
دُنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم و جبر ہوتا ہے، اور آزادی سے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے، وہاں دھرتی کے بدن سے ایسے جانباز ہیرو نمودار ہوتے ہیں، جو اپنے وطن، اس کی مٹی، اور آنے والی نسلوں کی آزادی کی حفاظت کے لیے پہاڑوں سے بھی ٹکرا جاتے ہیں۔ برِصغیر میں برطانوی سامراج کے نوآبادیاتی تسلط سے آزادی کی تحریک بھی ایسے اَن گنت سانحات سے بھری پڑی ہے۔
آزادی کی جدوجہد کتنی بھی پُر امن کیوں نہ ہو، وہ جابر حکمرانوں کے مظالم کے جواب میں کسی نہ کسی لمحے پر پُرتشدد ہو ہی جاتی ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی، اور بھگت سنگھ اور ساتھیوں کی جدوجہد ناقابلِ فراموش ہیں۔
23 مارچ ہمارے لیجنڈری ہیرو بھگت سنگھ اور اُن کے ساتھیوں کا یومِ شہادت ہے، جنہیں قابض برطانوی سامراج نے 23 مارچ 1931ء کو سینٹرل جیل لاہور میں پھانسی دے کر شہید کر دیا تھا۔
یہ وہی جگہ ہے، جہاں اس وقت لاہور کا شادمان چوک واقع ہے، اور ہمارے جیسے روشن خیال کارکن اُس چوک کا نام تبدل کر کے اپنی دھرتی کے ہیرو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کرنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔
کالونیل دور (نوآبادیاتی عہد) میں قابض سامراجی قوتوں نے ایک طرف محکوم ممالک کے وسائل کو بے دردی سے لُوٹا، تو دوسری طرف اُن ممالک کے عوام میں اُبھرنے والے آزادی کے جذبوں کو دبانے اور اُن پر دھشت طاری کرنے کے لیے اُن پر وحشیانہ ظلم وجبر اور استبداد کی تمام حدیں عبور کر دیں۔ برِصغیر متحدہ ہندوستان پر برطانوی سامراج کے قبضے کی ابتدا 17ویں صدی کے آغاز میں تجارت کے نام پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے ساتھ ہو ئی تھی تو اُس قبضے کو مضبوط اور دیرپا بنانے، اور ملکی وسائل کی لوُٹ کو تیز کرنے کے لیے برِصغیر کے عوام پر ظلم و جبر کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔
ہم صرف 1857ء کی جنگِ آزادی کی حقیقی تاریخ ہی پڑھ لیں تو نوآبادیاتی نظام کے دور میں محکوم اقوام اور عوام کے ساتھ وحشیانہ درندوں جیسا سلوک آشکارہ ہو جاتا ہے۔
نامور تاریخ دان امریش مشرا نے 1857ء کی جنگِ آزادی کے بارے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ ایک ان کہی ہولوکاسٹ تھی، جِس کی وجہ سےبرِصغیر میں 10 سالوں میں تقریباً 10 ملین افراد ہلاک کر دیئے گئے تھے۔
برِصغیر کے کرشماتی اورجفا کش انقلابی بھگت سنگھ ہفتہ 28 ستمبر 1907ء کو چک نمبر 105 بنگے (بھگت سنگھ والا)، تحصیل جڑانوالہ، ضلع لائل پور میں پیدا ہوئے۔ پانچ فٹ دس انچ لمبے اور نہایت مضبوط بناوٹ کے جوشیلے جوان بھگت سنگھ کی آواز بہت سُریلی اور جذبات سے بھری ہوئی تھی۔ اُن کے والد سردار کشن سنگھ سندھو ایک متوسط درجے کے خوشحال دیہاتی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، اور والدہ ودیا وتی ایک گھریلو خاتون تھیں، جو شوہر کا زمینداری میں بھی ہاتھ بٹاتی اور بچوں کی پرورش و گھر کا نظام بھی چلاتی تھیں۔ اُن کےدادا سردار اُرجن سنگھ کا شمار بڑے زمینداروں میں ہوتا تھا، کیونکہ اُن کے بھائی دِل باغ سنگھ اور دوسرے عزیزوں نے برطانوی سرکار کی خدمات اور خیر خواہی کے صلے میں بڑے عہدے اور مراعات حاصل کی تھیں، اور سماج میں کافی باعزت خیال کئے جاتے تھے۔ لیکن بھگت سنگھ کے دادا سردار اُرجن سنگھ نے اپنے وطن کی آزادی اور اپنے ہم وطنوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کا راستہ اپنایا، جِس کی وجہ سے اُنہیں زندگی بھر مشکلات اور افلاس کا سامنا کرنا پڑا۔
سردار اُرجن سنگھ کے تین بیٹے تھے، جن کا نام کشن سنگھ (بھگت سنگھ کے والد)، اجیت سنگھ اور سوارنا سنگھ تھا، اور وہ تینوں اپنی حُب الوطنی کے لیے پنجاب بھر میں مشہور تھے۔ اسی لیے اُن کو زندگی بھر تکالیف، جیل یاترہ، جلاوطنی اور افلاس سے سامنا کرنا پڑا۔
بھگت سنگھ کے والد اجیت سنگھ کی تحریکِ آزادی اور محنت کش تحریک کے نامور راہنما لالہ لاجپت رائے سے گہری دوستی تھی۔
سردار کشن سنگھ ملکی آزادی اور انقلابی تحریکوں، بالخصوص دیہاتی کسانوں کو منظم کرنے میں سرگرم رہتے، اور تحریکِ آزادی کے لیے سرگرم تمام گروپوں کی مالی معاونت بھی کرتے رہتے تھے۔ جب 1907ء میں ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آر بی ٹریری ریگولیشن نمبر 3 آف 1818ء کا اجرا کیا گیا، تو اُس نے انگریز سرکار کے ہاتھ مضبوط کر دیئے۔ اُس قانون کا مقابلہ کسانوں اور مزدوروں کی تحریک منظم کر کے سردار اجیت سنگھ اور لالہ لاجپت رائے نے کیا تھا، جِس کی پاداش میں اُنہیں جیل یاترہ پر بھیج دیا گیا۔
بھگت سنگھ کے چاچا سردار اجیت سنگھ کو برطانوی سامراج کے تسلط سے آزادی کی جنگ میں اہم قوم پرست ہیرو کا مقام حاصل تھا اور وہ غریب کسانوں کے حقوق کے تحریکوں کے بانیوں میں شامل ہوتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مل کر پنجاب کالونائزیشن ایکٹ (ترمیم) 1906ء کے نام سے بنائے جانے والے کسان مخالف قوانین اور پانی پر آبیانے کی شرح میں اضافے کے احکامات کے خلاف پنجابی کسانوں کو منظم کر کے زبردست تحریک چلائی تھی۔ مئی 1907ء میں اُنہیں لالہ لاجیت رائے کے ساتھ جلا وطن کر کے برما کی بدنامِ زمانہ منڈالے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ بعد ازاں زبردست عوامی دباؤ اور ہندوستانی فوج میں بدامنی کے اندیشے کی وجہ سے برطانوی سرکار کو جلاوطنی کا بل واپس لینا پڑا اور اکتوبر 1907ء میں دونوں راہنماؤں کو رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد اُنہوں نے اپنے بھائیوں کشن سنگھ، سورن سنگھ اور صوفی امبا پرشاد کے ساتھ مل کر سیاسی لٹریچر کی اشاعت و تقسیم کو جاری رکھا، جِس کی وجہ سے قابض سرکار انہیں گرفتار کر کے طویل مدت تک جیل میں ڈالنے کی منصوبہ سازی کر رہی تھی۔ اپنے ساتھیوں کے اسرار پر وہ 1909ء میں تحریکِ آزادی کے راہنما صوفی امبا پرشاد کے ساتھ فرار ہو کر ایران چلے گئے، اور آنے والے 38 برس جلا وطنی میں رہنے کے بعد مارچ 1947ء میں ہندوستان واپس آ گئے۔
