• Latest

مادری زبان کا عالمی دن اور ہمارے روّیے! – تحریر: پرویز فتح

فروری 23, 2024

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
بدھ, جولائی 9, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home مضامین

مادری زبان کا عالمی دن اور ہمارے روّیے! – تحریر: پرویز فتح

سامراجی ممالک جِس بھی ملک میں جاتے ہیں، سب سے پہلے اُس ملک کی مقامی زبانوں اور ثقافت کو تباہ کرتے ہیں، تاکہ وہاں کے عوام کو ذہنی طور پر غلام بنا سکیں اور اُن کی سوچوں کو اپنی ضرورتوں کے مطابق ڈھال سکیں۔

للکار نیوز by للکار نیوز
فروری 23, 2024
in بین الاقوامی, پاکستان, سیاسی معیشت, مضامین
A A
0

ہر سال 21 فروری کو دُنیا بھر میں مادری زبان کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کثیر لسانی اور کثیر الثقافتی معاشرے اپنی زبانوں کے ذریعے وجود میں آتے ہیں، جو روایتی علم اور ثقافتوں کو پائیدار طریقے سے منتقل اور محفوظ کرتے ہیں۔ مادری زبان کا عالمی دن بھی ہر سال لسانی اور ثقافتی تنوع اور کثیر لسانی کو فروغ دینے کے لیے منایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر منائے جانے والے دن، ہفتے، یا سال بنیادی طور پر عوام کو تشویش ناک مسائل سے آگاہ کرنے، ابھرتے ہوئے عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیاسی ارادے اور وسائل کو متحرک کرنے، انسانیت کی کامیابیوں کو منانے اور تقویت دینے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ بین الاقوامی دنوں کا وجود اقوام متحدہ کے قیام سے پہلے سے چلا آ رہا ہے، لیکن اقوام متحدہ نے انہیں ایک طاقتور وکالت کے آلے کے طور پر قبول کیا ہے۔ 

 کسی بھی معاشرے کی سماجی ترقی کے لیے زبان اور ثقافت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ زبان رابطے اور اظہار کا اہم ذریعہ ہے اور حقائق اور مشاہدات کی عکاسی اور اظہار کرتی ہے، بلکہ یہ انسانی روّیوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اِس طرح یہ معاشرتی ترقی کی بنیادی شرائط کا اہم جزو ہے۔

زبان چونکہ ثقافت کا اظہار کرتی ہے، اُسے تقویت دیتی ہے، ثقافت کے اندر رہنے والے انسانوں کی ذاتی شناخت کو متاثر کرتی ہے، اور رویوں کی حدود پیدا کرتی ہے، اِس لیے زبان کو قوموں کی ثقافتی اقدار کو محفوظ کرنے کے لیے اہم مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی ترقی کے راستے پر گامزن ممالک اور اقوام اپنے وطن کی قومی اور علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کی ترویج و ترقی کے تسلسل کو برقرار رکھتی ہیں، اور وہاں برسرِ اقتدار اور اقتدار سے باہر سیاسی و سماجی قوتیں اسے برابر اہمیت دیتی ہیں۔

 مجموعی طور پر دُنیا میں مقامی زبانوں کو اپنے اپنے علاقوں کی مادری زبان کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اِس لیے مادری زبان، یا ماں بولی، جِسے انگریزی میں مدر لینگویج کہتے ہیں، وہ زبان ہوتی ہے جو بچے کو پیدائش کے بعد سننے کو ملتی ہے، اور ہمارے احساسات اور خیالات کو ایک خاص شکل دینے میں مدد دیتی ہے۔

یہ کسی بھی انسان کے آباؤ اجداد اور اُس کی دھرتی کی زبان ہوتی ہے۔ مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا اِس لیے بھی اہم ہے کہ یہ تنقیدی سوچ میں مہارت حاصل کرنے، دیگر زبانوں کو سیکھنے، شرح خواندگی کو بڑھانے اور اس کے معیار کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دُنیا بھر کے تعلیمی ماہرین اِس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کو بنیادی تعلیم اُن کی مادری زبان میں دی جائے تو بہترین نتائج نکلتے ہیں۔ اس سے بچوں کی ذہنی نشوونما مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے اور وہ بہتر طریقے سے علم حاصل کر پاتے ہیں۔ اِس کے برعکس، قومی زبان کسی ملک کی اکائیوں کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرنے اور وہاں کے عوام کے درمیان کمیونیکیشن کو بہتر بنانے کا کردار ادا کرتی ہے۔ اِسی لیے کسی بھی ملک میں بولی جانے والی مقامی زبانوں میں سے سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان کو ہی قومی زبان کا درجہ دیا جاتا ہے۔ جبکہ ملک کی تمام زبانوں کو ترقی دینے اور بنیادی تعلیم کا ذریعہ بنانے کے برابر مواقع مہیا کئے جاتے ہیں۔

بہت سے ملکوں میں ایک سے زیادہ قومی زبانیں ہوتی ہیں، مثلاً سوئٹزرلینڈ میں تین قومی زبانیں اور روس میں چار قومی زبانیں ہیں۔ اِس لیے یہ تصور سراسر غلط ہے کہ پاکستانیت اور ملکی سطح پر ہم آہنگی کو پروان چڑھانے کے لیے ایک ایسی زبان کو قومی زبان بنا دیا جائے جو ملک کے کسی بھی حصے کی مقامی یا پھر مادری زبان ہی نہ ہو۔

