لندن میں ہندوستانی طلباء کا ایک گروپ عالمی بائیں بازو کی تحریک کے احیاء میں اہم کردار کیسے ادا کر سکتا ہے؟ 29 دسمبر 2023 کو، سٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کی برطانوی شاخ (SFI، UK) اور پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن برطانیہ، UK (PWA-UK) کے کارکنوں اور دانشوروں کے ایک گروپ کے درمیان گفتگو اور تبادلہ خیال کے لیے ایک نشست کا اہتمام کیا گیا۔
پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن برطانیہ، (PWA-UK)” ادب برائے زندگی“ کی تحریک کو بحال کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ ملاقات ایک دوسرے کے تجربات اور نقطہ نظر کو سمجھنے اور 21ویں صدی میں بائیں بازو کے چیلنجوں اور نت نئی آپرچیونیٹیز کو تلاش کرنے کا ایک زبردست موقع تھا۔ ایس ایف آئی میں ہندوستان کے تقریباً 48 لاکھ بائیں بازو کے طلبہ ممبران ہیں۔ یہ شاید دنیا کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم ہے۔ حال ہی میں انہوں نے برطانیہ میں اپنی ایک شاخ کھولی ہے۔
اجلاس کی غیر رسمی صدارت پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن برطانیہ، کے ڈائریکٹر، بائیں بازو کے کارکن اور پاکستان میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) کے سابق رہنما نے عاصم علی شاہ نے کی۔ انہوں نے اپنے گھر پر سٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کی برطانوی قیادت کی میزبانی کی۔
شرکاء میں ایس ایف آئی کے نکھل میتھیو، وشال ادے کمار، جِشنو دیو گیڈ فلائی، اور دیگر ممبران شامل تھے۔ دوسری جانب پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن سے عاصم شاہ، اور ثقلین امام، اور افنان خان، فیصل شاہ اور علی مرتضیٰ نے بھی بطور مہمان تبادلہ خیال کی اس نشست میں شرکت کی۔
سیشن شام 6.00 بجے شروع ہوا اور 10.30 بجے ختم ہوا۔ شرکاء نے جنوبی ہندوستان کی تاریخ اور ثقافت سے لے کر وہاں کے لوگوں اور بائیں بازو کی تحریکوں کو درپیش موجودہ مسائل اور چیلنجوں سے لے کر عالمی رجحانات اور ترقی پسند جیسے خیالات تک جو ہم سب کو متاثر کرتے ہیں، جیسے کئی مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔
کیرالہ میں بائیں بازو: ہندوستان اور اس پورے خطے کا ماڈل
ایک اہم موضوع جس پر شرکاء نے تبادلہ خیال کیا وہ کیرالہ میں بائیں بازو کی تحریک کا تسلسل تھا، جو کہ جنوبی ہندوستان کی ایک ایسی ریاست ہے جس پر 1957 کے بعد سے زیادہ تر وقت تک کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) یا CPI(M) کی حکومت رہی ہے۔ سٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کے شرکاء نے اپنے تجربات اور خیالات کا ذکر کیا کہ کس طرح ہندوستان کے دیگر حصوں میں ہندوتوا اور گائے کی حفاظت کے نام پر تشدد کی لہر کے عروج کے باوجود کیرالہ میں بائیاں بازو اپنی مقبولیت اور اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح کیرالہ میں بائیں بازو نے خطے کی مسلم اقلیت کو سماجی اور اقتصادی اشاریوں کے لحاظ سے باقی ہندوستان کے مقابلے بہت بہتر کارکردگی دکھانے میں مدد دی ہے۔
ان کے مطابق اس کامیابی کا راز ریاست میں بائیں بازو کا سیاسی کلچر ہے جس نے تمام شہریوں کو ان کی ذات، رنگ، نسل یا مذہب سے قطع نظر ترقی کے یکساں مواقع فراہم کیے ہیں۔ کیرالہ مسلم اقلیتوں کے ساتھ ساتھ خواتین، دلتوں اور دیگر پسماندہ گروہوں کے لیے ہندوستان کی بہترین ریاست ہونے پر فخر کر سکتی ہے۔
شرکاء نے کیرالہ میں بائیں بازو کی حکومت کی کچھ کامیابیوں اور چیلنجوں پر بھی روشنی ڈالی، جیسے زمینی اصلاحات کا نفاذ، خواندگی اور تعلیم کا فروغ، صحتِ عامّہ اور سماجی تحفظ کی فراہمی، ماحولیات اور انسانی حقوق کا تحفظ، اور COVID-19 وبائی مرض اور اس سے نمٹنے جیسے معاملات۔ انڈیا کے قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) کے مطابق، کیرالہ ہندوستان کی سب سے زیادہ خواندہ ریاست ہے، جہاں شرح خواندگی 96.2 فیصد ہے۔
گفتگو کی اس نشست میں پاکستانی نژاد شرکاء بھی کیرالہ میں بائیں بازو کے بارے میں مزید جاننے کے لیے متجسس تھے، کیونکہ انہوں نے اسے پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے پسماندہ طبقات کی ترقی کے لیے ایک ممکنہ نمونہ کے طور پر دیکھا، جہاں بائیں بازو کئی دہائیوں سے کمزور یا پسماندہ ہے۔