پندرہ جولائی 1913ء کو غدر پارٹی کا قیام برِصغیر کی تحریکِ آزادی میں ایک اہم انقلابی قدم سمجھا جاتا ہے۔ یہ پارٹی ابتدائی طور پر امریکہ میں آباد تارکینِ وطن ہندوستانیوں نے برِصغیر میں برطانوی نوآبادیاتی راج کا تختہ اُلٹنے اور ملک کو آزاد کروانے کے لیے قائم کی تھی۔ بعد میں یہ تحریک ہندوستان اور دنیا بھر میں ہندوستانی کمیونٹیز تک پھیل گئی۔
غدر پارٹی کے کلیدی راہنماوں میں بھائی پرمانند، وشنو گنیش پنگلے، سوہن سنگھ بھکنا، بھگوان سنگھ گیانی، لالہ ہر دیال، تارک ناتھ داس، بھگت سنگھ تھند، کرتار سنگھ سرابھا، عبدالحفیظ، محمد برکت اللہ بھوپالی (المعروف مولانا برکت اللہ)، سنت بابا وساکھا سنگھ دادیہر، بابا جوالا سنگھ، سنتوکھ سنگھ، راش بہاری بوس، اور گلاب کور شامل تھے۔ سوہن سنگھ بھکنا اس تحریک کے صدر تھے، کیسر سنگھ اور بابا جوالا سنگھ نائب صدر، کرتار سنگھ سرابھا ایڈیٹر، کانشی رام فنانس سیکرٹری، منشی رام سیکرٹری اور لالہ ٹھاکر داس ڈپٹی سیکرٹری تھے۔
غدر پارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد انقلابی سرگرمیوں کے ذریعے ہندوستان کو آزاد کروانا تھا۔ اُنہوں نے کرتار سنگھ سرابھا کی قیادت میں ‘غدر’، یعنی بغاوت کے نام سے اپنا ہفت روزہ اخبار نکالا، اور اُس کی وسیع تر اشاعت کے ذریعے انگریزوں اور اُن کے مراعات یافتہ مقامی کارندوں کے خلاف زبردست آگاہی مہم کا آغاز کر دیا۔ اسی دوران 1914ء میں پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہو گیا تو غدر پارٹی کے راہنماوں نے انگریز سامراج کی کمزوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا۔ پارٹی کے کچھ سرکردہ راہنما ہندوستان کی آزادی کے لیے مسلح انقلاب کو بھڑکانے کے لیے امریکہ سے پنجاب واپس آگئے۔ اُنہوں نے ہندوستان میں اسلحہ سمگل کیا اور ہندوستانی فوجیوں کو انگریزوں کے خلاف بغاوت پر اکسایا۔ غدر کے نام سے مشہور یہ بغاوت ناکام رہی اور لاہور سازش کیس کے مقدمے کے کی بنا پر 42 آزادی پسند انقلابیوں کو پھانسی دے دی گئی۔ پہلی عالمی جنگ کے اختتام کے بعد امریکہ میں پارٹی ایک کمیونسٹ اور ایک ہندوستانی سوشلسٹ دھڑے میں تقسیم ہو گئی۔ بعد ازاں پارٹی کو 1948ء میں باضابطہ طور پر تحلیل کر دیا گیا تھا۔
سردار بھگت سنگھ نے ابتدائی تعلیم اپنے بڑے بھائی جگت سنگھ کے ساتھ اپنے گاؤں موضع بنگے، جڑانوالہ روڈ، ضلع لائیلپور کے سکول میں ہی حاصل کی۔ اُن کا مزاج بچپن سے ہی انقلابی تھا اور پڑھنے لکھنے میں اُن کا دِل کم ہی لگتا تھا۔ اُن کے بڑے بھائی جگت سنگھ کا 11 برس کی عمر میں ہی انتقال ہو گیا، جِس سے بھگت سنگھ کے دِل پر بہت صدمہ گزرا۔ اس سانحہ کے بعد اُن کے والد سردار کشن سنگھ لاہور کے قریب نواں کوٹ چلے گئے، اور کاشتکاری شروع کر دی۔ اُنہوں نے لاہور میں بھگت سنگھ کو ڈی۔اے۔وی سکول میں داخل کروایا، تاکہ اُس کی ذہنی تربیت ایک مذہبی ماحول کی بجائے آزادانہ ماحول میں ہو سکے۔ بھگت سنگھ اس سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیشنل کالج چلے گئے۔ کالج میں بھگت سنگھ کا میل جول سُکھ دیو اور یش پال سے ہو گیا، جِس کی بنیادی وجہ اُن کی ذہنی ہم آہنگی اور آزادی کے لیے ان کے دلوں میں اُبلتا ہوا لاوا تھا۔
اسی زمانے میں ہندوستان کے سیاسی میدان میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں بلا تشدد عدم تعاون کی تحریک ظہور پذیر ہوئی، جو عوام کے دلوں میں سرایت کر گئی۔اس دور میں ہندو مسلم اتحاد کا زبردست منظر نظر آیا، جِس نے حکومتی ایوانوں میں کھلبلی مچا دی۔ 1924ء میں بکھرے ہوئے باغی یکجا ہوئے اور بنگال میں خفیہ غیر قانونی جماعتیں پھر سے نمودار ہونے لگیں، لیکن 1925ء کے بنگال آرڈیننس سے ان کو ایک بھاری ضرب پُہنچی۔ اس دوران مختلف علاقائی انقلابی پارٹیوں نے مل کر ایک پارٹی کی صورت اختیار کر لی اور اُس کا نام ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن رکھا۔ یہ وہی جماعت ہے جس میں بھگت سنگھ نے کانپور میں شمولیت اختیار کی تھی۔
بعد ازاں 1926ء میں لکھنؤ کے قریب مشہور زمانہ کاکوری ٹرین کا واقعہ ہوا، جِس میں ہندوستان ریپبلکن آرمی کے ممبران نے سرکاری خزانہ لے کر جانے والی ٹرین کو روک کر لوٹ لیا تھا، تاکہ آزادی کی مسلح جدوجہد کے لیے وسائل فراہم کر سکیں۔ اس واقع کے بعد بھگت سنگھ لاہور چلے گئے اور واپس آ کر لالہ لاجپت رائے جی کے قائم کئے ہوئے نیشنل کالج میں سیاسیات اور اقتصادیات کے مطالعہ میں لگ گئے۔ یہاں اُنہوں نے اور دوستوں کو ساتھ مل کر روسی انقلابیوں کی طرز پر ایک سٹڈی سرکل شروع کر دیا۔ نیشنل کالج کی لائبریری میں سردار بھگت سنگھ کی راہنمائی سے ایک حیرت انگیز کتابوں کا ذخیرہ جمع ہو گیا تھا، جو کسی دوسرے کتاب خانہ میں نہیں پایا جاتا تھا۔ اٹلی، روس اور آئرلینڈ کے انقلابی زمانے کے مفصل و تازہ ترین تصانیف اور روس کی انقلابی تحریک کی ابتدائی تاریخ پر نایاب کتابیں جمع کی گئی تھیں۔ سیاسیات کے ایک گہرے اور پُر جوش طالب علم ہونے کے باوجود بھگت سنگھ صرف کتابوں ہی کے مطالعہ میں غرق نہیں رہتے تھے بلکہ اکثر مختلف ضروری مقالات پر بھی جایا کرتے تھے، اور انقلابی جماعتوں کے خفیہ جلسوں میں بھی شرکت کرتے تھے۔ یوپی و بنگال کی خفیہ جماعتوں کے ارکین و راہنماؤں سے اُن کا ذاتی تعلق تھا۔