بلکہ قومی یکجہتی پیدا کرنے کے لیے اگر آپ ملک کے چاروں صوبوں میں ساری پاکستانی زبانیں پڑھائیں تو شائد بہتر نتائج نکلیں۔ اس لیے اپنی زمین سے، اپنی زبان سے اور اپنی ثقافت سے جڑنے سے محبت، یگانگت اور قومی یکجہتی بڑہتی ہے، نہ کہ کم ہوتی ہے۔

 ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی 40 فیصد آبادی کو اس زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر نہیں ہیں، جو وہ بولتے یا سمجھتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں تقریباً 7000 زبانیں بولی جاتی ہیں، لیکن لسانی تنوع کو خطرہ بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ زبانیں خطرناک حد تک ختم ہو رہی ہیں۔

 جب کوئی زبان معدوم ہو جاتی ہے تو وہ اپنے ساتھ ایک مکمل ثقافتی اور فکری ورثہ لے جاتی ہے۔ مقامی زبانیں کسی بھی معاشرے میں شناخت، مواصلات، سماجی انضمام، تعلیم اور ترقی کے لیے اپنے پیچیدہ مضمرات کے ساتھ وہاں کے لوگوں اور معاشروں کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔

اِس کے باوجود عالمگیریت کے عمل کی وجہ سے وہ تیزی سے خطرے میں ہیں، یا مکمل طور پر غائب ہو رہی ہیں۔ جب زبانیں ختم ہو جاتی ہیں، تو دنیا کی ثقافتی تنوع کی بھرپور افزائش بھی ختم ہو جاتی ہے۔ مواقع، روایات، یادداشت، سوچ اور اظہار کے انوکھے طریقے، اور بہتر مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے قیمتی وسائل بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ 

 دُنیا بھر میں ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مادری زبان میں تعلیم دینا ہی تعلیمی عمل میں سب سے زیادہ شمولیت اور سیکھنے کا بہترین معیار سمجھی جاتی ہے، اور مادری زبان بچوں میں سیکھنے کے معیار اور اُن کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے۔ ایسا کرنا بالخصوص پرائمری اسکولوں میں علم کے خلاء سے بچنے، اور سیکھنے سمجھنے کی رفتار کو بڑھانے کے لیے بہت اہم ہے۔ مادری زبان کو ابتدائی تعلیم کا ذریعہ بنانے سے بچے بہتر انداز میں اور تیزی سے سیکھتے ہیں، اور بہتر انداز میں سمجھ پاتے ہیں۔ وہ سکول سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں، اپنے سکول کو گھر کی طرح ہی محصوص کرتے ہیں اور اُن کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مادری زبان میں تعلیم جب آگے بڑھ کر قومی اور عالمی زبانوں سے ملاپ کرتی ہے تو اِس سے علمی اور فکری ترقی میں مدد ملتی ہے۔ یہ دوسری زبانیں سیکھنے میں مدد کرتی ہے، آپ کو اپنی ثقافت اور لوگوں سے جڑنے میں مدد دیتی ہے، اور پیشہ وارانہ مہارت اور تجارتی لحاظ سے بھی فائدہ مند ہے۔  

 اِس کے باوجود کہ عالمی سطح پر آبادی کے ایک بڑے حصے کو اُن کی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر نہیں ہیں، جو وہ اپنی پیدائش سے بولتے اور سمجھتے ہیں۔ لیکن کثیر لسانی تعلیم، بالخصوص ابتدائی تعلیم میں اس کی اہمیت اور عوامی زندگی میں اس کی ترقی کے لیے زیادہ عزم کے ساتھ پیش رفت کی جا رہی ہے۔ مادری زبان کا عالمی دن منانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ زبانیں کثیر لسانی شمولیت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، اور کسی ک پیچھے نہ چھوڑنے سے ہی پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارہ یونیسکو، مادری زبان پر مبنی کثیر لسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی اور اسے فروغ دینے کی لیے کوششیں کر رہا ہے۔ یہ ایک ایسی قسم کی تعلیم ہے جو اُس زبان میں شروع ہوتی ہے، جِس میں سیکھنے والا پہلے سے ہی مہارت رکھتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اپنے آپ کو دوسری زبانوں سے متعارف کرواتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر سیکھنے والوں کو اس قابل بناتا ہے کہ جن کی مادری زبان تدریس کی زبان سے مختلف ہے، وہ گھر اور سکول کے درمیان فرق کو ختم کرنے، سکول کے ماحول کو ایک مانوس زبان میں دریافت کرنے اور اس طرح بہتر طریقے سے سیکھنے کے قابل بن پائیں۔ کثیر لسانیات جامع معاشروں کی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے، جو متعدد ثقافتوں، علمی نظریات اور علم کے نظام کو ایک ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑہنے کی ترغیب دیتی ہے۔

 اس بات کا خدشہ بڑی شدت سے موجود ہے کہ آج کی کم از کم 50 فیصد بولی جانے والی زبانیں 2100ء تک معدوم ہو جائیں گیں، یا پھر سنگین خطرے میں پڑ جائیں گیں۔