انہوں نے پاکستان اور ہندوستان میں بائیں بازو کی صورت حال اور چیلنجز کا موازنہ بھی کیا ساتھ ساتھ ان میں تضادات پر بھی بات چیت کی اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کے امکانات اور حدود پر بھی گفتگو کی۔
بائیں بازو کی تحریک میں طلبہ اور ادب کا کردار
ایک اور موضوع جس پر شرکاء نے تبادلہ خیال کیا وہ جنوبی ایشیا اور عالمی سطح پر بائیں بازو کی تحریک میں طلباء اور ادب کا کردار تھا۔ ایس ایف آئی برطانیہ کے رہنماؤں اور دانشوروں نے برطانیہ میں رہنے کے دوران جن تجربات اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا انھوں نے اس پر بھی بات چیت کی کہ کس طرح انہیں برطانیہ میں مختلف قسم کے امتیازی سلوک، جبر اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے اپنی کامیابیوں اور اقدامات کا بھی ذکر کیا، جیسے کہ احتجاج، مارچز، سیمینارز، ثقافتی تقریبات، اور اشاعتیں، بیداری پیدا کرنے اور بائیں بازو کے مقاصد اور اقدار کے لیے حمایت کو تیز تر کرنے کی کوششیں۔
انہوں نے برطانیہ میں دیگر ترقی پسند اور جمہوری قوتوں جیسے ٹریڈ یونینز، نسل پرستی کے مخالف گروپوں اور ماحولیات کے ماہرین کے ساتھ اپنی شمولیت اور تعاون کے بارے میں بھی بات کی۔ ایس ایف آئی برطانیہ کے ایک چھوٹے ذیلی گروپ (وشال اور ایک اور رکن) نے برطانیہ میں بین الاقوامی طلباء کے لیے کونسلنگ قائم کرنے کے لیے ایک منفرد پہل کی ہے ۔ ان طلبا کو برطانیہ میں رہتے ہوئے کلچرل شاکس انہیں اور نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پروگریسو رائیٹرز ایسوسی ایشن کے شرکاء نے برطانیہ میں ترقی پزیر ممالک سے تعلق رکھنے والے مصنفین، ایکٹوسٹوں اور فنکاروں کے تجربات اور چیلنجز پر بات کی، جہاں انہیں مختلف قسم کی سنسرشپ، پسماندگی اور کموڈیفیکیشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے اپنی کامیابیوں اور جدوجہد کا بھی ذکر کیا، جیسا کہ ادب برائے زندگی زندگی کو فروغ دینا اور شائع کرنا، جو مظلوم اور استحصال زدہ لوگوں کی حقیقتوں اور امنگوں کی عکاسی کرتا ہے، اور یہ ”غالب اور بالادستی“ کے بیانیے اور نظریات کو چیلنج کرتا ہے۔
انہوں نے برطانیہ میں دیگر ترقی پسند اور جمہوری قوتوں، جیسے ایس ایف آئی برطانیہ اور دیگر ترقی پسند ثقافتی اور ادبی تنظیموں کے ساتھ اشتراک اور تعاون کے بارے میں بھی بات کی۔
شرکاء نے جنوبی ایشیا اور عالمی سطح پر بائیں بازو کی تحریک میں طلباء اور ادب کی اہمیت اور صلاحیت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ طلباء اور ادب بائیں بازو کے وژن اور اقدار کے لیے عوام بالخصوص نوجوانوں میں بیداری پیدا کرنے، تعلیم دینے، اور انھیں متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ طلباء اور ادب برائے زندگی کی تحریک نئے زاویوں، کیٹیکل تھنکنگ اور منفرد تجربات کے اشتراک سے رجعت پسند عقیدوں، دقیانوسی تصورات اور تعصبات کو چیلنج کر کے بائیں بازو کے نظریہ اور عمل کے فروغ میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ طلباء اور ادب تنقیدی سوچ، رواداری اور اختلاف رائے کی ثقافت کو فروغ دے سکتے ہیں جو بائیں بازو کی تحریک کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔
اکیسویں صدی میں بائیں بازو کا مستقبل
آخری موضوع جس پر شرکاء نے تبادلہ خیال کیا وہ 21ویں صدی میں بائیں بازو کا مستقبل تھا، ان متعدد بحرانوں اور چیلنجوں کے پیش نظر جن کا انسانیت کو سامنا ہے، جیسے کہ فاشزم، نیو لبرل ازم، سامراجیت، بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا عروج۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی، وبائی امراض، غربت، صنفی تفاوت، عدم مساوات اور جنگ کے خطرات جیسے موضوعات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔
شرکاء نے 21ویں صدی میں بائیں بازو کی تحریک کے لیے لاحق خطرات پر اپنے خدشات اور تشویش کا اظہار کیا بلکہ ان کو فروغ دینے کی امیدوں اور خوابوں کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے ماضی اور حال میں بائیں بازو کی تحریک کی طاقتوں اور کمزوریوں، مواقع اور خطرات اور کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ بھی کیا اور مستقبل میں بائیں بازو کی تحریک کے امکانات اور حکمت عملیوں کا جائزہ لیا۔
شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ 21ویں صدی میں بائیں بازو کی تحریک کو عالمی، جمہوری، جامع، متنوع اور تخلیقی ہونا چاہیے، تاکہ وہ لوگوں اور کرۂ ارض کے پیچیدہ اور باہم جڑے ہوئے مسائل اور مطالبات کو حل کرنے کے قابل ہو۔
انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ 21ویں صدی میں بائیں بازو کی تحریک کو سوشلزم، انسان دوستی، بین الاقوامیت اور طبقاتی یکجہتی کے اصولوں اور اقدار پر مبنی ہونا چاہیے، تاکہ موجودہ سرمایہ داری، جبر اور استحصال کے موجودہ نظام کا ایک قابل عمل اور مطلوبہ متبادل پیش کیا جا سکے۔
انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ 21ویں صدی میں بائیں بازو کی تحریک کو متحد اور مربوط ہونا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ لچکدار اور موافقت پذیر بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ بدلتی ہوئی دنیا اور مشکل حالات اور سیاق و سباق کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو۔ تمام معاشروں میں بائیں بازو کی صورت میں جنوب میں ترقی اور امن کو اپنے مقصد کے مطابق برقرار رکھنے کی کوششیں جاری رہ سکیں۔
شرکاء نے امید اور جوش کے احساس کے ساتھ میٹنگ کا اختتام کیا، کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ 21ویں صدی میں بائیں بازو کی تحریک میں بہت زیادہ صلاحیت ہے، اور اس کو حقیقت بنانے کے لیے ان کے پاس بہت زیادہ توانائی ہے کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری بھی ہے۔
تجربات اور نقطہ نظر کا تبادلہ
سٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کی قیادت نے ہمارے (یعنی پاکستانی شرکاء) کے سوالات اور تبصروں کو توجہ اور احترام سے سنا، اور سوچ سمجھ کر اور تعمیری تاثرات کے ساتھ جواب دیا۔ مثال کے طور پر، ایس ایف آئی برطانیہ کے ایک رکن نے ہمیں مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے عروج اور زوال کی وجوہات کا بصیرت انگیز جائزہ دیا۔ جِشنو دیو گاڈفلائی نے ہندوستان میں بائیں بازو کے لوگوں کی حالت کا ایک مختصر خلاصہ بھی پیش کیا۔
انہوں نے ہم سے ہمارے پس منظر اور دلچسپیوں کے بارے میں بھی پوچھا، اور ہماری رائے اور تجربات کے لیے حقیقی تجسس اور تعریف کا اظہار کیا۔ ہم نے انہیں پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے عروج، اس کی تاریخ اور موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا۔
بھارت کو مذہبی جنونیت کے عروج کی صورت میں اجس خطرے کا اب سامنا ہے، پاکستان اس کا سامنا بہت پہلے کر چکا تھا۔ پاکستان نے 1980 کی دہائی سے لے کر اب تک مذہب کے نام پر 80,000 سے زیادہ لوگوں کی موت کا سامنا کیا، جس کا الزام ہم آسانی سے بھارت یا کسی دوسرے ملک کے زیر انتظام ’دہشت گردی‘ پر لگاتے ہیں، لیکن پچھلی دہائیوں میں انتہا پسندی کو پالیسی ٹول اور ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی اپنی غلطیوں پر بات نہیں کرتے ہیں۔
ہم نے ایس ایف آئی برطانیہ کے طلباء رہنماؤں سے نہ صرف حقائق اور اعداد و شمار کے بارے میں بلکہ ان اقدار اور اصولوں کے بارے میں بھی بہت کچھ سیکھا جو ان کے ایکٹوزم اور فیصلوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان کے مستقبل کے بارے میں ان کا ویژن متاثر کن تھا، اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی ہمت اور معاملہ فہمی قابل تعریف تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیں ان سے معلوم ہوا کہ ماضی میں ہندوستانی بائیں بازو نے اپنے تمام اراکین کے لیے شراب پر پابندی لگا دی تھی۔ اب یہ برداشت کی جاتی ہے لیکن اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ اب بھی شراب نہیں پیتے ہیں۔