کاکوری کانسپریسی کیس کے ٹرائل کے دوران بھگت سنگھ کئی بار لکھنؤ آئے اور اُس مقدمہ میں گرفتار راہنماؤں سے ڈسٹرکٹ جیل میں گفت و شنید کا خفیہ سلسلہ قائم کیا۔ اِس مقدمے کے بعد وسیع پیمانے پر گرفتاریوں کی وجہ سے ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن کا شیرازہ بکھر گیا، لیکن یہاں اپنے قیام کے دوران بھگت سنگھ نے اپنی اعلیٰ انتظامی تدابیر کا ثبوت دیتے ہوئے ازسرِ نو کانپور کے نامور انقلابی وجے کمار سنہا اور لاہور کے سُکھ دیو کی مدد سے یوپی اور پنجاب کے باقی ماندہ اراکین کو منظم کرنا شروع کر دیا۔ یونہی کاکوری کانسپریسی کیس کا فیصلہ آیا تو بھگت سنگھ کے 4 نوجوان ساتھیوں کو پھانسی اور بہت سے دیگر ساتھیوں کو لمبی سزائیں سنا دی گئیں۔
اپنے وسیع تر مطالعہ سے سماج میں پائی جانے والی اُونچ نیچ، اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے پیشِِ نظر بھگت سنگھ اِس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستان کی نجات صرف سیاسی آزادی سے ممکن نہیں، بلکہ اصل مسئلہ عوام کی زندگیاں بدلنے کا ہے۔ اور اُن کو روٹی، کپڑا، مکان، صحت، بچوں کی تعلیم اور روز گار فراہم کرنے کا ہے۔
اِس لیے بھگت سنگھ نے اِس پارٹی کی تنظیم سازی مارکسی اُصولوں اور سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر شروع کر دی۔ وہ اُسے کسانوں اور مزدوروں کی ایک مضبوط جماعت بنانے میں جُت گئے اور یہی کمٹمنٹ اُن کے مزاج میں ایک بڑی تبدیلی اور سنجیدہ مزاجی کا باعث بنی۔ اُنہوں نے جگہ جگہ سوشلسٹ نظام، سوویت یونین، چین اور دیگر ممالک کی انقلابی تحریکوں کی تاریخ پر سٹڈی سرکلز کا آغاز کر دیا۔
تعلیم و تدریس کے کام نے بھگت سنگھ کی بہت راہنمائی کی اور اُنہوں نے لاہور، دہلی، کانپور، بنارس، الہٰ آباد اور لاہور تک محدود اور بکھری ہوئے جماعت کو ایک منظم ملک گیر تحریک میں بدل دیا۔ اُنہوں نے آزادی پسند انقلابی گروپوں سے رابطے کئے، اُن سے بات چیت کی اور ایک متحدہ تحریک کے قیام کی بنادیں رکھ دیں۔ اُنہوں نے اپنے انقلابی ساتھیوں کی پھانسیوں اور سزاؤں کے انتقام کا پروگرام پسِ پشت ڈال کر ایسے انقلابی پروگرام پر تحریک کی مضبوط بنیادیں رکھنے کو ترجیح دی۔
بھگت سنگھ کی تجویز پر ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن کا نام بدل کر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن رکھا دیا گیا۔
اُدھر سات رُکنی پارلیمانی کمیشن، جسے سائمن کمیشن کہتے ہیں، سامراجی آئینی اصلاحات کے لیے مختلف مقامات پر جانے کے بعد 30 اکتوبر 1928ء کو لاہور پہنچنے والا تھا تو اُس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ایک بڑا جلوس نکالنے کا انتظام ہوا۔ حکومت نے دفعہ 144 نافذ کر کے پولیس کو مظاہرین کو روکنے کا حکم دے دیا۔ اس کے جواب میں جگہ جگہ پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور بہت سے کانگریسی کارکن بھی پولیس کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوئے، جن میں لالہ لاجیت رائے بھی شامل تھے۔ اِس واقعہ کے چند روز بعد لالہ لاجیت رائے، 17 نومبر 1928ء کو انتقال کر گئے تو یہ بات مشہور ہو گئی کہ لالہ جی کی موت کی ذمہ دار پولیس ہے، جِس نے اس بزرگ ہستی کو بُری طرح پیٹا تھا۔ اِس تشدد اور موت کا ذمہ دار سپرنٹنڈنٹ پولیس لاہور مسٹر اسکاٹ اور جونیئر سپرنٹنڈنٹ مسٹر سانڈرس کو ٹھہرایا گیا۔
بعد ازاں 17 دسمبر 1928ء کو مسٹر سانڈرس چوکی کے سامنے مار ڈالے گئے، اور سپاہی چانن سنگھ قاتل کا پیچھا کرتے کرتے اپنی جان گنوا بیٹھا۔ اگلے روز شہر کے مختلف مقامات پر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن آرمی کے نام سے اشتہار لگا دیئے گئے کہ سانڈرس کا کام تمام ہوا، اور لالہ جی کی موت کا بدلہ لیا گیا۔ پولیس بھگت سنگھ کی تلاش نہایت سرگرمی سے کرنے لگی، لیکن بھگت سنگھ بھیس بدل کر بھرپُور سرگرمیاں کرتے رہے۔
ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن کے دو کارکنوں نے 8 اپریل 1929ءکو دہلی میں اسمبلی کے اجلاس میں بغیر روک ٹوک داخل ہو کر دو بم پھینکے، جِس سے اسمبلی اجلاس میں چاروں طرف دُھواں ہی دُھواں نظر آنے لگا۔ اسمبلی کے ممبران میں ایک ہلچل مچ گئی، البتہ کوئی جانی نقصان نہ ہوا، کیونکہ بم صرف ممبران کو خوف زدہ کرنے والے ہی تھے۔ اس روز بمبئی میں مزدوروں کی ہڑتال تھی اور سرکار سمجھتی تھی کہ مزدوروں کی تحریکیں آزادی کی تحریک کو مضبوط کرتی ہیں، اِس لیے سرکار کا منصوبہ ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں کوروکنا، اور اسمبلی میں بِل پیش کر کے ٹریڈ یونین تحریک پر پابندی لگانا تھا۔
بھگت سنگھ اور بی کے دَت انگریزی لباس پہنے، پاس لے کر گذشتہ چار روز سے اسمبلی میں آ رہے تھے، اور کسی کو خبر تک نہ تھی۔ اُن کی ایک جیب میں پستول اور دوسری میں بم ہوتا تھا۔ ان دھماکوں کے بعد بھگت سنگھ اور بی کے دَت نے بھاگنے کی بجائے طے شدہ منصوبے کے تحت گرفتاری دی، اور سامراج مردہ باد، انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے اور پمفلٹ بکھیرتے فخریہ انداز میں گرفتاری دے رہے تھے۔