زیادہ مایوس کن، لیکن حقیقت پسندانہ اندازوں کا دعویٰ ہے کہ اِس صد کے آخر تک 90-95 فیصد زبانیں معدوم ہو جائیں گی، اُن میں سے زیادہ تر زبانیں دیسی، یا مقامی زبانیں ہیں۔ اِس طرح انسانیت کے پاس صرف 600-300 زبانیں باقی رہ پائیں گیں، جو اِس صدی کے آخر تک خطرے سے پاک ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2022ء اور 2032ء کے درمیانی عرصے کو مقامی زبانوں کی بین الاقوامی دہائی کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے تا کہ بہت سی مقامی زبانوں کی نازک صورتِ حال پر عوامی شعور اجاگر کیا جا سکے، عالمی توجہ مبذول کروائی جا سکے اور اُن کے تحفظ، احیاء اور فروغ کے لیے اسٹیک ہولڈرز اور وسائل کو متحرک کیا جا سکے۔ اِس سال کے بین الاقوامی یومِ مادری زبان کا تھیم، ” کثیر لسانی تعلیم ۔ تعلیم کو تبدیل کرنے کی ضرورت“  ہے، جو ٹرانسفارمنگ ایجوکیشن سمٹ کے دوران کی گئی سفارشات سے ہم آہنگ ہے، جہاں مقامی لوگوں کی تعلیم اور زبانوں پر بھی زور دیا گیا تھا۔ مادری زبان پر مبنی کثیر لسانی تعلیم دُنیا بھر کے ممالک کی آبادی کے مختلف گروہوں کے لیے سیکھنے تک رسائی اور اُن کی شمولیت کے لیے سہولت فرہم کرنا ہے، جو غیر غالب زبانیں، اقلیتی گروہوں کی زبانیں اور مقامی زبانیں بولتے ہیں۔ اِس لیے دُنیا بھر میں مقامی زبانوں کے تحفظ، احیاء اور حمایت کے لیے ایک عالمی برادری کی تعمیر بہت ضروری ہے۔

 پاکستان کے صوبہ پنجاب میں جان بوجھ کر پنجابی بولنے والوں میں احساسِ محرومی پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ جاہل ہیں، یا نچلے درجے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں پڑھے لکھے لوگوں کی بھی یہ رائے بن چکی ہے کہ پنجابی بولنا جاہل ہونے کے مترادف ہے، جِس کی وجہ سے ایک ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ شخص بھی خود کو مہذب ظاہر کرنے کے لیے اُردو بولنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم آئے روز دیکھتے ہیں کہ پنجابی مائیں اپنے بچوں کو پنجابی بولنے سے منع کرتی ہیں، اور پنجابی بولنے پر بچوں کی ڈانٹ ڈپٹ سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ اپنی مادری زبان کی ترویج و ترقی اور اسے استعمال پر فخر کرنے کی بجائے ہم نے تو خود ہی پنجابی بولنے کو غیر مہذب زبان کا درجہ دے دیا ہے۔

 جب برطانوی سامراج نے برِصغیر  پر قبضہ کر کے یہاں کی عوام کو غلام بنایا، تو سب سے پہلے انہوں نے یہاں کی مقامی خودکار صنعت کو تباہ کیا، تاکہ برِصغیر متحدہ ہندوستان پر اپنے تسلط کو دوام بخش سکے، یہاں کے وسائل اور خام مال لوُٹ سکے، اور اسے اپنی صنعتی پیداوار کی منڈی بنا سکے۔

سامراجی ممالک جِس بھی ملک میں جاتے ہیں، سب سے پہلے اُس ملک کی مقامی زبانوں اور ثقافت کو تباہ کرتے ہیں، تاکہ وہاں کے عوام کو ذہنی طور پر غلام بنا سکیں اور اُن کی سوچوں کو اپنی ضرورتوں کے مطابق ڈھال سکیں۔

جب 1849ء میں انگریز پنجاب میں داخل ہوئے تو اُنہوں نے یہاں مادری زبان کے فروغ کے تمام تر مطالبوں کے باوجود یہاں اردو لاگو کر دی۔ انگریزوں نے ہی یہاں دارالاشاعت پنجاب بنایا اور یہاں نامور اردو شعراء کو لایا اور یہاں اُردو کو فروغ دیا۔ جب اگست 1947ء میں برِصغیر کا بٹوارہ ہوا تو پاکستان کے اقتدار پر بیوروکریسی اور جاگیرداروں نے قبضہ کر لیا۔ اُنہوں نے ملک میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کی بجائے اردو کو قومی زبان بنا دیا، جو کہ ملک کے کسی حصے کی مقامی زبان نہ تھی۔ حالانکہ ملک کی سب سے زیادہ آبادی بنگالی زبان بولنے والوں پر مشتمل تھی، جبکہ دوسری بڑی زبان پنجابی اور ملک کی سب سے قدیم ترین زبان بلوچی تھی۔ ہماری بیوروکریسی چونکہ برطانوی راج کی پیداوار اور اُنہی کے مفادات کی محافظ تھی، اس لیے انہوں نے علیحدہ ملک بننے کے باوجود کارسرکار اور ملکی وسائل پر جاگیردارانہ تسلط کو برقرار رکھتے ہوئے سامراجی نظام کو جوں کا توں رکھا اور اُن پر اشرافیہ اور بیوروکریسی کی سٹیٹس سمبل والی زبان مسلط کر دی۔