ایس ایف آئی برطانیہ کے رہنماؤں نے ہمارے ساتھ اپنی کامیابی اور ناکامی، امید اور مایوسی کی کہانیاں شیئر کیں۔ انہوں نے ہمارے ساتھ اپنے منصوبے اور خوابوں کے ساتھ ساتھ اپنے خوف اور شکوک و شبہات بھی کا بھی اظہار کیا۔ مثال کے طور پر، ایک شریک نے ہماری جانب سے ان کی جدوجہد کی تعریف کرنے کے جواب میں کہا "آپ کے الفاظ ہمارے لیے حوصلہ افزائی ہیں کہ ہم جو کام کر رہے ہیں اسے جاری رکھیں۔ ایس ایف آئی کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس کے طور پر، ہمیں وقتاً فوقتاً بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے…اور ایسی مشکلات کے پیش نظر آپ کے (تعریفی) الفاظ ہمارے لیے حوصلہ افزائی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔”
اس موقع پر موجود پاکستانی نژاد کامریڈز نے ان کے ساتھ ایک مضبوط تعلق اور یکجہتی محسوس کی، کیونکہ ہم نے ایک مشترکہ مقصد اور پسماندہ عوام کے لیے امن اور آزادی کے لیے مشترکہ جدوجہد پر بھی اظہارِ خیال کیا۔
انہوں نے ماحولیات اور صنفی مساوات کی شکل میں ترقی پسند تحریکوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہمارے خطے اور پوری دنیا میں ابھرنے والی ایک نئی حقیقت اور ایک نئی صلاحیت کے بارے میں بھی بات کی۔ ہم نے اس بارے میں بات کی کہ کس طرح تنقیدی اور تخلیقی طور پر سوچنا انتہائی ضروری ہے، تاکہ ہم نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے اجتماعی مقصد کو آگے بڑھا سکیں، اور کس طرح دلیری اور ذمہ داری سے کام کریں۔
مستقبل کا تعاون اور یکجہتی
ہم نے چلی کے صدر گیبریل بورک پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے جنوبی امریکہ میں بائیں بازو کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا۔ صدر بورک نے طلباء کے مسائل جیسے فیس اور طبقاتی تعلیمی معیار جیسے معاملات پر مہم چلا کر صدارت حاصل کی۔ کیا پاکستان میں طلبہ کی فعالیت سے ایسا ہی کوئی لیڈر ابھر سکتا ہے؟ فی الحال اس سوال کا جواب یقینی طور پر نہیں دیا جا سکتا ہے، کیونکہ صدر بورک نے نہ ہارورڈ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی گھی اور نہ ہی آکسبرج سے۔ انھوں نے ہی ملک کی عام یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔
اس موقع پر ایس ایف آئی برطانیہ اور پی ڈبلیو اے برطانیہ کے درمیان مستقبل کے تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ہم نے اپنی دوستی اور تعاون کو جاری رکھنے اور گہرا کرنے اور 21ویں صدی میں بائیں بازو کی تحریک کے مشترکہ مقصد کے حامل کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
اس میٹنگ کے اختتام پر تمام شرکاء زیادہ پرتوانا اور روشن خیال ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو زیادہ بااختیار محسوس کر رہے تھے۔ ایسے متاثر کن نوجوان لیڈروں کے ایک گروپ سے ملاقات کے بعد، میں نے انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے درج ذیل باتیں لکھیں:
تم اندھیروں میں روشنی ہو،
بے آوازوں کی آواز ہو،
نا اُمیدوں کی امید ہو۔
آپ تبدیلی کے رہنما،
ناانصافی کے جنگجو،
حق کے متلاشی ہیں۔
آپ کمال کی علامات ہیں،
علم کے اُستاد ہیں،
زندگی کے سیکھنے والے ہیں،
آپ انسانیت کے دوست،
آپ احسان کرنے والے،
ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
دُعا ہے کہ آپ جو ہیں وہی رہیں
اور جو کچھ آپ کرتے ہیں
وہی کرتے رہیں۔
یہ نظم ہماری ملاقات کے نچوڑ کو پیش کرتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری میٹنگ جنوبی ایشیا اور اس سے باہر بائیں بازو کی قوتوں کے درمیان اس طرح کے مزید تبادلوں اور تعاون کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 21ویں صدی میں بائیں بازو کی تحریک کے فروغ کے بے انتہا امکانات ہیں، اور اس میں بائیں بازو کے خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے ہمارے پاس بہت زیادہ توانائی ہے کیونکہ یہ ہم سب کی ایک بڑی ذمہ داری بھی ہے، جیسا کہ ورلڈ سوشل فورم کا یہ مشہور نعرہ بھی کہتا ہے:
"ایک اور دنیا ممکن ہے، دوسری دنیا ضروری ہے، دوسری دنیا یہاں ہے”۔
—♦—
ثقلین امام برطانیہ کے شہر لندن میں مقیم صحافی ہیں۔ آپ سیاسی و سماجی مسائل پر اکثر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
