کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
- نوٹ: رانا اعظم کے ”انقلاب کے امکانات“ پر مضامین کی سیریز کی قسط- 6 قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔
جن سوالات پر ابھی تک ہم نے گفتگو کی ہے وہ ہیں: کیا انقلاب کا دور ختم ہو چکا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیوں؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ ابھی تک کی بحث سے ہم نے یہ نتیجہ تو اخذ کر لیا ہے کہ مستقبل میں انقلابات بپا ہوں گے۔ اس کی حدیں کیا ہوں گی؟ اس کی حکمتِ عملیاں کیا ہوں گی؟ کیسا ہم دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیسے ہوگا ؟ کتنے عرصے میں ہوگا جو ہم چاہتے ہیں۔ یہ سارے مستقبل سے جڑے سوالات ہیں۔ مستقبل سے وابستہ سوالات کے درست جوابات ممکن نہیں ہوتے۔ یہ عرصے والا سوال ہمارے اپنے لئے ہی کتنا بیہودہ ہے۔ بیہودہ سمجھتے ہوئے بھی ہم نے رکھ لیا ہے۔ یہی وہ سوال ہے جو ہمارے لمپن، ان گھڑت، لیفٹ کو خود بھی اپنی ذہنی آوارہ گردی کی بنا پر سمجھ نہیں آتا، ہمیں بھی جینے نہیں دیتے۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے یا کسی کے پاس بھی اس کا کوئی حتمی جواب نہیں ہے۔ اس بیہودگی کا ایک جواب تو فی الوقت دیا جا سکتا ہے کہ یہ سب پاکستان کی حد تک جلد ممکن نہیں ہے۔ لیکن حتمی بات ناممکن بلکل نہیں ہے۔
جیسا کہ ہم گزشتہ تحریروں میں بیان کردہ سماجی حالات اور مارکسی سائنس کی روشنی میں بڑے وثوق سے کہتے آئے ہیں یا کہہ سکتے ہیں کہ عوام کی شعوری تحریکیں اور جدوجہد جلد یا بدیر سوئی کے ناکے سے گزر کر بھی بہتر دنیا میں جائیں گی۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انقلابی سماجی تحریکوں کو سوئی کے ناکے سے گزارنے والے ذرائع پیداوار کرنے ہوں گے۔
چلیں اس سوال سے شروع کرتے ہیں کہ ہم کیسا انقلاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ انقلاب کی تعریف کو ہم کھلا نہیں چھوڑ سکتے۔ اس لیئے کہ ردِ انقلاب قوتیں ابہام در ابہام پیدا کرتی جائیں گی ۔۔۔ سکوکپول ( Skocpol) انقلاب کی تعریف یوں کرتی ہیں کہ ” کسی سوسائٹی کی ریاست اور طبقاتی ڈھانچوں میں فوری تبدیلی۔۔۔ طبقاتی بنیادوں والی نیچے سے کی جانے والی بغاوتوں کے ساتھ اور جزوی طور پر ان کے ذریعے“ سوویت انقلاب سے لے کر جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، آج تک کے تیسری دنیا کے عظیم سماجی انقلابوں، چین، کیوبا، ویتنام وغیرہ کی کایا کلپ۔ انتخابی انقلابوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔ الاندے( Allende ) کے تحت چلی، حالیہ لاطینی امریکہ اور ہمارے پڑوس نیپال میں جس کی خاص بات یہ ہے کہ نیپال کے انتخاب کے نتیجے میں کیمونسٹ پارٹیاں براہِ راست اقتدار میں آئیں، کے تجربات۔