مقدمے کی سماعت کے دوران بھگت سنگھ اور بی کے دَت کا بیان ہندوستان ہی نہیں بلکہ دُنیا بھر میں شائع ہوا اور اُس نے آزادی کی جدوجہد کو ایک نیا ولولہ دے دیا۔
جیل میں اُنہوں نے قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک، ان کو دی جانے والی تکالیف کے خلاف اور مناسب سہولیات کی فراہمی کے لیے بھوک ہڑتال کر دی۔اُن کی مانگ تھی کہ ہر اُس قیدی کا شمار سیاسی قیدیوں میں ہو جِس کی گرفتاری کی بنیاد ذاتی فائدے کی بجائے عوام الناس کو فائدہ پہنچانے کی پاداش میں ہوئی ہو، اور اُن سیاسی قیدیوں کو جیل میں جو سہولتیں فراہم کی جائیں اُن میں پڑھنے کے لیے کتابیں اور اخبارات، بہتر خوراک، اور ایک سیاسی قیدی کو دوسرے سیاسی قیدی سے بلا روک ٹوک ملنے کی اجازت شامل تھے۔ بھگت سنگھ اور بی کے دَت کو قید کے دوران صرف دو روزاکٹھے رکھا گیا، جِس کے بعد دَت کا تبادلہ سینٹرل جیل لاہور اور بھگت سنگھ کو میانوالی کی سنسان جیل منتقل کر دیا گیا۔
لاہور کانسپریسی کیس نے حکومت کے وقار کو بُری طرح سے مجروح کیا۔ ہر روز مقدمہ کا آغاز انقلاب زندہ باد، مزدور طبقہ زندہ باد، سامراجی قبضہ ختم کرو، اور اس جیسے جوشیلے نعروں اور قومی گیتوں سے ہوتا تھا، جو سب مل کر گایا کرتے تھے۔ اُنہوں نے اس مقدمہ کو اپنے ابتدائی پلان کے مطابق آزادی کی تحریک کو بڑھاوا دینے کے لیے استعمال کیا۔ اِس عرصہ میں بھگت سنگھ پر تشدد کا سلسلہ بھی جاری رہا اور ناقابلِ برداشت اور ذلت آمیز سلوک بھی۔
لاہور کانسپریسی کیس کی کاروائی دُنیا بھر کے اخبارات و جرائد میں شائع ہونے لگی اور ان سرفروشوں کی تصاویر والے کیلنڈر چھپنے لگے۔ اِس سے دُنیا بھر سے سرفروشوں کے لیے چندہ آنے اور آزادی کے تحریک کو منظم کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
بعد ازاں جب اِس مقدمے کا اثر عوام الناس پر ہونے لگا تو سرکار نے آرڈیننس جاری کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا، جِن میں بدنامِ زمانہ آرڈیننس نمبر 4، 1930ء شامل تھا، جِس کے بعد بھگت سنگھ اور اُس مقدمہ میں شامل دیگر ساتھیوں نے عدالتی کاروائیوں میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر دیا۔ جب سرکار اور عدالت کا روّیہ ناقابلِ برداشت ہو گیا تو تمام سیاسی مقدمات کے ملزموں نے عدالتی کاروائیوں کا بائیکاٹ کر دیا، اور سرکار کو ملزمان کو عدالت لائے بغیر مقدمہ چلانے پر مجبور کر دیا۔ اس پر بھگت سنگھ اور اُن کے ساتھی کہتے تھے سنگین مقدمات کی سماعت ملزمان کی غیر حاضری میں جاری رکھنا انصاف کا قتل ہے۔
بعد ازاں 17 اکتوبر 1930ء کی صبح عدالت سے ایک خاص قاصد مقدمے کا فیصلہ لے کر جیل میں آیا۔ جیسے ہی حکم سنایا گیا، بھگت سنگھ اور اُن کے ساتھیوں کی پھانسی کی خبر شہر میں آگ کی طرح پھیل گئی، جس سے خوف زدہ ہو کر سرکار نے دفعہ 144 نافذ کر دی۔ جلسے جلوس ہونے لگے اور اخبارات مادرِ وطن پر قربان ہونے والوں کی خبروں اور تصاویر سے بھر گئے۔ ملک بھر میں افراتفری پھیل گئی اور لاہور میں طالب علموں نے ہڑتال کی کال دے دی۔
لاہور میں وسیع پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں اور پولیس تشدد بھی، لیکن شہروں کے شہر بھگت سنگھ، سُکھ دیو، راج گُرو اور برطانوی سامراج سے آزادی کے نعروں سے گونجنے لگے۔
لاہور، امرتسر، دہلی، بمبئی، کانپور، الہٰ آباد اور بنارس ان وطن پرستوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے شٹرڈاؤن اور جلسے جلوسوں سے گونجنے لگے۔ ہندؤ، مسلم، سکھ، عیسائی کی تفریق ختم ہو گئی اور ملکی عوام آزادی کے جذبوں سے سرشار ہو گئے۔
اکتوبر 1930ء کے اختتام تک تمام ملک میں لاٹھی چارج، گرفتاریاں کثرت سے ہوئیں، جِس سے ملک میں سخت بے چینی اور جوش پیدا ہو گیا۔ یہی بھگت سنگھ کی خواہش تھی، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ وطن کی آزادی کے لیے اُن کی قربانی رائیگاں نہ جائے اور نوجوانوں میں آزادی کی ایک نئی لہر کو جنم دے۔ بالآخر 23 مارچ، بروز سوموار، صبح 7 بج کر 33 منٹ پر لاہور کی سینٹرل جیل میں برِصغیر کی تحریک آزادی کے حقیقی ہیروز بھگت سنگھ، سُکھ دیو اور راج گُرو کو پھانسی دے دی گئی۔ وقت مقررہ پر جیل کے اندر سے پندرہ منٹ پہلے اور اُس کے بعد تک انقلاب زندہ باد کے نعرے گونجتے رہے۔ اُس سانحہ کے 16 برس بعد ہی برطانوی سامراج کو اپنا بوریا بستر باندھ کر برِصغیر کو آزاد کرنا، اور ملک چھوڑنا پڑا۔
14 اگست 1947ء کو ہمارا پیارا وطن برطانوی سامراج سے آزاد ہو کر ٹکڑوں میں بٹ گیا، لیکن آزادی کے 76 برس بعد بھی عوام آزادی کے ثمرات کو ترس رہی ہے۔ بھگت سنگھ کے طریقہ سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن سیاق و سباق کے مطابق تکمیل آزادی کی جدوجہد آج بھی جاری و ساری ہے۔
آؤ ہم سب مل کر تکمیلِ آزادی کے لیے ایک مضبوط، منظم اور متحدہ جدوجہد کی بنیادیں رکھیں۔ یہی بھگت سنگھ شہید کو بہترین خراج تحسین ہو گا۔
—♦—

پرویز فتح بائیں بازو کے سینئر ساتھی ہیں اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ آپ عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے راہنما ہیں اور برطانیہ میں بائیں بازو کے انتہائی متحرک دوستوں میں سے ہیں۔ آپ اکثر سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں

دُنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم و جبر ہوتا ہے، اور آزادی سے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے، وہاں دھرتی کے بدن سے ایسے جانباز ہیرو نمودار ہوتے ہیں، جو اپنے وطن، اس کی مٹی، اور آنے والی نسلوں کی آزادی کی حفاظت کے لیے پہاڑوں سے بھی ٹکرا جاتے ہیں۔ برِصغیر میں برطانوی سامراج کے نوآبادیاتی تسلط سے آزادی کی تحریک بھی ایسے اَن گنت سانحات سے بھری پڑی ہے۔
آزادی کی جدوجہد کتنی بھی پُر امن کیوں نہ ہو، وہ جابر حکمرانوں کے مظالم کے جواب میں کسی نہ کسی لمحے پر پُرتشدد ہو ہی جاتی ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی، اور بھگت سنگھ اور ساتھیوں کی جدوجہد ناقابلِ فراموش ہیں۔
23 مارچ ہمارے لیجنڈری ہیرو بھگت سنگھ اور اُن کے ساتھیوں کا یومِ شہادت ہے، جنہیں قابض برطانوی سامراج نے 23 مارچ 1931ء کو سینٹرل جیل لاہور میں پھانسی دے کر شہید کر دیا تھا۔
یہ وہی جگہ ہے، جہاں اس وقت لاہور کا شادمان چوک واقع ہے، اور ہمارے جیسے روشن خیال کارکن اُس چوک کا نام تبدل کر کے اپنی دھرتی کے ہیرو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کرنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔
کالونیل دور (نوآبادیاتی عہد) میں قابض سامراجی قوتوں نے ایک طرف محکوم ممالک کے وسائل کو بے دردی سے لُوٹا، تو دوسری طرف اُن ممالک کے عوام میں اُبھرنے والے آزادی کے جذبوں کو دبانے اور اُن پر دھشت طاری کرنے کے لیے اُن پر وحشیانہ ظلم وجبر اور استبداد کی تمام حدیں عبور کر دیں۔ برِصغیر متحدہ ہندوستان پر برطانوی سامراج کے قبضے کی ابتدا 17ویں صدی کے آغاز میں تجارت کے نام پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے ساتھ ہو ئی تھی تو اُس قبضے کو مضبوط اور دیرپا بنانے، اور ملکی وسائل کی لوُٹ کو تیز کرنے کے لیے برِصغیر کے عوام پر ظلم و جبر کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔
ہم صرف 1857ء کی جنگِ آزادی کی حقیقی تاریخ ہی پڑھ لیں تو نوآبادیاتی نظام کے دور میں محکوم اقوام اور عوام کے ساتھ وحشیانہ درندوں جیسا سلوک آشکارہ ہو جاتا ہے۔
نامور تاریخ دان امریش مشرا نے 1857ء کی جنگِ آزادی کے بارے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ ایک ان کہی ہولوکاسٹ تھی، جِس کی وجہ سےبرِصغیر میں 10 سالوں میں تقریباً 10 ملین افراد ہلاک کر دیئے گئے تھے۔
برِصغیر کے کرشماتی اورجفا کش انقلابی بھگت سنگھ ہفتہ 28 ستمبر 1907ء کو چک نمبر 105 بنگے (بھگت سنگھ والا)، تحصیل جڑانوالہ، ضلع لائل پور میں پیدا ہوئے۔ پانچ فٹ دس انچ لمبے اور نہایت مضبوط بناوٹ کے جوشیلے جوان بھگت سنگھ کی آواز بہت سُریلی اور جذبات سے بھری ہوئی تھی۔ اُن کے والد سردار کشن سنگھ سندھو ایک متوسط درجے کے خوشحال دیہاتی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، اور والدہ ودیا وتی ایک گھریلو خاتون تھیں، جو شوہر کا زمینداری میں بھی ہاتھ بٹاتی اور بچوں کی پرورش و گھر کا نظام بھی چلاتی تھیں۔ اُن کےدادا سردار اُرجن سنگھ کا شمار بڑے زمینداروں میں ہوتا تھا، کیونکہ اُن کے بھائی دِل باغ سنگھ اور دوسرے عزیزوں نے برطانوی سرکار کی خدمات اور خیر خواہی کے صلے میں بڑے عہدے اور مراعات حاصل کی تھیں، اور سماج میں کافی باعزت خیال کئے جاتے تھے۔ لیکن بھگت سنگھ کے دادا سردار اُرجن سنگھ نے اپنے وطن کی آزادی اور اپنے ہم وطنوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کا راستہ اپنایا، جِس کی وجہ سے اُنہیں زندگی بھر مشکلات اور افلاس کا سامنا کرنا پڑا۔
سردار اُرجن سنگھ کے تین بیٹے تھے، جن کا نام کشن سنگھ (بھگت سنگھ کے والد)، اجیت سنگھ اور سوارنا سنگھ تھا، اور وہ تینوں اپنی حُب الوطنی کے لیے پنجاب بھر میں مشہور تھے۔ اسی لیے اُن کو زندگی بھر تکالیف، جیل یاترہ، جلاوطنی اور افلاس سے سامنا کرنا پڑا۔
بھگت سنگھ کے والد اجیت سنگھ کی تحریکِ آزادی اور محنت کش تحریک کے نامور راہنما لالہ لاجپت رائے سے گہری دوستی تھی۔
سردار کشن سنگھ ملکی آزادی اور انقلابی تحریکوں، بالخصوص دیہاتی کسانوں کو منظم کرنے میں سرگرم رہتے، اور تحریکِ آزادی کے لیے سرگرم تمام گروپوں کی مالی معاونت بھی کرتے رہتے تھے۔ جب 1907ء میں ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آر بی ٹریری ریگولیشن نمبر 3 آف 1818ء کا اجرا کیا گیا، تو اُس نے انگریز سرکار کے ہاتھ مضبوط کر دیئے۔ اُس قانون کا مقابلہ کسانوں اور مزدوروں کی تحریک منظم کر کے سردار اجیت سنگھ اور لالہ لاجپت رائے نے کیا تھا، جِس کی پاداش میں اُنہیں جیل یاترہ پر بھیج دیا گیا۔
بھگت سنگھ کے چاچا سردار اجیت سنگھ کو برطانوی سامراج کے تسلط سے آزادی کی جنگ میں اہم قوم پرست ہیرو کا مقام حاصل تھا اور وہ غریب کسانوں کے حقوق کے تحریکوں کے بانیوں میں شامل ہوتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مل کر پنجاب کالونائزیشن ایکٹ (ترمیم) 1906ء کے نام سے بنائے جانے والے کسان مخالف قوانین اور پانی پر آبیانے کی شرح میں اضافے کے احکامات کے خلاف پنجابی کسانوں کو منظم کر کے زبردست تحریک چلائی تھی۔ مئی 1907ء میں اُنہیں لالہ لاجیت رائے کے ساتھ جلا وطن کر کے برما کی بدنامِ زمانہ منڈالے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ بعد ازاں زبردست عوامی دباؤ اور ہندوستانی فوج میں بدامنی کے اندیشے کی وجہ سے برطانوی سرکار کو جلاوطنی کا بل واپس لینا پڑا اور اکتوبر 1907ء میں دونوں راہنماؤں کو رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد اُنہوں نے اپنے بھائیوں کشن سنگھ، سورن سنگھ اور صوفی امبا پرشاد کے ساتھ مل کر سیاسی لٹریچر کی اشاعت و تقسیم کو جاری رکھا، جِس کی وجہ سے قابض سرکار انہیں گرفتار کر کے طویل مدت تک جیل میں ڈالنے کی منصوبہ سازی کر رہی تھی۔ اپنے ساتھیوں کے اسرار پر وہ 1909ء میں تحریکِ آزادی کے راہنما صوفی امبا پرشاد کے ساتھ فرار ہو کر ایران چلے گئے، اور آنے والے 38 برس جلا وطنی میں رہنے کے بعد مارچ 1947ء میں ہندوستان واپس آ گئے۔
