• Latest

منیرؔ اس ملک پرآسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے … کہ حـرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

دسمبر 25, 2023

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
منگل, جون 24, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home مضامین

منیرؔ اس ملک پرآسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے … کہ حـرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

منیر نیازی کی سترہویں برسی کی مناسبت سے سینئر صحافی و ادیب اسلم ملک کی خصوصی تحریر۔

للکار نیوز by للکار نیوز
دسمبر 25, 2023
in فنون و ادب, مضامین
A A
0
منیر نیازی 9 اپریل 1928 کو مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے قصبے خان پور میں پیدا ہوئے تھے.قیام پاکستان پر خاندان کے ساتھ منٹگمری(اب ساہیوال) آگئے. میٹرک وہیں سے کیا. انٹر میڈیٹ بہاولپور کے صادق ایجرٹن کالج سے اور بی اے دیال سنگھ کالج لاہور سے کیا. نوعمری میں شاعری شروع کردی تھی. 1949 میں منٹگمری سےایک رسالہ "سات رنگ” بھی نکالا تھا.بعد میں اخبارات و جرائد ریڈیو اور فلم کیلئے بہت کچھ لکھا.26 دسمبر 2006ء کو لاہور میں وفات پائی.

ان کی اردو اور پنجابی شاعری کے مجموعےاس بے وفا کا شہر‘ تیز ہوا اور تنہا پھول‘ جنگل میں دھنک‘ دشمنوں کے درمیان شام‘ سفید دن کی ہوا‘آغاز زمستاں میں دوبارہ، سیاہ شب کا سمندر‘ ماہ منیر‘ چھ رنگین دروازے‘ ساعت سیار، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، چار چپ چیزاں‘ رستہ دسن والے تارے اور سفردی رات کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔
منیر نیازی نےمتعدد فلموں کے نغمات بھی تحریر کئے جو بے حد مقبول ہوئے۔1962 میں بننے والی فلم شہیدکے” اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو” سے بہت شہرت ملی. پھر جس نے میرے دل کو درد دیا، کیسے کیسے لوگ میرے دل کو جلانے آجاتے ہیں، زندہ رہیں تو کیا ہےجو مرجائیں ہم تو کیا… بہت مقبول ہوئے.

منیر نیازی نے حنیف رامے کے زیر ادارت ’نصرت‘ رسالے میں فروری 1961 سے اپریل 1964 تک وقفے وقفے سے منوچہر کے قلمی نام سے ادبی کالم لکھے جو دو کتابوں میں محفوظ ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر صدف بخاری نے انھیں ’باب گزری صحبتوں کا ‘کے عنوان سے کتابی صورت میں ترتیب دیا (2014)۔ڈاکٹر سمیرا اعجاز کی مرتب کردہ ’’کلیاتِ نثرِ منیر نیازی‘‘میں بھی یہ کالم شامل ہیں(2017)۔

حکومت پاکستان نے منیر نیازی کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔
منیر نیازی کے کچھ اشعار
چاہتا ہوں میں منیرؔ اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
منیرؔ اس ملک پرآسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حـرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آگئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
اپنے گھروں سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا
اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہو گیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہو گیا
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چاند چڑھتا دیکھنا بے حد سمندر پر منیرؔ
دیکھنا پھر بحر کو اس کی کشش سے جاگتا
دشت باراں کی ہوا سے پھر ہرا سا ہو گیا
میں فقط خوشبو سے اس کی تازہ دم سا ہو گیا
دل کی خلش تو ساتھہ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا
ایک وارث ہمیشہ ہوتا ہے
تخت خالی رہا نہیں کرتا
غیر سے نفرت جو پالی خرچ خود پر ہو گئی
جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کر لیا
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا
جی خوش ہوا ہے گرتے مکانوں کو دیکھہ کر
یہ شہر خوف خود سے جگر چاک تو ہوا
خوشبو کی دیوار کے پیچھے کیسے کیسے رنگ جمے ہیں
جب تک دن کا سورج آئے اس کا کھوج لگاتے رہنا
خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت
شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا
رویا تھا کون کون مجھے کچھ خبر نہیں
میں اس گھڑی وطن سے کئی میل دور تھا
شہر کی گلیوں میں گہری تیرگی گریاں رہی
رات بادل اس طرح آئے کہ میں تو ڈر گیا
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیرؔ
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
تھا منیرؔ آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا
تم میرے لیے اتنے پریشان سے کیوں ہو
میں ڈوب بھی جاتا تو کہیں اور ابھرتا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا
اٹھا تو جا بھی چکا تھا عجیب مہماں تھا
صدائیں دے کے مجھے نیند سے جگا بھی گیا
زوال عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں
کھلا نہیں کوئی در باب التجا کے سوا
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
—♦—
اسلم ملک سینئر صحافی ہیں، آپ 1977 تا 1991 تک مؤقر ترقی پسند اخبار روزنامہ اِمروز، اور 1992 تا 2022 تک روزنامہ جنگ سے وابستہ رہے ہیں۔ آپ لاہور پریس کلب کے لائف ممبرہیں اور گہری علمی و ادبی شخصیت ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
منیر نیازی 9 اپریل 1928 کو مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے قصبے خان پور میں پیدا ہوئے تھے.قیام پاکستان پر خاندان کے ساتھ منٹگمری(اب ساہیوال) آگئے. میٹرک وہیں سے کیا. انٹر میڈیٹ بہاولپور کے صادق ایجرٹن کالج سے اور بی اے دیال سنگھ کالج لاہور سے کیا. نوعمری میں شاعری شروع کردی تھی. 1949 میں منٹگمری سےایک رسالہ "سات رنگ” بھی نکالا تھا.بعد میں اخبارات و جرائد ریڈیو اور فلم کیلئے بہت کچھ لکھا.26 دسمبر 2006ء کو لاہور میں وفات پائی.