 پاکستان ایک علیحدہ ریاست کے طور پر وجود میں آیا تو یہ مختلف نسلی اور لسانی اکائیوں پر مشتمل تھا، جِس میں جغرافیائی طور پر غیر متصل مشرقی بنگال صوبہ بنیادی طور پر بنگالی آبادی پر مشتمل تھا۔ جب 1948ء میں حکومت پاکستان نے مشرقی پاکستان کی اسلامائزیشن یا عربائزیشن کے حصے کے طور پر حکم دیا کہ اُردو واحد قومی زبان ہو گی، اور متبادل کے طور پر عربی رسم الخط یا رومن رسم الخط میں بنگالی لکھی جائے گی، تو اِس نے مشرقی پاکستان کی بنگالی بولنے والی اکثریت، جو کہ ملکی آبادی کے 58 فیصد سے بھی زیادہ تھی، میں وسیع پیمانے پر اختجاج کو جنم دیا۔

مشرقی پاکستان کے عوام کا یہ مطالبہ یقیناً جائز تھا کہ بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ ملکی بیوروکریسی کے زیر اثر سرکار کے اِس حکم کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی  اور بڑے پیمانے پر عدم اطمینان کو کچلنے کے لیے عوامی جلسوں اور ریلیوں کو غیرقانونی قرار دے دیا، یعنی قیامِ پاکستان کے ساتھ ہے ملکی حکمرانوں نے عوام کے جمہوری حقوق کو تسلیم کرنے اور اُن کی آواز کو سننے کی بجائے عوام کو برطانوی سامراج کے انداز میں کنٹرول کرنے کی روش اپنائی۔ اس کے جواب میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء اور دیگر سیاسی کارکنوں نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 21 فروری 1952ء کو ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ تحریک اُس وقت اپنے عروج پر پہنچی جب اُس دِن پولیس نے ڈھاکہ میڈیکل کالج ہاسٹل کے باہر احتجاج کرنے والے پُرامن طلباء پر گولی چلا دی، جِس سے 7 طالب علم ہلاک اور 300 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ ان ہلاکتوں نے بڑے پیمانے پر شہری بدامنی کو ہوا دی اور اپنی زبان کے تحفظ اور مقام دلانے کی یہ آواز ملکی سطح کی تحریک بن گئی۔ آگے چل کر اِس تحریک نے مشرقی پاکستان کے عوام میں ایک نئی قوم پرستی کو جنم دیا۔ ہمارے بنگالی بھائی صوبہ حکومت کے امور میں بنگالی زبان کا ستعمال اور اسے ذریعہ تعلیم کے طور پر استعمال کے تسلسل کے ساتھ ساتھ اسے میڈیا، کرنسی، ڈاک ٹکٹوں میں اس کا استعمال، اور بنگالی رسم الخط میں اس کی تحریر کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ برسوں کی کشمکش کے بعد مرکزی حکومت نے 1956ء میں اُردو کے بعد بنگالی زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے دیا۔

 اپنی زبان کی اہمیت کو منوانے کی اِس تحریک نے مشرقی پاکستان میں بنگالی قومی شناخت کے دعوے کو متحرک کیا، اور یہ بالآخر بنگالی قوم پرست تحریکوں اور حقوق کی جنگ کا پیش خیمہ بن گئی۔ قوم پرستی کی یہی تحریک بعد ازاں 6 نکاتی ایجنڈے کے طور پر نمودار ہوئی، جو بعد ازاں بنگلہ دیش کی آزادی کا سبب بنی۔ بعد ازاں بنگالی زبان تحریک کے شہیدوں کی یادگار، شہید مینار ڈحاکہ میڈیکل کالج کے قریب تعمیر لیا گیا اور 21 فروری کو بنگالی زبان کے احیاء کے طور پر کی گئی تھی۔ زبان کی شناخت کی یہ تحریک دُنیا میں اپنی نوعیت کی واحد مثال تھی۔ علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کے بڑہتے ہوئے بحران اور رولنگ اشرافیہ کی بے حسی کے پیشِ نظر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے زبان کی تحریک اور دُنیا بھر کے لوگوں کے نسلی، لسانی حقوق کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے 1999ء میں یونیسکو کی جنرل کانفرنس میں مادری زبان کا عالمی دِن کے طور پر بنگلہ دیش کی پہل پر 21 فروری کا ہی انتخاب کیا ۔  

 اِس سال کے بین الاقوامی یومِ مادری زبان کا تھیم، ” لسانی کثیر تعلیم ۔ تعلیم کو تبدیل کرنے کی ضرورت“ ٹرانسفارمنگ ایجوکیشن سمٹ کے دوران کی گئی سفارشات سے ہم آہنگ ہے، جہاں مقامی لوگوں کی تعلیم اور زبانوں پر بھی زور دیا گیا تھا۔ مادری زبان پر مبنی کثیر لسانی تعلیم دُنیا بھی کے ممالک کی آبادی کے مختلف گروہوں کے لیے سیکھنے تک رسائی اور اُن کی شمولیت کے لیے سہولت فرہم کرنا ہے، جو غیر غالب زبانیں، اقلیتی گروہوں کی زبانیں اور مقامی زبانیں بولتے ہیں۔ اِس لیے دُنیا بھر میں مقامی زبانوں کے تحفظ، احیاء اور حمایت کے لیے ایک عالمی برادری کی تعمیر بہت ضروری ہے۔

—♦—

WhatsApp Image 2024-01-31 at 10.23.57 PM
مصنف کے بارے

پرویز فتح بائیں بازو کے سینئر ساتھی ہیں اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ آپ عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے راہنما ہیں اور برطانیہ میں بائیں بازو کے انتہائی متحرک دوستوں میں سے ہیں۔ آپ اکثر سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">