یہ ہیں وہ سوالات جن کے جواب کے لئے دانشوروں کو اپنی زیادہ سے زیادہ قوت صرف کرنا ہوگی۔
ہم نے اوپر ایک بات حتمی طور پر کہی ہے کہ انقلابات ناممکن بالکل نہیں ہیں۔
انقلابی سماجی تبدیلی کی تحریکیں سوئی کے ناکے سے گزر کر بھی بہتر دنیا میں جائیں گی۔
انقلابی تبدیلی محض ایک امنگ نہیں ، طبقاتی کشمکشوں کی پیداوار ہوتی ہے۔ جو اس سوسائٹی میں برسرپیکار ہوتی ہیں جس میں ہم رہ رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں ہمعصر دنیا سے شروع ہونا پڑے گا۔ نکتہ آغاز ہر دو کے لیے انقلابات کے تجزیے اوران لوگوں کے غصے کے لیے جو قربانی اور بغاوت کے خطرات جھیلتے ہیں، حال کو رد کرنے سے ہوگا۔
مارکس نےسرمائے میں اس سوسائٹی اور اس کی معیشت پر توجہ مرکوز کی جس میں وہ رہتا تھا ۔ لینن نے اپنے وقت پر ۔
آج کے بدلے ہوئے حالات میں دو سوالات پیدا ہوتے ہیں پہلا سوال جس سے انقلابی تجزبہ شروع ہوتا ہے۔ جدید سوسائٹی کی سماجیات سے متعلق ہے۔ سرمایہ داری اور کچھ نہ بھی ہو تو ایک ایسا نظام ہے جو مسلسل تبدیلی میں ہے۔ اس کا اطلاق ان عناصر پر بھی ہوتا ہے جو انقلاب کا کوئی تجزبہ تشکیل کرتے ہیں۔
طبقاتی ڈھانچہ، نظریات، ریاست کی تشکیلات اور تیکنیکیات دو نسلیں پہلے انقلاب کی بحث بہت ابتدائی اور سادہ تھی۔ آج کی سماجیات کی پیچیدگی، ریاست، نظریے، طاقت کے عالمی ڈھانچے اور دولت شامل ہیں جو ہماری فہم میں گرانقدر اضافہ کرتے ہیں۔
انقلاب کی سیاسی سوشیالوجی، مطالعے کا نیا میدان ہے۔ اگر ہم نے کچھ پایا ہے تو کچھ چیزیں کھوئی بھی ہیں۔ ان میں سے خود واقعات کے ڈرامائی ہونے کا احساس ہے۔
سائنسی اور ساختیاتی بیانات سے متعلق ہمارا احترام، گو ہمیں لبھاتا ہے لیکن اکثر انقلاب کے تاریخ نویسوں کے کام کو رد کرنا بر خود غلط ہوتا ہے ۔ان کا کام بہت سے غیر یقینی حالات تناو اوراخلاقیاتی ماحول کے ساتھ بغاوت کی امیدوں کو گرفت میں لاتا ہے۔ ہمیں زیادہ سماجیاتی اور تقابلی انداز میں ان بیانیوں پر اپنا نظریہ استوار کرنا چاہیے۔
انقلاب کے تجزیے اور مستقبل کے لیے موجود دنیا کی آئیڈیالوجی کا انتقاد/ نقد، استحصال کا ڈھانچہ، سیاسی اور سماجی قوتوں کا توازن تنظیموں کی شکلیں اور طرفین کو مہیا طاقت۔ انقلاب کی اُمنگ کا یوٹوپیائی لیکن پروگرام اور تجزیے میں حقیقت پسند ہونا لازمی ہوگا۔ کسی بھی”موجود حالت“ کے تجزیے میں ان دونوں ضرورتوں کو پیش نظر رکھنا ایک عظیم ترین چیلنج ہے۔ ہر قسم کا نسیان ( بھولنے کی بیماری)۔۔۔ ردِ انقلاب اور انقلاب والا۔ دونوں قابل قبول نہیں ورنہ تاریخ کے دہرانے کا مقدر جھیلنا پڑے گا۔ یہاں ہمیں ہمعصر تحریکیں چاہے وہ قومی یا پھر بین الاقوامی شکل میں ہوں کے تنقیدی غور کے نسیان کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