ان کی اردو اور پنجابی شاعری کے مجموعےاس بے وفا کا شہر‘ تیز ہوا اور تنہا پھول‘ جنگل میں دھنک‘ دشمنوں کے درمیان شام‘ سفید دن کی ہوا‘آغاز زمستاں میں دوبارہ، سیاہ شب کا سمندر‘ ماہ منیر‘ چھ رنگین دروازے‘ ساعت سیار، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی، چار چپ چیزاں‘ رستہ دسن والے تارے اور سفردی رات کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔
منیر نیازی نےمتعدد فلموں کے نغمات بھی تحریر کئے جو بے حد مقبول ہوئے۔1962 میں بننے والی فلم شہیدکے” اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو” سے بہت شہرت ملی. پھر جس نے میرے دل کو درد دیا، کیسے کیسے لوگ میرے دل کو جلانے آجاتے ہیں، زندہ رہیں تو کیا ہےجو مرجائیں ہم تو کیا… بہت مقبول ہوئے.

منیر نیازی نے حنیف رامے کے زیر ادارت ’نصرت‘ رسالے میں فروری 1961 سے اپریل 1964 تک وقفے وقفے سے منوچہر کے قلمی نام سے ادبی کالم لکھے جو دو کتابوں میں محفوظ ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر صدف بخاری نے انھیں ’باب گزری صحبتوں کا ‘کے عنوان سے کتابی صورت میں ترتیب دیا (2014)۔ڈاکٹر سمیرا اعجاز کی مرتب کردہ ’’کلیاتِ نثرِ منیر نیازی‘‘میں بھی یہ کالم شامل ہیں(2017)۔

حکومت پاکستان نے منیر نیازی کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔
منیر نیازی کے کچھ اشعار
چاہتا ہوں میں منیرؔ اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
منیرؔ اس ملک پرآسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حـرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آگئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
اپنے گھروں سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا
اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہو گیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہو گیا
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چاند چڑھتا دیکھنا بے حد سمندر پر منیرؔ
دیکھنا پھر بحر کو اس کی کشش سے جاگتا
دشت باراں کی ہوا سے پھر ہرا سا ہو گیا
میں فقط خوشبو سے اس کی تازہ دم سا ہو گیا
دل کی خلش تو ساتھہ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا
ایک وارث ہمیشہ ہوتا ہے
تخت خالی رہا نہیں کرتا
غیر سے نفرت جو پالی خرچ خود پر ہو گئی
جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کر لیا
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا
جی خوش ہوا ہے گرتے مکانوں کو دیکھہ کر
یہ شہر خوف خود سے جگر چاک تو ہوا
خوشبو کی دیوار کے پیچھے کیسے کیسے رنگ جمے ہیں
جب تک دن کا سورج آئے اس کا کھوج لگاتے رہنا
خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت
شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا
رویا تھا کون کون مجھے کچھ خبر نہیں
میں اس گھڑی وطن سے کئی میل دور تھا
شہر کی گلیوں میں گہری تیرگی گریاں رہی
رات بادل اس طرح آئے کہ میں تو ڈر گیا
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیرؔ
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
تھا منیرؔ آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا
تم میرے لیے اتنے پریشان سے کیوں ہو
میں ڈوب بھی جاتا تو کہیں اور ابھرتا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا
اٹھا تو جا بھی چکا تھا عجیب مہماں تھا
صدائیں دے کے مجھے نیند سے جگا بھی گیا
زوال عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں
کھلا نہیں کوئی در باب التجا کے سوا
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
—♦—
اسلم ملک سینئر صحافی ہیں، آپ 1977 تا 1991 تک مؤقر ترقی پسند اخبار روزنامہ اِمروز، اور 1992 تا 2022 تک روزنامہ جنگ سے وابستہ رہے ہیں۔ آپ لاہور پریس کلب کے لائف ممبرہیں اور گہری علمی و ادبی شخصیت ہیں۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Tags: Trump Inauguration
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

by للکار نیوز
اپریل 6, 2025
0
0

اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر...

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

by للکار نیوز
ستمبر 27, 2024
0
0

پانچ دہائیوں تک ہندوستان کی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برِصغیر کے نامور مارکسی مفکر، انقلابی تحریکوں...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

کالے کوئلے کو سفید بنانے والی ”دانائی“ اور ماحولیاتی سوال! – تحریر:بخشل تھلہو

by للکار نیوز
ستمبر 8, 2024
0
0

اس اگست کی دو تاریخ کو نصیر میمن صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ کی، جس میں...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.