پندرہ جولائی 1913ء کو غدر پارٹی کا قیام برِصغیر کی تحریکِ آزادی میں ایک اہم انقلابی قدم سمجھا جاتا ہے۔ یہ پارٹی ابتدائی طور پر امریکہ میں آباد تارکینِ وطن ہندوستانیوں نے برِصغیر میں برطانوی نوآبادیاتی راج کا تختہ اُلٹنے اور ملک کو آزاد کروانے کے لیے قائم کی تھی۔ بعد میں یہ تحریک ہندوستان اور دنیا بھر میں ہندوستانی کمیونٹیز تک پھیل گئی۔
غدر پارٹی کے کلیدی راہنماوں میں بھائی پرمانند، وشنو گنیش پنگلے، سوہن سنگھ بھکنا، بھگوان سنگھ گیانی، لالہ ہر دیال، تارک ناتھ داس، بھگت سنگھ تھند، کرتار سنگھ سرابھا، عبدالحفیظ، محمد برکت اللہ بھوپالی (المعروف مولانا برکت اللہ)، سنت بابا وساکھا سنگھ دادیہر، بابا جوالا سنگھ، سنتوکھ سنگھ، راش بہاری بوس، اور گلاب کور شامل تھے۔ سوہن سنگھ بھکنا اس تحریک کے صدر تھے، کیسر سنگھ اور بابا جوالا سنگھ نائب صدر، کرتار سنگھ سرابھا ایڈیٹر، کانشی رام فنانس سیکرٹری، منشی رام سیکرٹری اور لالہ ٹھاکر داس ڈپٹی سیکرٹری تھے۔
غدر پارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد انقلابی سرگرمیوں کے ذریعے ہندوستان کو آزاد کروانا تھا۔ اُنہوں نے کرتار سنگھ سرابھا کی قیادت میں ‘غدر’، یعنی بغاوت کے نام سے اپنا ہفت روزہ اخبار نکالا، اور اُس کی وسیع تر اشاعت کے ذریعے انگریزوں اور اُن کے مراعات یافتہ مقامی کارندوں کے خلاف زبردست آگاہی مہم کا آغاز کر دیا۔ اسی دوران 1914ء میں پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہو گیا تو غدر پارٹی کے راہنماوں نے انگریز سامراج کی کمزوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا۔ پارٹی کے کچھ سرکردہ راہنما ہندوستان کی آزادی کے لیے مسلح انقلاب کو بھڑکانے کے لیے امریکہ سے پنجاب واپس آگئے۔ اُنہوں نے ہندوستان میں اسلحہ سمگل کیا اور ہندوستانی فوجیوں کو انگریزوں کے خلاف بغاوت پر اکسایا۔ غدر کے نام سے مشہور یہ بغاوت ناکام رہی اور لاہور سازش کیس کے مقدمے کے کی بنا پر 42 آزادی پسند انقلابیوں کو پھانسی دے دی گئی۔ پہلی عالمی جنگ کے اختتام کے بعد امریکہ میں پارٹی ایک کمیونسٹ اور ایک ہندوستانی سوشلسٹ دھڑے میں تقسیم ہو گئی۔ بعد ازاں پارٹی کو 1948ء میں باضابطہ طور پر تحلیل کر دیا گیا تھا۔
سردار بھگت سنگھ نے ابتدائی تعلیم اپنے بڑے بھائی جگت سنگھ کے ساتھ اپنے گاؤں موضع بنگے، جڑانوالہ روڈ، ضلع لائیلپور کے سکول میں ہی حاصل کی۔ اُن کا مزاج بچپن سے ہی انقلابی تھا اور پڑھنے لکھنے میں اُن کا دِل کم ہی لگتا تھا۔ اُن کے بڑے بھائی جگت سنگھ کا 11 برس کی عمر میں ہی انتقال ہو گیا، جِس سے بھگت سنگھ کے دِل پر بہت صدمہ گزرا۔ اس سانحہ کے بعد اُن کے والد سردار کشن سنگھ لاہور کے قریب نواں کوٹ چلے گئے، اور کاشتکاری شروع کر دی۔ اُنہوں نے لاہور میں بھگت سنگھ کو ڈی۔اے۔وی سکول میں داخل کروایا، تاکہ اُس کی ذہنی تربیت ایک مذہبی ماحول کی بجائے آزادانہ ماحول میں ہو سکے۔ بھگت سنگھ اس سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیشنل کالج چلے گئے۔ کالج میں بھگت سنگھ کا میل جول سُکھ دیو اور یش پال سے ہو گیا، جِس کی بنیادی وجہ اُن کی ذہنی ہم آہنگی اور آزادی کے لیے ان کے دلوں میں اُبلتا ہوا لاوا تھا۔
اسی زمانے میں ہندوستان کے سیاسی میدان میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں بلا تشدد عدم تعاون کی تحریک ظہور پذیر ہوئی، جو عوام کے دلوں میں سرایت کر گئی۔اس دور میں ہندو مسلم اتحاد کا زبردست منظر نظر آیا، جِس نے حکومتی ایوانوں میں کھلبلی مچا دی۔ 1924ء میں بکھرے ہوئے باغی یکجا ہوئے اور بنگال میں خفیہ غیر قانونی جماعتیں پھر سے نمودار ہونے لگیں، لیکن 1925ء کے بنگال آرڈیننس سے ان کو ایک بھاری ضرب پُہنچی۔ اس دوران مختلف علاقائی انقلابی پارٹیوں نے مل کر ایک پارٹی کی صورت اختیار کر لی اور اُس کا نام ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن رکھا۔ یہ وہی جماعت ہے جس میں بھگت سنگھ نے کانپور میں شمولیت اختیار کی تھی۔
بعد ازاں 1926ء میں لکھنؤ کے قریب مشہور زمانہ کاکوری ٹرین کا واقعہ ہوا، جِس میں ہندوستان ریپبلکن آرمی کے ممبران نے سرکاری خزانہ لے کر جانے والی ٹرین کو روک کر لوٹ لیا تھا، تاکہ آزادی کی مسلح جدوجہد کے لیے وسائل فراہم کر سکیں۔ اس واقع کے بعد بھگت سنگھ لاہور چلے گئے اور واپس آ کر لالہ لاجپت رائے جی کے قائم کئے ہوئے نیشنل کالج میں سیاسیات اور اقتصادیات کے مطالعہ میں لگ گئے۔ یہاں اُنہوں نے اور دوستوں کو ساتھ مل کر روسی انقلابیوں کی طرز پر ایک سٹڈی سرکل شروع کر دیا۔ نیشنل کالج کی لائبریری میں سردار بھگت سنگھ کی راہنمائی سے ایک حیرت انگیز کتابوں کا ذخیرہ جمع ہو گیا تھا، جو کسی دوسرے کتاب خانہ میں نہیں پایا جاتا تھا۔ اٹلی، روس اور آئرلینڈ کے انقلابی زمانے کے مفصل و تازہ ترین تصانیف اور روس کی انقلابی تحریک کی ابتدائی تاریخ پر نایاب کتابیں جمع کی گئی تھیں۔ سیاسیات کے ایک گہرے اور پُر جوش طالب علم ہونے کے باوجود بھگت سنگھ صرف کتابوں ہی کے مطالعہ میں غرق نہیں رہتے تھے بلکہ اکثر مختلف ضروری مقالات پر بھی جایا کرتے تھے، اور انقلابی جماعتوں کے خفیہ جلسوں میں بھی شرکت کرتے تھے۔ یوپی و بنگال کی خفیہ جماعتوں کے ارکین و راہنماؤں سے اُن کا ذاتی تعلق تھا۔