ہر سال 21 فروری کو دُنیا بھر میں مادری زبان کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کثیر لسانی اور کثیر الثقافتی معاشرے اپنی زبانوں کے ذریعے وجود میں آتے ہیں، جو روایتی علم اور ثقافتوں کو پائیدار طریقے سے منتقل اور محفوظ کرتے ہیں۔ مادری زبان کا عالمی دن بھی ہر سال لسانی اور ثقافتی تنوع اور کثیر لسانی کو فروغ دینے کے لیے منایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر منائے جانے والے دن، ہفتے، یا سال بنیادی طور پر عوام کو تشویش ناک مسائل سے آگاہ کرنے، ابھرتے ہوئے عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیاسی ارادے اور وسائل کو متحرک کرنے، انسانیت کی کامیابیوں کو منانے اور تقویت دینے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ بین الاقوامی دنوں کا وجود اقوام متحدہ کے قیام سے پہلے سے چلا آ رہا ہے، لیکن اقوام متحدہ نے انہیں ایک طاقتور وکالت کے آلے کے طور پر قبول کیا ہے۔ 

 کسی بھی معاشرے کی سماجی ترقی کے لیے زبان اور ثقافت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ زبان رابطے اور اظہار کا اہم ذریعہ ہے اور حقائق اور مشاہدات کی عکاسی اور اظہار کرتی ہے، بلکہ یہ انسانی روّیوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اِس طرح یہ معاشرتی ترقی کی بنیادی شرائط کا اہم جزو ہے۔

زبان چونکہ ثقافت کا اظہار کرتی ہے، اُسے تقویت دیتی ہے، ثقافت کے اندر رہنے والے انسانوں کی ذاتی شناخت کو متاثر کرتی ہے، اور رویوں کی حدود پیدا کرتی ہے، اِس لیے زبان کو قوموں کی ثقافتی اقدار کو محفوظ کرنے کے لیے اہم مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی ترقی کے راستے پر گامزن ممالک اور اقوام اپنے وطن کی قومی اور علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کی ترویج و ترقی کے تسلسل کو برقرار رکھتی ہیں، اور وہاں برسرِ اقتدار اور اقتدار سے باہر سیاسی و سماجی قوتیں اسے برابر اہمیت دیتی ہیں۔

 مجموعی طور پر دُنیا میں مقامی زبانوں کو اپنے اپنے علاقوں کی مادری زبان کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اِس لیے مادری زبان، یا ماں بولی، جِسے انگریزی میں مدر لینگویج کہتے ہیں، وہ زبان ہوتی ہے جو بچے کو پیدائش کے بعد سننے کو ملتی ہے، اور ہمارے احساسات اور خیالات کو ایک خاص شکل دینے میں مدد دیتی ہے۔

یہ کسی بھی انسان کے آباؤ اجداد اور اُس کی دھرتی کی زبان ہوتی ہے۔ مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا اِس لیے بھی اہم ہے کہ یہ تنقیدی سوچ میں مہارت حاصل کرنے، دیگر زبانوں کو سیکھنے، شرح خواندگی کو بڑھانے اور اس کے معیار کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دُنیا بھر کے تعلیمی ماہرین اِس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کو بنیادی تعلیم اُن کی مادری زبان میں دی جائے تو بہترین نتائج نکلتے ہیں۔ اس سے بچوں کی ذہنی نشوونما مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے اور وہ بہتر طریقے سے علم حاصل کر پاتے ہیں۔ اِس کے برعکس، قومی زبان کسی ملک کی اکائیوں کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرنے اور وہاں کے عوام کے درمیان کمیونیکیشن کو بہتر بنانے کا کردار ادا کرتی ہے۔ اِسی لیے کسی بھی ملک میں بولی جانے والی مقامی زبانوں میں سے سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان کو ہی قومی زبان کا درجہ دیا جاتا ہے۔ جبکہ ملک کی تمام زبانوں کو ترقی دینے اور بنیادی تعلیم کا ذریعہ بنانے کے برابر مواقع مہیا کئے جاتے ہیں۔

بہت سے ملکوں میں ایک سے زیادہ قومی زبانیں ہوتی ہیں، مثلاً سوئٹزرلینڈ میں تین قومی زبانیں اور روس میں چار قومی زبانیں ہیں۔ اِس لیے یہ تصور سراسر غلط ہے کہ پاکستانیت اور ملکی سطح پر ہم آہنگی کو پروان چڑھانے کے لیے ایک ایسی زبان کو قومی زبان بنا دیا جائے جو ملک کے کسی بھی حصے کی مقامی یا پھر مادری زبان ہی نہ ہو۔

بلکہ قومی یکجہتی پیدا کرنے کے لیے اگر آپ ملک کے چاروں صوبوں میں ساری پاکستانی زبانیں پڑھائیں تو شائد بہتر نتائج نکلیں۔ اس لیے اپنی زمین سے، اپنی زبان سے اور اپنی ثقافت سے جڑنے سے محبت، یگانگت اور قومی یکجہتی بڑہتی ہے، نہ کہ کم ہوتی ہے۔

 ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی 40 فیصد آبادی کو اس زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر نہیں ہیں، جو وہ بولتے یا سمجھتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں تقریباً 7000 زبانیں بولی جاتی ہیں، لیکن لسانی تنوع کو خطرہ بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ زبانیں خطرناک حد تک ختم ہو رہی ہیں۔