لندن میں ہندوستانی طلباء کا ایک گروپ عالمی بائیں بازو کی تحریک کے احیاء میں اہم کردار کیسے ادا کر سکتا ہے؟ 29 دسمبر 2023 کو، سٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کی برطانوی شاخ (SFI، UK) اور پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن برطانیہ، UK (PWA-UK) کے کارکنوں اور دانشوروں کے ایک گروپ کے درمیان گفتگو اور تبادلہ خیال کے لیے ایک نشست کا اہتمام کیا گیا۔
پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن برطانیہ، (PWA-UK)” ادب برائے زندگی“ کی تحریک کو بحال کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ ملاقات ایک دوسرے کے تجربات اور نقطہ نظر کو سمجھنے اور 21ویں صدی میں بائیں بازو کے چیلنجوں اور نت نئی آپرچیونیٹیز کو تلاش کرنے کا ایک زبردست موقع تھا۔ ایس ایف آئی میں ہندوستان کے تقریباً 48 لاکھ بائیں بازو کے طلبہ ممبران ہیں۔ یہ شاید دنیا کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم ہے۔ حال ہی میں انہوں نے برطانیہ میں اپنی ایک شاخ کھولی ہے۔
اجلاس کی غیر رسمی صدارت پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن برطانیہ، کے ڈائریکٹر، بائیں بازو کے کارکن اور پاکستان میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) کے سابق رہنما نے عاصم علی شاہ نے کی۔ انہوں نے اپنے گھر پر سٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کی برطانوی قیادت کی میزبانی کی۔
شرکاء میں ایس ایف آئی کے نکھل میتھیو، وشال ادے کمار، جِشنو دیو گیڈ فلائی، اور دیگر ممبران شامل تھے۔ دوسری جانب پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن سے عاصم شاہ، اور ثقلین امام، اور افنان خان، فیصل شاہ اور علی مرتضیٰ نے بھی بطور مہمان تبادلہ خیال کی اس نشست میں شرکت کی۔
سیشن شام 6.00 بجے شروع ہوا اور 10.30 بجے ختم ہوا۔ شرکاء نے جنوبی ہندوستان کی تاریخ اور ثقافت سے لے کر وہاں کے لوگوں اور بائیں بازو کی تحریکوں کو درپیش موجودہ مسائل اور چیلنجوں سے لے کر عالمی رجحانات اور ترقی پسند جیسے خیالات تک جو ہم سب کو متاثر کرتے ہیں، جیسے کئی مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔
کیرالہ میں بائیں بازو: ہندوستان اور اس پورے خطے کا ماڈل
ایک اہم موضوع جس پر شرکاء نے تبادلہ خیال کیا وہ کیرالہ میں بائیں بازو کی تحریک کا تسلسل تھا، جو کہ جنوبی ہندوستان کی ایک ایسی ریاست ہے جس پر 1957 کے بعد سے زیادہ تر وقت تک کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) یا CPI(M) کی حکومت رہی ہے۔ سٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کے شرکاء نے اپنے تجربات اور خیالات کا ذکر کیا کہ کس طرح ہندوستان کے دیگر حصوں میں ہندوتوا اور گائے کی حفاظت کے نام پر تشدد کی لہر کے عروج کے باوجود کیرالہ میں بائیاں بازو اپنی مقبولیت اور اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح کیرالہ میں بائیں بازو نے خطے کی مسلم اقلیت کو سماجی اور اقتصادی اشاریوں کے لحاظ سے باقی ہندوستان کے مقابلے بہت بہتر کارکردگی دکھانے میں مدد دی ہے۔
ان کے مطابق اس کامیابی کا راز ریاست میں بائیں بازو کا سیاسی کلچر ہے جس نے تمام شہریوں کو ان کی ذات، رنگ، نسل یا مذہب سے قطع نظر ترقی کے یکساں مواقع فراہم کیے ہیں۔ کیرالہ مسلم اقلیتوں کے ساتھ ساتھ خواتین، دلتوں اور دیگر پسماندہ گروہوں کے لیے ہندوستان کی بہترین ریاست ہونے پر فخر کر سکتی ہے۔
شرکاء نے کیرالہ میں بائیں بازو کی حکومت کی کچھ کامیابیوں اور چیلنجوں پر بھی روشنی ڈالی، جیسے زمینی اصلاحات کا نفاذ، خواندگی اور تعلیم کا فروغ، صحتِ عامّہ اور سماجی تحفظ کی فراہمی، ماحولیات اور انسانی حقوق کا تحفظ، اور COVID-19 وبائی مرض اور اس سے نمٹنے جیسے معاملات۔ انڈیا کے قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) کے مطابق، کیرالہ ہندوستان کی سب سے زیادہ خواندہ ریاست ہے، جہاں شرح خواندگی 96.2 فیصد ہے۔
گفتگو کی اس نشست میں پاکستانی نژاد شرکاء بھی کیرالہ میں بائیں بازو کے بارے میں مزید جاننے کے لیے متجسس تھے، کیونکہ انہوں نے اسے پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے پسماندہ طبقات کی ترقی کے لیے ایک ممکنہ نمونہ کے طور پر دیکھا، جہاں بائیں بازو کئی دہائیوں سے کمزور یا پسماندہ ہے۔