کاکوری کانسپریسی کیس کے ٹرائل کے دوران بھگت سنگھ کئی بار لکھنؤ آئے اور اُس مقدمہ میں گرفتار راہنماؤں سے ڈسٹرکٹ جیل میں گفت و شنید کا خفیہ سلسلہ قائم کیا۔ اِس مقدمے کے بعد وسیع پیمانے پر گرفتاریوں کی وجہ سے ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن کا شیرازہ بکھر گیا، لیکن یہاں اپنے قیام کے دوران بھگت سنگھ نے اپنی اعلیٰ انتظامی تدابیر کا ثبوت دیتے ہوئے ازسرِ نو کانپور کے نامور انقلابی وجے کمار سنہا اور لاہور کے سُکھ دیو کی مدد سے یوپی اور پنجاب کے باقی ماندہ اراکین کو منظم کرنا شروع کر دیا۔ یونہی کاکوری کانسپریسی کیس کا فیصلہ آیا تو بھگت سنگھ کے 4 نوجوان ساتھیوں کو پھانسی اور بہت سے دیگر ساتھیوں کو لمبی سزائیں سنا دی گئیں۔
اپنے وسیع تر مطالعہ سے سماج میں پائی جانے والی اُونچ نیچ، اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے پیشِِ نظر بھگت سنگھ اِس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستان کی نجات صرف سیاسی آزادی سے ممکن نہیں، بلکہ اصل مسئلہ عوام کی زندگیاں بدلنے کا ہے۔ اور اُن کو روٹی، کپڑا، مکان، صحت، بچوں کی تعلیم اور روز گار فراہم کرنے کا ہے۔
اِس لیے بھگت سنگھ نے اِس پارٹی کی تنظیم سازی مارکسی اُصولوں اور سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر شروع کر دی۔ وہ اُسے کسانوں اور مزدوروں کی ایک مضبوط جماعت بنانے میں جُت گئے اور یہی کمٹمنٹ اُن کے مزاج میں ایک بڑی تبدیلی اور سنجیدہ مزاجی کا باعث بنی۔ اُنہوں نے جگہ جگہ سوشلسٹ نظام، سوویت یونین، چین اور دیگر ممالک کی انقلابی تحریکوں کی تاریخ پر سٹڈی سرکلز کا آغاز کر دیا۔
تعلیم و تدریس کے کام نے بھگت سنگھ کی بہت راہنمائی کی اور اُنہوں نے لاہور، دہلی، کانپور، بنارس، الہٰ آباد اور لاہور تک محدود اور بکھری ہوئے جماعت کو ایک منظم ملک گیر تحریک میں بدل دیا۔ اُنہوں نے آزادی پسند انقلابی گروپوں سے رابطے کئے، اُن سے بات چیت کی اور ایک متحدہ تحریک کے قیام کی بنادیں رکھ دیں۔ اُنہوں نے اپنے انقلابی ساتھیوں کی پھانسیوں اور سزاؤں کے انتقام کا پروگرام پسِ پشت ڈال کر ایسے انقلابی پروگرام پر تحریک کی مضبوط بنیادیں رکھنے کو ترجیح دی۔
بھگت سنگھ کی تجویز پر ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن کا نام بدل کر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن رکھا دیا گیا۔
اُدھر سات رُکنی پارلیمانی کمیشن، جسے سائمن کمیشن کہتے ہیں، سامراجی آئینی اصلاحات کے لیے مختلف مقامات پر جانے کے بعد 30 اکتوبر 1928ء کو لاہور پہنچنے والا تھا تو اُس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ایک بڑا جلوس نکالنے کا انتظام ہوا۔ حکومت نے دفعہ 144 نافذ کر کے پولیس کو مظاہرین کو روکنے کا حکم دے دیا۔ اس کے جواب میں جگہ جگہ پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور بہت سے کانگریسی کارکن بھی پولیس کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوئے، جن میں لالہ لاجیت رائے بھی شامل تھے۔ اِس واقعہ کے چند روز بعد لالہ لاجیت رائے، 17 نومبر 1928ء کو انتقال کر گئے تو یہ بات مشہور ہو گئی کہ لالہ جی کی موت کی ذمہ دار پولیس ہے، جِس نے اس بزرگ ہستی کو بُری طرح پیٹا تھا۔ اِس تشدد اور موت کا ذمہ دار سپرنٹنڈنٹ پولیس لاہور مسٹر اسکاٹ اور جونیئر سپرنٹنڈنٹ مسٹر سانڈرس کو ٹھہرایا گیا۔
بعد ازاں 17 دسمبر 1928ء کو مسٹر سانڈرس چوکی کے سامنے مار ڈالے گئے، اور سپاہی چانن سنگھ قاتل کا پیچھا کرتے کرتے اپنی جان گنوا بیٹھا۔ اگلے روز شہر کے مختلف مقامات پر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن آرمی کے نام سے اشتہار لگا دیئے گئے کہ سانڈرس کا کام تمام ہوا، اور لالہ جی کی موت کا بدلہ لیا گیا۔ پولیس بھگت سنگھ کی تلاش نہایت سرگرمی سے کرنے لگی، لیکن بھگت سنگھ بھیس بدل کر بھرپُور سرگرمیاں کرتے رہے۔
ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن کے دو کارکنوں نے 8 اپریل 1929ءکو دہلی میں اسمبلی کے اجلاس میں بغیر روک ٹوک داخل ہو کر دو بم پھینکے، جِس سے اسمبلی اجلاس میں چاروں طرف دُھواں ہی دُھواں نظر آنے لگا۔ اسمبلی کے ممبران میں ایک ہلچل مچ گئی، البتہ کوئی جانی نقصان نہ ہوا، کیونکہ بم صرف ممبران کو خوف زدہ کرنے والے ہی تھے۔ اس روز بمبئی میں مزدوروں کی ہڑتال تھی اور سرکار سمجھتی تھی کہ مزدوروں کی تحریکیں آزادی کی تحریک کو مضبوط کرتی ہیں، اِس لیے سرکار کا منصوبہ ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں کوروکنا، اور اسمبلی میں بِل پیش کر کے ٹریڈ یونین تحریک پر پابندی لگانا تھا۔
بھگت سنگھ اور بی کے دَت انگریزی لباس پہنے، پاس لے کر گذشتہ چار روز سے اسمبلی میں آ رہے تھے، اور کسی کو خبر تک نہ تھی۔ اُن کی ایک جیب میں پستول اور دوسری میں بم ہوتا تھا۔ ان دھماکوں کے بعد بھگت سنگھ اور بی کے دَت نے بھاگنے کی بجائے طے شدہ منصوبے کے تحت گرفتاری دی، اور سامراج مردہ باد، انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے اور پمفلٹ بکھیرتے فخریہ انداز میں گرفتاری دے رہے تھے۔
مقدمے کی سماعت کے دوران بھگت سنگھ اور بی کے دَت کا بیان ہندوستان ہی نہیں بلکہ دُنیا بھر میں شائع ہوا اور اُس نے آزادی کی جدوجہد کو ایک نیا ولولہ دے دیا۔
جیل میں اُنہوں نے قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک، ان کو دی جانے والی تکالیف کے خلاف اور مناسب سہولیات کی فراہمی کے لیے بھوک ہڑتال کر دی۔اُن کی مانگ تھی کہ ہر اُس قیدی کا شمار سیاسی قیدیوں میں ہو جِس کی گرفتاری کی بنیاد ذاتی فائدے کی بجائے عوام الناس کو فائدہ پہنچانے کی پاداش میں ہوئی ہو، اور اُن سیاسی قیدیوں کو جیل میں جو سہولتیں فراہم کی جائیں اُن میں پڑھنے کے لیے کتابیں اور اخبارات، بہتر خوراک، اور ایک سیاسی قیدی کو دوسرے سیاسی قیدی سے بلا روک ٹوک ملنے کی اجازت شامل تھے۔ بھگت سنگھ اور بی کے دَت کو قید کے دوران صرف دو روزاکٹھے رکھا گیا، جِس کے بعد دَت کا تبادلہ سینٹرل جیل لاہور اور بھگت سنگھ کو میانوالی کی سنسان جیل منتقل کر دیا گیا۔
لاہور کانسپریسی کیس نے حکومت کے وقار کو بُری طرح سے مجروح کیا۔ ہر روز مقدمہ کا آغاز انقلاب زندہ باد، مزدور طبقہ زندہ باد، سامراجی قبضہ ختم کرو، اور اس جیسے جوشیلے نعروں اور قومی گیتوں سے ہوتا تھا، جو سب مل کر گایا کرتے تھے۔ اُنہوں نے اس مقدمہ کو اپنے ابتدائی پلان کے مطابق آزادی کی تحریک کو بڑھاوا دینے کے لیے استعمال کیا۔ اِس عرصہ میں بھگت سنگھ پر تشدد کا سلسلہ بھی جاری رہا اور ناقابلِ برداشت اور ذلت آمیز سلوک بھی۔
لاہور کانسپریسی کیس کی کاروائی دُنیا بھر کے اخبارات و جرائد میں شائع ہونے لگی اور ان سرفروشوں کی تصاویر والے کیلنڈر چھپنے لگے۔ اِس سے دُنیا بھر سے سرفروشوں کے لیے چندہ آنے اور آزادی کے تحریک کو منظم کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
بعد ازاں جب اِس مقدمے کا اثر عوام الناس پر ہونے لگا تو سرکار نے آرڈیننس جاری کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا، جِن میں بدنامِ زمانہ آرڈیننس نمبر 4، 1930ء شامل تھا، جِس کے بعد بھگت سنگھ اور اُس مقدمہ میں شامل دیگر ساتھیوں نے عدالتی کاروائیوں میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر دیا۔ جب سرکار اور عدالت کا روّیہ ناقابلِ برداشت ہو گیا تو تمام سیاسی مقدمات کے ملزموں نے عدالتی کاروائیوں کا بائیکاٹ کر دیا، اور سرکار کو ملزمان کو عدالت لائے بغیر مقدمہ چلانے پر مجبور کر دیا۔ اس پر بھگت سنگھ اور اُن کے ساتھی کہتے تھے سنگین مقدمات کی سماعت ملزمان کی غیر حاضری میں جاری رکھنا انصاف کا قتل ہے۔
بعد ازاں 17 اکتوبر 1930ء کی صبح عدالت سے ایک خاص قاصد مقدمے کا فیصلہ لے کر جیل میں آیا۔ جیسے ہی حکم سنایا گیا، بھگت سنگھ اور اُن کے ساتھیوں کی پھانسی کی خبر شہر میں آگ کی طرح پھیل گئی، جس سے خوف زدہ ہو کر سرکار نے دفعہ 144 نافذ کر دی۔ جلسے جلوس ہونے لگے اور اخبارات مادرِ وطن پر قربان ہونے والوں کی خبروں اور تصاویر سے بھر گئے۔ ملک بھر میں افراتفری پھیل گئی اور لاہور میں طالب علموں نے ہڑتال کی کال دے دی۔
لاہور میں وسیع پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں اور پولیس تشدد بھی، لیکن شہروں کے شہر بھگت سنگھ، سُکھ دیو، راج گُرو اور برطانوی سامراج سے آزادی کے نعروں سے گونجنے لگے۔
لاہور، امرتسر، دہلی، بمبئی، کانپور، الہٰ آباد اور بنارس ان وطن پرستوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے شٹرڈاؤن اور جلسے جلوسوں سے گونجنے لگے۔ ہندؤ، مسلم، سکھ، عیسائی کی تفریق ختم ہو گئی اور ملکی عوام آزادی کے جذبوں سے سرشار ہو گئے۔
اکتوبر 1930ء کے اختتام تک تمام ملک میں لاٹھی چارج، گرفتاریاں کثرت سے ہوئیں، جِس سے ملک میں سخت بے چینی اور جوش پیدا ہو گیا۔ یہی بھگت سنگھ کی خواہش تھی، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ وطن کی آزادی کے لیے اُن کی قربانی رائیگاں نہ جائے اور نوجوانوں میں آزادی کی ایک نئی لہر کو جنم دے۔ بالآخر 23 مارچ، بروز سوموار، صبح 7 بج کر 33 منٹ پر لاہور کی سینٹرل جیل میں برِصغیر کی تحریک آزادی کے حقیقی ہیروز بھگت سنگھ، سُکھ دیو اور راج گُرو کو پھانسی دے دی گئی۔ وقت مقررہ پر جیل کے اندر سے پندرہ منٹ پہلے اور اُس کے بعد تک انقلاب زندہ باد کے نعرے گونجتے رہے۔ اُس سانحہ کے 16 برس بعد ہی برطانوی سامراج کو اپنا بوریا بستر باندھ کر برِصغیر کو آزاد کرنا، اور ملک چھوڑنا پڑا۔
14 اگست 1947ء کو ہمارا پیارا وطن برطانوی سامراج سے آزاد ہو کر ٹکڑوں میں بٹ گیا، لیکن آزادی کے 76 برس بعد بھی عوام آزادی کے ثمرات کو ترس رہی ہے۔ بھگت سنگھ کے طریقہ سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن سیاق و سباق کے مطابق تکمیل آزادی کی جدوجہد آج بھی جاری و ساری ہے۔
آؤ ہم سب مل کر تکمیلِ آزادی کے لیے ایک مضبوط، منظم اور متحدہ جدوجہد کی بنیادیں رکھیں۔ یہی بھگت سنگھ شہید کو بہترین خراج تحسین ہو گا۔
—♦—

پرویز فتح بائیں بازو کے سینئر ساتھی ہیں اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ آپ عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے راہنما ہیں اور برطانیہ میں بائیں بازو کے انتہائی متحرک دوستوں میں سے ہیں۔ آپ اکثر سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