 جب کوئی زبان معدوم ہو جاتی ہے تو وہ اپنے ساتھ ایک مکمل ثقافتی اور فکری ورثہ لے جاتی ہے۔ مقامی زبانیں کسی بھی معاشرے میں شناخت، مواصلات، سماجی انضمام، تعلیم اور ترقی کے لیے اپنے پیچیدہ مضمرات کے ساتھ وہاں کے لوگوں اور معاشروں کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔

اِس کے باوجود عالمگیریت کے عمل کی وجہ سے وہ تیزی سے خطرے میں ہیں، یا مکمل طور پر غائب ہو رہی ہیں۔ جب زبانیں ختم ہو جاتی ہیں، تو دنیا کی ثقافتی تنوع کی بھرپور افزائش بھی ختم ہو جاتی ہے۔ مواقع، روایات، یادداشت، سوچ اور اظہار کے انوکھے طریقے، اور بہتر مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے قیمتی وسائل بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ 

 دُنیا بھر میں ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مادری زبان میں تعلیم دینا ہی تعلیمی عمل میں سب سے زیادہ شمولیت اور سیکھنے کا بہترین معیار سمجھی جاتی ہے، اور مادری زبان بچوں میں سیکھنے کے معیار اور اُن کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے۔ ایسا کرنا بالخصوص پرائمری اسکولوں میں علم کے خلاء سے بچنے، اور سیکھنے سمجھنے کی رفتار کو بڑھانے کے لیے بہت اہم ہے۔ مادری زبان کو ابتدائی تعلیم کا ذریعہ بنانے سے بچے بہتر انداز میں اور تیزی سے سیکھتے ہیں، اور بہتر انداز میں سمجھ پاتے ہیں۔ وہ سکول سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں، اپنے سکول کو گھر کی طرح ہی محصوص کرتے ہیں اور اُن کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مادری زبان میں تعلیم جب آگے بڑھ کر قومی اور عالمی زبانوں سے ملاپ کرتی ہے تو اِس سے علمی اور فکری ترقی میں مدد ملتی ہے۔ یہ دوسری زبانیں سیکھنے میں مدد کرتی ہے، آپ کو اپنی ثقافت اور لوگوں سے جڑنے میں مدد دیتی ہے، اور پیشہ وارانہ مہارت اور تجارتی لحاظ سے بھی فائدہ مند ہے۔  

 اِس کے باوجود کہ عالمی سطح پر آبادی کے ایک بڑے حصے کو اُن کی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر نہیں ہیں، جو وہ اپنی پیدائش سے بولتے اور سمجھتے ہیں۔ لیکن کثیر لسانی تعلیم، بالخصوص ابتدائی تعلیم میں اس کی اہمیت اور عوامی زندگی میں اس کی ترقی کے لیے زیادہ عزم کے ساتھ پیش رفت کی جا رہی ہے۔ مادری زبان کا عالمی دن منانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ زبانیں کثیر لسانی شمولیت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، اور کسی ک پیچھے نہ چھوڑنے سے ہی پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارہ یونیسکو، مادری زبان پر مبنی کثیر لسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی اور اسے فروغ دینے کی لیے کوششیں کر رہا ہے۔ یہ ایک ایسی قسم کی تعلیم ہے جو اُس زبان میں شروع ہوتی ہے، جِس میں سیکھنے والا پہلے سے ہی مہارت رکھتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اپنے آپ کو دوسری زبانوں سے متعارف کرواتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر سیکھنے والوں کو اس قابل بناتا ہے کہ جن کی مادری زبان تدریس کی زبان سے مختلف ہے، وہ گھر اور سکول کے درمیان فرق کو ختم کرنے، سکول کے ماحول کو ایک مانوس زبان میں دریافت کرنے اور اس طرح بہتر طریقے سے سیکھنے کے قابل بن پائیں۔ کثیر لسانیات جامع معاشروں کی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے، جو متعدد ثقافتوں، علمی نظریات اور علم کے نظام کو ایک ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑہنے کی ترغیب دیتی ہے۔

 اس بات کا خدشہ بڑی شدت سے موجود ہے کہ آج کی کم از کم 50 فیصد بولی جانے والی زبانیں 2100ء تک معدوم ہو جائیں گیں، یا پھر سنگین خطرے میں پڑ جائیں گیں۔