انہوں نے پاکستان اور ہندوستان میں بائیں بازو کی صورت حال اور چیلنجز کا موازنہ بھی کیا ساتھ ساتھ ان میں تضادات پر بھی بات چیت کی اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کے امکانات اور حدود پر بھی گفتگو کی۔
بائیں بازو کی تحریک میں طلبہ اور ادب کا کردار
ایک اور موضوع جس پر شرکاء نے تبادلہ خیال کیا وہ جنوبی ایشیا اور عالمی سطح پر بائیں بازو کی تحریک میں طلباء اور ادب کا کردار تھا۔ ایس ایف آئی برطانیہ کے رہنماؤں اور دانشوروں نے برطانیہ میں رہنے کے دوران جن تجربات اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا انھوں نے اس پر بھی بات چیت کی کہ کس طرح انہیں برطانیہ میں مختلف قسم کے امتیازی سلوک، جبر اور تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے اپنی کامیابیوں اور اقدامات کا بھی ذکر کیا، جیسے کہ احتجاج، مارچز، سیمینارز، ثقافتی تقریبات، اور اشاعتیں، بیداری پیدا کرنے اور بائیں بازو کے مقاصد اور اقدار کے لیے حمایت کو تیز تر کرنے کی کوششیں۔
انہوں نے برطانیہ میں دیگر ترقی پسند اور جمہوری قوتوں جیسے ٹریڈ یونینز، نسل پرستی کے مخالف گروپوں اور ماحولیات کے ماہرین کے ساتھ اپنی شمولیت اور تعاون کے بارے میں بھی بات کی۔ ایس ایف آئی برطانیہ کے ایک چھوٹے ذیلی گروپ (وشال اور ایک اور رکن) نے برطانیہ میں بین الاقوامی طلباء کے لیے کونسلنگ قائم کرنے کے لیے ایک منفرد پہل کی ہے ۔ ان طلبا کو برطانیہ میں رہتے ہوئے کلچرل شاکس انہیں اور نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پروگریسو رائیٹرز ایسوسی ایشن کے شرکاء نے برطانیہ میں ترقی پزیر ممالک سے تعلق رکھنے والے مصنفین، ایکٹوسٹوں اور فنکاروں کے تجربات اور چیلنجز پر بات کی، جہاں انہیں مختلف قسم کی سنسرشپ، پسماندگی اور کموڈیفیکیشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے اپنی کامیابیوں اور جدوجہد کا بھی ذکر کیا، جیسا کہ ادب برائے زندگی زندگی کو فروغ دینا اور شائع کرنا، جو مظلوم اور استحصال زدہ لوگوں کی حقیقتوں اور امنگوں کی عکاسی کرتا ہے، اور یہ ”غالب اور بالادستی“ کے بیانیے اور نظریات کو چیلنج کرتا ہے۔
انہوں نے برطانیہ میں دیگر ترقی پسند اور جمہوری قوتوں، جیسے ایس ایف آئی برطانیہ اور دیگر ترقی پسند ثقافتی اور ادبی تنظیموں کے ساتھ اشتراک اور تعاون کے بارے میں بھی بات کی۔
شرکاء نے جنوبی ایشیا اور عالمی سطح پر بائیں بازو کی تحریک میں طلباء اور ادب کی اہمیت اور صلاحیت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ طلباء اور ادب بائیں بازو کے وژن اور اقدار کے لیے عوام بالخصوص نوجوانوں میں بیداری پیدا کرنے، تعلیم دینے، اور انھیں متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ طلباء اور ادب برائے زندگی کی تحریک نئے زاویوں، کیٹیکل تھنکنگ اور منفرد تجربات کے اشتراک سے رجعت پسند عقیدوں، دقیانوسی تصورات اور تعصبات کو چیلنج کر کے بائیں بازو کے نظریہ اور عمل کے فروغ میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ طلباء اور ادب تنقیدی سوچ، رواداری اور اختلاف رائے کی ثقافت کو فروغ دے سکتے ہیں جو بائیں بازو کی تحریک کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔
اکیسویں صدی میں بائیں بازو کا مستقبل
آخری موضوع جس پر شرکاء نے تبادلہ خیال کیا وہ 21ویں صدی میں بائیں بازو کا مستقبل تھا، ان متعدد بحرانوں اور چیلنجوں کے پیش نظر جن کا انسانیت کو سامنا ہے، جیسے کہ فاشزم، نیو لبرل ازم، سامراجیت، بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا عروج۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی، وبائی امراض، غربت، صنفی تفاوت، عدم مساوات اور جنگ کے خطرات جیسے موضوعات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔
شرکاء نے 21ویں صدی میں بائیں بازو کی تحریک کے لیے لاحق خطرات پر اپنے خدشات اور تشویش کا اظہار کیا بلکہ ان کو فروغ دینے کی امیدوں اور خوابوں کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے ماضی اور حال میں بائیں بازو کی تحریک کی طاقتوں اور کمزوریوں، مواقع اور خطرات اور کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ بھی کیا اور مستقبل میں بائیں بازو کی تحریک کے امکانات اور حکمت عملیوں کا جائزہ لیا۔
شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ 21ویں صدی میں بائیں بازو کی تحریک کو عالمی، جمہوری، جامع، متنوع اور تخلیقی ہونا چاہیے، تاکہ وہ لوگوں اور کرۂ ارض کے پیچیدہ اور باہم جڑے ہوئے مسائل اور مطالبات کو حل کرنے کے قابل ہو۔
انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ 21ویں صدی میں بائیں بازو کی تحریک کو سوشلزم، انسان دوستی، بین الاقوامیت اور طبقاتی یکجہتی کے اصولوں اور اقدار پر مبنی ہونا چاہیے، تاکہ موجودہ سرمایہ داری، جبر اور استحصال کے موجودہ نظام کا ایک قابل عمل اور مطلوبہ متبادل پیش کیا جا سکے۔
انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ 21ویں صدی میں بائیں بازو کی تحریک کو متحد اور مربوط ہونا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ لچکدار اور موافقت پذیر بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ بدلتی ہوئی دنیا اور مشکل حالات اور سیاق و سباق کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو۔ تمام معاشروں میں بائیں بازو کی صورت میں جنوب میں ترقی اور امن کو اپنے مقصد کے مطابق برقرار رکھنے کی کوششیں جاری رہ سکیں۔
شرکاء نے امید اور جوش کے احساس کے ساتھ میٹنگ کا اختتام کیا، کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ 21ویں صدی میں بائیں بازو کی تحریک میں بہت زیادہ صلاحیت ہے، اور اس کو حقیقت بنانے کے لیے ان کے پاس بہت زیادہ توانائی ہے کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری بھی ہے۔
تجربات اور نقطہ نظر کا تبادلہ
سٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا کی قیادت نے ہمارے (یعنی پاکستانی شرکاء) کے سوالات اور تبصروں کو توجہ اور احترام سے سنا، اور سوچ سمجھ کر اور تعمیری تاثرات کے ساتھ جواب دیا۔ مثال کے طور پر، ایس ایف آئی برطانیہ کے ایک رکن نے ہمیں مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے عروج اور زوال کی وجوہات کا بصیرت انگیز جائزہ دیا۔ جِشنو دیو گاڈفلائی نے ہندوستان میں بائیں بازو کے لوگوں کی حالت کا ایک مختصر خلاصہ بھی پیش کیا۔
انہوں نے ہم سے ہمارے پس منظر اور دلچسپیوں کے بارے میں بھی پوچھا، اور ہماری رائے اور تجربات کے لیے حقیقی تجسس اور تعریف کا اظہار کیا۔ ہم نے انہیں پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے عروج، اس کی تاریخ اور موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا۔
بھارت کو مذہبی جنونیت کے عروج کی صورت میں اجس خطرے کا اب سامنا ہے، پاکستان اس کا سامنا بہت پہلے کر چکا تھا۔ پاکستان نے 1980 کی دہائی سے لے کر اب تک مذہب کے نام پر 80,000 سے زیادہ لوگوں کی موت کا سامنا کیا، جس کا الزام ہم آسانی سے بھارت یا کسی دوسرے ملک کے زیر انتظام ’دہشت گردی‘ پر لگاتے ہیں، لیکن پچھلی دہائیوں میں انتہا پسندی کو پالیسی ٹول اور ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی اپنی غلطیوں پر بات نہیں کرتے ہیں۔
ہم نے ایس ایف آئی برطانیہ کے طلباء رہنماؤں سے نہ صرف حقائق اور اعداد و شمار کے بارے میں بلکہ ان اقدار اور اصولوں کے بارے میں بھی بہت کچھ سیکھا جو ان کے ایکٹوزم اور فیصلوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان کے مستقبل کے بارے میں ان کا ویژن متاثر کن تھا، اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی ہمت اور معاملہ فہمی قابل تعریف تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیں ان سے معلوم ہوا کہ ماضی میں ہندوستانی بائیں بازو نے اپنے تمام اراکین کے لیے شراب پر پابندی لگا دی تھی۔ اب یہ برداشت کی جاتی ہے لیکن اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ اب بھی شراب نہیں پیتے ہیں۔
