کراچی ( للکار نیوز ڈیسک ) مزاحمتی تحریکوں کی قیادت کرتی عورت ہی سماج کو سرمایہ اور جبر کی قوتوں سے نجات دلائے گی۔ عورتوں کی مزاحمت سماج میں جمہوری آزادیوں ، معاشی خودمختاری اور سماجی تحفظ کویقینی بنائے گے۔ ان خیالات کا اظہار عورتوں کے عالمی دن کے موقعہ پر ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن پاکستان کے زیراہتمام نکالی گئی ” محنت کش عورت ریلی“ میں شریک مزاحمتی تحریکوں کی عورت راہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تفصیلات کے مطابق ریلی میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ہزاروں عورتوں ، سیاسی و سماجی کارکنوں اور ٹرانس جینڈر نے سرخ جھنڈوں ، مطالبات پر مبنی بینرز اور پوسٹرز اٹھائے شرکت کی ۔
ریلی کی قیادت ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن پاکستان کی جنرل سیکرٹری کامریڈ زہرا خان کر رہی تھیں ۔ ریلی کا آغاز کراچی پریس کلب چوک (فوارہ چوک ) سے ہوا اور اختتام پر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں اجتماع منعقد ہوا جس میں عورت راہنماؤں نے اپنے منشور مطالبات کا اعلان کیا۔ اس موقع پر ”ناچ ناٹک منڈلی“ نے عورتوں کی جدوجہد پر منبی انقلابی گیت ، ٹیبلوز اور ثقافتی رقص پیش کئے۔
اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عورت راہنماؤں نے کہا کہ؛
فرسودہ جاگیردارانہ نظام کی دقیانوسی سوچ سماج پر مسلط کر دی ہے جس کا بدترین شکار عوررت ہے۔ بازار ہو یا کام کی جگہ یا کہ اسمبلی کا فلور ۔۔۔عورت کہیں بھی محفوظ نہیں!
غیر جمہوری ، جبر کی قوتوں کے ہاتھوں شہریوں کی آزادیاں سلب کی جا رہی ہیں ، جبر کی خلاف آواز اٹھانے والوں کو جبری لاپتہ اور بہیمانہ انداز میں قتل کیا جارہا ہے۔ پیاروں کی لاشیں اٹھاتی اور جبری لاپتہ کیے اپنوں کا دکھ سب سے زیادہ عورت ہی اٹھا رہی ہے۔ حکم رانوں کی معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں غربت و افلاس میں بے تحاشا اضافہ نے سب سے زیادہ عورتوں ہی کو متاثر کیا ہے۔
فیکٹریوں کارخانوں میں عورتیں نہ صرف مساوی کام کے لیے مساوی اجرت سے محروم ہیں بل کہ ہراسگی اور جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنتی ہے۔
پیداواری عمل میں محنت کش عورتیں اجرتی غلام بن کر رہ گئی ہیں۔ سماج میں بڑھتے ہوئے غیر جمہوری غیر انسانی رویوں ، ریاستی جبر ، معاشی استحصال کے خلاف سب سے توانا آواز عورت ہی کی ہے۔ عورتوں ہی نے لاقانونیت کو للکارا ہے ، عورتوں نے معاشی جبر کے خلاف آواز بلند کی ہے۔
موجودہ تاریک دور میں ماہ رنگ بلوچ ، سسی لوہار ، سمی بلوچ ، سورٹھ لوہار ، فاطمہ مجید ، زہرا خان ، سعیدہ خاتون، سیما بلوچ ، مہناز رحمان ، آمنہ بلوچ، سبھاگی بھیل ، حلیمہ لغاری اور حانی بلوچ جیسی ھزاروں عورتیں مزاحمتی تحریکوں کی قیادت کرتے نئی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔
ان رہنماؤں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ جبری گم شدگیوں کا مسئلہ ہو یا کہ شہریوں کا قتل کا گھناؤنا عمل عورت ہی مجرموں کو للکار رہی ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز ، ہوم بیسڈ ورکرز ، سندھ کی ہاری عورتیں، اوکاڑہ کی کسان عورتیں ، سانحہ بلدیہ کے متاثرین کے لیے انصاف کی تحریک کی قیادت کرتی عورت ، ٹیکسٹائل گارمنٹس کی صنعت میں بین الاقوامی فیشن برانڈز کی سلطنت کو چیلنج کرتی مزدور عورتیں سماج میں انقلابی تبدیلیوں کی نقیب بنی مظلوموں کا حوصلہ بن رہی ہیں۔
عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ جبر اور ظلم کے خلاف جاری مختلف مزاحمتی تحریکیں مشترکہ جدوجہد کریں گی ۔ اس موقع پر مطالبہ کیا گیا کہ؛
* مزدوروں کو لیونگ ویج ادا کیا جائے اور جنس کی بنیاد پر اجرتوں میں تفاوت کا خاتمہ کیا جائے۔
* سماج میں صنفی ، معاشی تشدد اور عورتوں اور ٹرانس جینڈزکے خلاف تمام امتیازی قوانین ختم کیے جائے ۔
* تمام مزدوروں کی سوشل سیکورٹی اور پینشن کے اداروں سے رجسٹریشن جلد از جلد شروع کی جائے۔
* کارگاہوں میں عورتوں سےروا رکھا جانے والا غیر انسانی سلوک ختم کیا جائے۔ اور کام کی جگہوں پر اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں بنائی جائے۔
* جنسی ہراسگی اور تشدد کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائے۔
* زچگی کے دوران خواتین محنت کشوں کو قانون کے مطابق معاوضے کے ساتھ چھٹیاں دی جائے۔
* ٹھیکہ داری نظام کا خاتمہ کیا جائے۔
* شہریوں کی جبری گمشدگیوں اور بہیمانہ قتل کے سلسلے کوختم کیا جائےاور جبری طور پر گمشدہ شہریوں بشمول سیاسی، سماجی اور صحافی کارکنوں کی بازیابی اور اس جرم میں ملوث عناصر کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔
* لیڈی ہیلتھ ورکرز کے تمام مطالبات تسلیم کئے جائیں۔
* زرعی اصلاحات کا یقینی بنایا جانا ، زرعی اراضی کی بے زمین ہاریوں اور کسان خاندان میں مفت تقسیم کی جائے ۔
* آئی ایم ایف کی عوام دشمن پالیسیوں کو ترک کی جائے۔ غیر پیداواری اخراجات میں کمی کی جائے۔
خطاب کرنے والوں میں
سورٹھ لوہار (سندھ وائس فار مسنگ پرنس ) ، سمی بلوچ ( وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ) ، کامی سیڈ (ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ) ۔ سبھاگی بھیل (سندھ ایگری کلچر جنرل ورکرز یونین) ۔، نزہت شرین،حمیدہ گھانگھرو (عوامی حقوق) ، سائرہ فیروز (ہوم بیسڈ وومن ورکرز گارمنٹ یونین) ۔ آمنہ بلوچ (بلوچ یکجہتی کونسل ) ، حسنہ خاتون (متاثرین سانحہ بلدیہ ایسوسی ایشن) ۔ شمع ( آل سندھ لیڈی ہیلتھ ورکرز اینڈ ایمپائز یونین) ، ساراخان (نیشنل ٹریڈ یونین ف فیڈریشن پاکستان) ، حانی بلوچ ( زدمان ) ،جمیلہ عبد الطیف، (ہوم بیسڈ بینگل ورکرز یونین ، (حیدرآباد )۔ سحرش محمود (ناچ ناٹک منڈلی )، سوہنی سارنگ ( وائس آف میسنگ پرنس )، اور قاضی خضر (ایچ آر سی پی)، ناصر منصور ( نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن) ، کرامت علی ( نیشنل لیبر کونسل)، ۔ خالق زدرگان(عوامی حقوق )، ڈاکٹر اصغر علی دشتی اور دیگر تنظیموں کے راہنما شامل تھے۔
—♦—
جواب دیں جواب منسوخ کریں
کراچی ( للکار نیوز ڈیسک ) مزاحمتی تحریکوں کی قیادت کرتی عورت ہی سماج کو سرمایہ اور جبر کی قوتوں سے نجات دلائے گی۔ عورتوں کی مزاحمت سماج میں جمہوری آزادیوں ، معاشی خودمختاری اور سماجی تحفظ کویقینی بنائے گے۔ ان خیالات کا اظہار عورتوں کے عالمی دن کے موقعہ پر ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن پاکستان کے زیراہتمام نکالی گئی ” محنت کش عورت ریلی“ میں شریک مزاحمتی تحریکوں کی عورت راہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تفصیلات کے مطابق ریلی میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ہزاروں عورتوں ، سیاسی و سماجی کارکنوں اور ٹرانس جینڈر نے سرخ جھنڈوں ، مطالبات پر مبنی بینرز اور پوسٹرز اٹھائے شرکت کی ۔
ریلی کی قیادت ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن پاکستان کی جنرل سیکرٹری کامریڈ زہرا خان کر رہی تھیں ۔ ریلی کا آغاز کراچی پریس کلب چوک (فوارہ چوک ) سے ہوا اور اختتام پر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں اجتماع منعقد ہوا جس میں عورت راہنماؤں نے اپنے منشور مطالبات کا اعلان کیا۔ اس موقع پر ”ناچ ناٹک منڈلی“ نے عورتوں کی جدوجہد پر منبی انقلابی گیت ، ٹیبلوز اور ثقافتی رقص پیش کئے۔
اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عورت راہنماؤں نے کہا کہ؛
فرسودہ جاگیردارانہ نظام کی دقیانوسی سوچ سماج پر مسلط کر دی ہے جس کا بدترین شکار عوررت ہے۔ بازار ہو یا کام کی جگہ یا کہ اسمبلی کا فلور ۔۔۔عورت کہیں بھی محفوظ نہیں!
غیر جمہوری ، جبر کی قوتوں کے ہاتھوں شہریوں کی آزادیاں سلب کی جا رہی ہیں ، جبر کی خلاف آواز اٹھانے والوں کو جبری لاپتہ اور بہیمانہ انداز میں قتل کیا جارہا ہے۔ پیاروں کی لاشیں اٹھاتی اور جبری لاپتہ کیے اپنوں کا دکھ سب سے زیادہ عورت ہی اٹھا رہی ہے۔ حکم رانوں کی معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں غربت و افلاس میں بے تحاشا اضافہ نے سب سے زیادہ عورتوں ہی کو متاثر کیا ہے۔
فیکٹریوں کارخانوں میں عورتیں نہ صرف مساوی کام کے لیے مساوی اجرت سے محروم ہیں بل کہ ہراسگی اور جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنتی ہے۔
پیداواری عمل میں محنت کش عورتیں اجرتی غلام بن کر رہ گئی ہیں۔ سماج میں بڑھتے ہوئے غیر جمہوری غیر انسانی رویوں ، ریاستی جبر ، معاشی استحصال کے خلاف سب سے توانا آواز عورت ہی کی ہے۔ عورتوں ہی نے لاقانونیت کو للکارا ہے ، عورتوں نے معاشی جبر کے خلاف آواز بلند کی ہے۔
موجودہ تاریک دور میں ماہ رنگ بلوچ ، سسی لوہار ، سمی بلوچ ، سورٹھ لوہار ، فاطمہ مجید ، زہرا خان ، سعیدہ خاتون، سیما بلوچ ، مہناز رحمان ، آمنہ بلوچ، سبھاگی بھیل ، حلیمہ لغاری اور حانی بلوچ جیسی ھزاروں عورتیں مزاحمتی تحریکوں کی قیادت کرتے نئی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔
ان رہنماؤں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ جبری گم شدگیوں کا مسئلہ ہو یا کہ شہریوں کا قتل کا گھناؤنا عمل عورت ہی مجرموں کو للکار رہی ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز ، ہوم بیسڈ ورکرز ، سندھ کی ہاری عورتیں، اوکاڑہ کی کسان عورتیں ، سانحہ بلدیہ کے متاثرین کے لیے انصاف کی تحریک کی قیادت کرتی عورت ، ٹیکسٹائل گارمنٹس کی صنعت میں بین الاقوامی فیشن برانڈز کی سلطنت کو چیلنج کرتی مزدور عورتیں سماج میں انقلابی تبدیلیوں کی نقیب بنی مظلوموں کا حوصلہ بن رہی ہیں۔
عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ جبر اور ظلم کے خلاف جاری مختلف مزاحمتی تحریکیں مشترکہ جدوجہد کریں گی ۔ اس موقع پر مطالبہ کیا گیا کہ؛
* مزدوروں کو لیونگ ویج ادا کیا جائے اور جنس کی بنیاد پر اجرتوں میں تفاوت کا خاتمہ کیا جائے۔
* سماج میں صنفی ، معاشی تشدد اور عورتوں اور ٹرانس جینڈزکے خلاف تمام امتیازی قوانین ختم کیے جائے ۔
* تمام مزدوروں کی سوشل سیکورٹی اور پینشن کے اداروں سے رجسٹریشن جلد از جلد شروع کی جائے۔
* کارگاہوں میں عورتوں سےروا رکھا جانے والا غیر انسانی سلوک ختم کیا جائے۔ اور کام کی جگہوں پر اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں بنائی جائے۔
* جنسی ہراسگی اور تشدد کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائے۔
* زچگی کے دوران خواتین محنت کشوں کو قانون کے مطابق معاوضے کے ساتھ چھٹیاں دی جائے۔
* ٹھیکہ داری نظام کا خاتمہ کیا جائے۔
* شہریوں کی جبری گمشدگیوں اور بہیمانہ قتل کے سلسلے کوختم کیا جائےاور جبری طور پر گمشدہ شہریوں بشمول سیاسی، سماجی اور صحافی کارکنوں کی بازیابی اور اس جرم میں ملوث عناصر کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔
* لیڈی ہیلتھ ورکرز کے تمام مطالبات تسلیم کئے جائیں۔
* زرعی اصلاحات کا یقینی بنایا جانا ، زرعی اراضی کی بے زمین ہاریوں اور کسان خاندان میں مفت تقسیم کی جائے ۔
* آئی ایم ایف کی عوام دشمن پالیسیوں کو ترک کی جائے۔ غیر پیداواری اخراجات میں کمی کی جائے۔
خطاب کرنے والوں میں
سورٹھ لوہار (سندھ وائس فار مسنگ پرنس ) ، سمی بلوچ ( وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ) ، کامی سیڈ (ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ) ۔ سبھاگی بھیل (سندھ ایگری کلچر جنرل ورکرز یونین) ۔، نزہت شرین،حمیدہ گھانگھرو (عوامی حقوق) ، سائرہ فیروز (ہوم بیسڈ وومن ورکرز گارمنٹ یونین) ۔ آمنہ بلوچ (بلوچ یکجہتی کونسل ) ، حسنہ خاتون (متاثرین سانحہ بلدیہ ایسوسی ایشن) ۔ شمع ( آل سندھ لیڈی ہیلتھ ورکرز اینڈ ایمپائز یونین) ، ساراخان (نیشنل ٹریڈ یونین ف فیڈریشن پاکستان) ، حانی بلوچ ( زدمان ) ،جمیلہ عبد الطیف، (ہوم بیسڈ بینگل ورکرز یونین ، (حیدرآباد )۔ سحرش محمود (ناچ ناٹک منڈلی )، سوہنی سارنگ ( وائس آف میسنگ پرنس )، اور قاضی خضر (ایچ آر سی پی)، ناصر منصور ( نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن) ، کرامت علی ( نیشنل لیبر کونسل)، ۔ خالق زدرگان(عوامی حقوق )، ڈاکٹر اصغر علی دشتی اور دیگر تنظیموں کے راہنما شامل تھے۔
—♦—