زیادہ مایوس کن، لیکن حقیقت پسندانہ اندازوں کا دعویٰ ہے کہ اِس صد کے آخر تک 90-95 فیصد زبانیں معدوم ہو جائیں گی، اُن میں سے زیادہ تر زبانیں دیسی، یا مقامی زبانیں ہیں۔ اِس طرح انسانیت کے پاس صرف 600-300 زبانیں باقی رہ پائیں گیں، جو اِس صدی کے آخر تک خطرے سے پاک ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2022ء اور 2032ء کے درمیانی عرصے کو مقامی زبانوں کی بین الاقوامی دہائی کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے تا کہ بہت سی مقامی زبانوں کی نازک صورتِ حال پر عوامی شعور اجاگر کیا جا سکے، عالمی توجہ مبذول کروائی جا سکے اور اُن کے تحفظ، احیاء اور فروغ کے لیے اسٹیک ہولڈرز اور وسائل کو متحرک کیا جا سکے۔ اِس سال کے بین الاقوامی یومِ مادری زبان کا تھیم، ” کثیر لسانی تعلیم ۔ تعلیم کو تبدیل کرنے کی ضرورت“  ہے، جو ٹرانسفارمنگ ایجوکیشن سمٹ کے دوران کی گئی سفارشات سے ہم آہنگ ہے، جہاں مقامی لوگوں کی تعلیم اور زبانوں پر بھی زور دیا گیا تھا۔ مادری زبان پر مبنی کثیر لسانی تعلیم دُنیا بھر کے ممالک کی آبادی کے مختلف گروہوں کے لیے سیکھنے تک رسائی اور اُن کی شمولیت کے لیے سہولت فرہم کرنا ہے، جو غیر غالب زبانیں، اقلیتی گروہوں کی زبانیں اور مقامی زبانیں بولتے ہیں۔ اِس لیے دُنیا بھر میں مقامی زبانوں کے تحفظ، احیاء اور حمایت کے لیے ایک عالمی برادری کی تعمیر بہت ضروری ہے۔

 پاکستان کے صوبہ پنجاب میں جان بوجھ کر پنجابی بولنے والوں میں احساسِ محرومی پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ جاہل ہیں، یا نچلے درجے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں پڑھے لکھے لوگوں کی بھی یہ رائے بن چکی ہے کہ پنجابی بولنا جاہل ہونے کے مترادف ہے، جِس کی وجہ سے ایک ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ شخص بھی خود کو مہذب ظاہر کرنے کے لیے اُردو بولنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم آئے روز دیکھتے ہیں کہ پنجابی مائیں اپنے بچوں کو پنجابی بولنے سے منع کرتی ہیں، اور پنجابی بولنے پر بچوں کی ڈانٹ ڈپٹ سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ اپنی مادری زبان کی ترویج و ترقی اور اسے استعمال پر فخر کرنے کی بجائے ہم نے تو خود ہی پنجابی بولنے کو غیر مہذب زبان کا درجہ دے دیا ہے۔

 جب برطانوی سامراج نے برِصغیر  پر قبضہ کر کے یہاں کی عوام کو غلام بنایا، تو سب سے پہلے انہوں نے یہاں کی مقامی خودکار صنعت کو تباہ کیا، تاکہ برِصغیر متحدہ ہندوستان پر اپنے تسلط کو دوام بخش سکے، یہاں کے وسائل اور خام مال لوُٹ سکے، اور اسے اپنی صنعتی پیداوار کی منڈی بنا سکے۔

سامراجی ممالک جِس بھی ملک میں جاتے ہیں، سب سے پہلے اُس ملک کی مقامی زبانوں اور ثقافت کو تباہ کرتے ہیں، تاکہ وہاں کے عوام کو ذہنی طور پر غلام بنا سکیں اور اُن کی سوچوں کو اپنی ضرورتوں کے مطابق ڈھال سکیں۔

جب 1849ء میں انگریز پنجاب میں داخل ہوئے تو اُنہوں نے یہاں مادری زبان کے فروغ کے تمام تر مطالبوں کے باوجود یہاں اردو لاگو کر دی۔ انگریزوں نے ہی یہاں دارالاشاعت پنجاب بنایا اور یہاں نامور اردو شعراء کو لایا اور یہاں اُردو کو فروغ دیا۔ جب اگست 1947ء میں برِصغیر کا بٹوارہ ہوا تو پاکستان کے اقتدار پر بیوروکریسی اور جاگیرداروں نے قبضہ کر لیا۔ اُنہوں نے ملک میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کی بجائے اردو کو قومی زبان بنا دیا، جو کہ ملک کے کسی حصے کی مقامی زبان نہ تھی۔ حالانکہ ملک کی سب سے زیادہ آبادی بنگالی زبان بولنے والوں پر مشتمل تھی، جبکہ دوسری بڑی زبان پنجابی اور ملک کی سب سے قدیم ترین زبان بلوچی تھی۔ ہماری بیوروکریسی چونکہ برطانوی راج کی پیداوار اور اُنہی کے مفادات کی محافظ تھی، اس لیے انہوں نے علیحدہ ملک بننے کے باوجود کارسرکار اور ملکی وسائل پر جاگیردارانہ تسلط کو برقرار رکھتے ہوئے سامراجی نظام کو جوں کا توں رکھا اور اُن پر اشرافیہ اور بیوروکریسی کی سٹیٹس سمبل والی زبان مسلط کر دی۔

 پاکستان ایک علیحدہ ریاست کے طور پر وجود میں آیا تو یہ مختلف نسلی اور لسانی اکائیوں پر مشتمل تھا، جِس میں جغرافیائی طور پر غیر متصل مشرقی بنگال صوبہ بنیادی طور پر بنگالی آبادی پر مشتمل تھا۔ جب 1948ء میں حکومت پاکستان نے مشرقی پاکستان کی اسلامائزیشن یا عربائزیشن کے حصے کے طور پر حکم دیا کہ اُردو واحد قومی زبان ہو گی، اور متبادل کے طور پر عربی رسم الخط یا رومن رسم الخط میں بنگالی لکھی جائے گی، تو اِس نے مشرقی پاکستان کی بنگالی بولنے والی اکثریت، جو کہ ملکی آبادی کے 58 فیصد سے بھی زیادہ تھی، میں وسیع پیمانے پر اختجاج کو جنم دیا۔

مشرقی پاکستان کے عوام کا یہ مطالبہ یقیناً جائز تھا کہ بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔ ملکی بیوروکریسی کے زیر اثر سرکار کے اِس حکم کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی  اور بڑے پیمانے پر عدم اطمینان کو کچلنے کے لیے عوامی جلسوں اور ریلیوں کو غیرقانونی قرار دے دیا، یعنی قیامِ پاکستان کے ساتھ ہے ملکی حکمرانوں نے عوام کے جمہوری حقوق کو تسلیم کرنے اور اُن کی آواز کو سننے کی بجائے عوام کو برطانوی سامراج کے انداز میں کنٹرول کرنے کی روش اپنائی۔ اس کے جواب میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء اور دیگر سیاسی کارکنوں نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 21 فروری 1952ء کو ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ تحریک اُس وقت اپنے عروج پر پہنچی جب اُس دِن پولیس نے ڈھاکہ میڈیکل کالج ہاسٹل کے باہر احتجاج کرنے والے پُرامن طلباء پر گولی چلا دی، جِس سے 7 طالب علم ہلاک اور 300 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ ان ہلاکتوں نے بڑے پیمانے پر شہری بدامنی کو ہوا دی اور اپنی زبان کے تحفظ اور مقام دلانے کی یہ آواز ملکی سطح کی تحریک بن گئی۔ آگے چل کر اِس تحریک نے مشرقی پاکستان کے عوام میں ایک نئی قوم پرستی کو جنم دیا۔ ہمارے بنگالی بھائی صوبہ حکومت کے امور میں بنگالی زبان کا ستعمال اور اسے ذریعہ تعلیم کے طور پر استعمال کے تسلسل کے ساتھ ساتھ اسے میڈیا، کرنسی، ڈاک ٹکٹوں میں اس کا استعمال، اور بنگالی رسم الخط میں اس کی تحریر کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ برسوں کی کشمکش کے بعد مرکزی حکومت نے 1956ء میں اُردو کے بعد بنگالی زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے دیا۔

 اپنی زبان کی اہمیت کو منوانے کی اِس تحریک نے مشرقی پاکستان میں بنگالی قومی شناخت کے دعوے کو متحرک کیا، اور یہ بالآخر بنگالی قوم پرست تحریکوں اور حقوق کی جنگ کا پیش خیمہ بن گئی۔ قوم پرستی کی یہی تحریک بعد ازاں 6 نکاتی ایجنڈے کے طور پر نمودار ہوئی، جو بعد ازاں بنگلہ دیش کی آزادی کا سبب بنی۔ بعد ازاں بنگالی زبان تحریک کے شہیدوں کی یادگار، شہید مینار ڈحاکہ میڈیکل کالج کے قریب تعمیر لیا گیا اور 21 فروری کو بنگالی زبان کے احیاء کے طور پر کی گئی تھی۔ زبان کی شناخت کی یہ تحریک دُنیا میں اپنی نوعیت کی واحد مثال تھی۔ علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کے بڑہتے ہوئے بحران اور رولنگ اشرافیہ کی بے حسی کے پیشِ نظر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے زبان کی تحریک اور دُنیا بھر کے لوگوں کے نسلی، لسانی حقوق کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے 1999ء میں یونیسکو کی جنرل کانفرنس میں مادری زبان کا عالمی دِن کے طور پر بنگلہ دیش کی پہل پر 21 فروری کا ہی انتخاب کیا ۔  

 اِس سال کے بین الاقوامی یومِ مادری زبان کا تھیم، ” لسانی کثیر تعلیم ۔ تعلیم کو تبدیل کرنے کی ضرورت“ ٹرانسفارمنگ ایجوکیشن سمٹ کے دوران کی گئی سفارشات سے ہم آہنگ ہے، جہاں مقامی لوگوں کی تعلیم اور زبانوں پر بھی زور دیا گیا تھا۔ مادری زبان پر مبنی کثیر لسانی تعلیم دُنیا بھی کے ممالک کی آبادی کے مختلف گروہوں کے لیے سیکھنے تک رسائی اور اُن کی شمولیت کے لیے سہولت فرہم کرنا ہے، جو غیر غالب زبانیں، اقلیتی گروہوں کی زبانیں اور مقامی زبانیں بولتے ہیں۔ اِس لیے دُنیا بھر میں مقامی زبانوں کے تحفظ، احیاء اور حمایت کے لیے ایک عالمی برادری کی تعمیر بہت ضروری ہے۔

—♦—

WhatsApp Image 2024-01-31 at 10.23.57 PM
مصنف کے بارے

پرویز فتح بائیں بازو کے سینئر ساتھی ہیں اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ آپ عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے راہنما ہیں اور برطانیہ میں بائیں بازو کے انتہائی متحرک دوستوں میں سے ہیں۔ آپ اکثر سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Tags: BengaliColonialismColonizationCultureImperialismIndiaInternational DayMother LanguagesPakistanPunjabiUrdu
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

by للکار نیوز
اپریل 6, 2025
0
0

اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر...

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

by للکار نیوز
ستمبر 28, 2024
0
0

للکار (انٹرنیشنل نیوز ڈیسک) اسرائیل نے بیروت میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کو فضائی حملے میں شہید...

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

by للکار نیوز
ستمبر 27, 2024
0
0

پانچ دہائیوں تک ہندوستان کی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برِصغیر کے نامور مارکسی مفکر، انقلابی تحریکوں...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.