ایس ایف آئی برطانیہ کے رہنماؤں نے ہمارے ساتھ اپنی کامیابی اور ناکامی، امید اور مایوسی کی کہانیاں شیئر کیں۔ انہوں نے ہمارے ساتھ اپنے منصوبے اور خوابوں کے ساتھ ساتھ اپنے خوف اور شکوک و شبہات بھی کا بھی اظہار کیا۔ مثال کے طور پر، ایک شریک نے ہماری جانب سے ان کی جدوجہد کی تعریف کرنے کے جواب میں کہا "آپ کے الفاظ ہمارے لیے حوصلہ افزائی ہیں کہ ہم جو کام کر رہے ہیں اسے جاری رکھیں۔ ایس ایف آئی کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس کے طور پر، ہمیں وقتاً فوقتاً بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے…اور ایسی مشکلات کے پیش نظر آپ کے (تعریفی) الفاظ ہمارے لیے حوصلہ افزائی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔”
اس موقع پر موجود پاکستانی نژاد کامریڈز نے ان کے ساتھ ایک مضبوط تعلق اور یکجہتی محسوس کی، کیونکہ ہم نے ایک مشترکہ مقصد اور پسماندہ عوام کے لیے امن اور آزادی کے لیے مشترکہ جدوجہد پر بھی اظہارِ خیال کیا۔
انہوں نے ماحولیات اور صنفی مساوات کی شکل میں ترقی پسند تحریکوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہمارے خطے اور پوری دنیا میں ابھرنے والی ایک نئی حقیقت اور ایک نئی صلاحیت کے بارے میں بھی بات کی۔ ہم نے اس بارے میں بات کی کہ کس طرح تنقیدی اور تخلیقی طور پر سوچنا انتہائی ضروری ہے، تاکہ ہم نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے اجتماعی مقصد کو آگے بڑھا سکیں، اور کس طرح دلیری اور ذمہ داری سے کام کریں۔
مستقبل کا تعاون اور یکجہتی
ہم نے چلی کے صدر گیبریل بورک پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے جنوبی امریکہ میں بائیں بازو کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا۔ صدر بورک نے طلباء کے مسائل جیسے فیس اور طبقاتی تعلیمی معیار جیسے معاملات پر مہم چلا کر صدارت حاصل کی۔ کیا پاکستان میں طلبہ کی فعالیت سے ایسا ہی کوئی لیڈر ابھر سکتا ہے؟ فی الحال اس سوال کا جواب یقینی طور پر نہیں دیا جا سکتا ہے، کیونکہ صدر بورک نے نہ ہارورڈ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی گھی اور نہ ہی آکسبرج سے۔ انھوں نے ہی ملک کی عام یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔
اس موقع پر ایس ایف آئی برطانیہ اور پی ڈبلیو اے برطانیہ کے درمیان مستقبل کے تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ہم نے اپنی دوستی اور تعاون کو جاری رکھنے اور گہرا کرنے اور 21ویں صدی میں بائیں بازو کی تحریک کے مشترکہ مقصد کے حامل کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
اس میٹنگ کے اختتام پر تمام شرکاء زیادہ پرتوانا اور روشن خیال ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو زیادہ بااختیار محسوس کر رہے تھے۔ ایسے متاثر کن نوجوان لیڈروں کے ایک گروپ سے ملاقات کے بعد، میں نے انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے درج ذیل باتیں لکھیں:
تم اندھیروں میں روشنی ہو،
بے آوازوں کی آواز ہو،
نا اُمیدوں کی امید ہو۔
آپ تبدیلی کے رہنما،
ناانصافی کے جنگجو،
حق کے متلاشی ہیں۔
آپ کمال کی علامات ہیں،
علم کے اُستاد ہیں،
زندگی کے سیکھنے والے ہیں،
آپ انسانیت کے دوست،
آپ احسان کرنے والے،
ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
دُعا ہے کہ آپ جو ہیں وہی رہیں
اور جو کچھ آپ کرتے ہیں
وہی کرتے رہیں۔
یہ نظم ہماری ملاقات کے نچوڑ کو پیش کرتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری میٹنگ جنوبی ایشیا اور اس سے باہر بائیں بازو کی قوتوں کے درمیان اس طرح کے مزید تبادلوں اور تعاون کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 21ویں صدی میں بائیں بازو کی تحریک کے فروغ کے بے انتہا امکانات ہیں، اور اس میں بائیں بازو کے خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے ہمارے پاس بہت زیادہ توانائی ہے کیونکہ یہ ہم سب کی ایک بڑی ذمہ داری بھی ہے، جیسا کہ ورلڈ سوشل فورم کا یہ مشہور نعرہ بھی کہتا ہے:
"ایک اور دنیا ممکن ہے، دوسری دنیا ضروری ہے، دوسری دنیا یہاں ہے”۔
—♦—
ثقلین امام برطانیہ کے شہر لندن میں مقیم صحافی ہیں۔ آپ سیاسی و سماجی مسائل پر اکثر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT