فضائی آلودگی میں دن بدن اضافہ بڑھتا ہی جا رہا ہے بلکل ایسے ہی جیسے مہنگائی میں اضافہ ۔ جونہی موسم سرما کی آمد ہوئی سموگ بھی ایسے ہی وارد ہوئی جیسے یہ اسی انتظار میں ہو کہ کب موسم سرما ائے اور میں لوگوں کی صحت پر اثرانداز ہوں ۔
بہر حال سموگ انسانی زندگی کے لئے انتہائی مضر ثابت ہو رہی لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی مناسب انتظامات نہیں ہو رہے اور لوگ اس سموگ کی لپیٹ میں ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت ہی کچھ نا کچھ بچاؤ کی تدابیر اختیار کئے ہوئے ہیں اس کے باوجود بھی اس وقت بھی کئی ہسپتالوں میں سموگ کے مریض زیر علاج ہیں۔
سموگ دراصل فضائی آلودگی ہے جو ہوا میں موجود مضر صحت گیسوں اور کاربن کے اخراج اور ہوا میں موجود مٹی کے ذرات کے ملاپ سے بنتی ہے۔
’دراصل جب دھواں اور درجہ حرارت کم ہونے کے باعث بننے والی دھند (فوگ) آپس میں ملتے ہیں تو یہ سموگ بناتے ہیں۔ اسے ’فوٹو کیمیکل سموگ‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب نائٹروجن آکسائیڈز جیسے دیگر زہریلے ذرات سورج کی روشنی سے مل کر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔‘
اس قسم کے چھوٹے کیمیائی اجزا سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر صحت کے مسائل پیدا کرتے ہیں اور بعض ذرات اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ آپ کی رگوں میں دوڑتے خون میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔
جس سے مختلف قسم کی بیماریاں جیسےنزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جبکہ سموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپڑوں کا خراب ہونا یا کینسر وغیرہ ۔ سموگ سے ویسے تو ہر عمر کے لوگ متاثر ہوتے لیکن ڈاکٹروں کے مطابق زیادہ تر بچے اور بوڑھے افراد سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔
سموگ پنجاب کے مختلف شہروں میں اپنے عروج پر جس میں لاہور پہلے نمبر پر ہے ۔ اس ماہ لاہور شہر کی ہوا کا میعار کئی مرتبہ 300 سے 500 کے درمیان رہ چکا ہے جو ہر عمر کے شخص کی صحت کے لیے خطرناک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سموگ کے باعث لاہوریوں کی اوسط عمر میں سالانہ 7 سال کی کمی ہورہی ہے، جو کہ انتہائی افسوس ناک ہے ۔
ایک اور ریسرچ کے مطابق دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست لاہور اس وقت شدید سموگ کی لپیٹ میں ہے، لاہور نے سابقہ سالوں کی طرح اس سال بھی سب سے زیادہ آلودہ شہر ہونے کا ریکارڈ مستقل طور پر برقرار رکھا ہے۔
اس حوالے سے یونیورسٹی آف شکاگو کی جانب سے شائع کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ لاہور کے لوگوں کی اوسط عمر کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔ اسموگ کے نتیجے میں یہاں کے باشندوں کی اوسط سالانہ عمر میں 6 سے 7 سال کی کمی ہو رہی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ لاہور میں رہنے والے بچوں کے لیے موجودہ صورتحال میں باہر نکلنا ایک دن میں 30 سگریٹ پینے کے برابر ہے۔ لاہور میں ائیر کوالٹی انڈیکس 445 ریکارڈ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں آلودہ ترین شہروں میں کراچی دوسرے اور پشاور تیسرے نمبر پر موجود ہے.
محکمہ ماحولیات کے مطابق ایئر کوالٹی انڈیکس 200 کو نارمل سمجھا جاتا ہے جو آنکھوں میں جلن کا باعث بنتی ہے جبکہ اگر اے کیو آئی 400 سے 500 کی سطح تک پہنچ جائے تو اسے انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
اس ساری صورت حال سے نکلنے کے لئے تاحال کوئی ٹھوس حکومتی پالیسی سامنے نہیں آ سکی۔ ایڈہاک بنیادوں پر کبھی سافٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے اور کبھی جزوی طور پر کاربن خارج کرنے والی فیکٹریوں ،کارخانوں اور ٹرانسپورٹ کی بندش کر کے نکالا جاتا ہے۔ جس سے وقتی طور پر تو صورت حال کسی حد تک کنٹرول میں آتی ہے مگر مستقل بنیادوں پر اس کے حل کا نہ تو سوچا گیا ہے اور نہ ہی کسی طرح کے عملی اقدامات کیے جا سکے ہیں۔
—♦—
سفینہ حسن سماجی، سیاسی اور عوامی مسائل پر لکھتی رہتی ہیں، ان کا تعلق لاہور سے ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی مزدور تحریک اور ترقی پسند سیاست سے بھی منسلک ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
فضائی آلودگی میں دن بدن اضافہ بڑھتا ہی جا رہا ہے بلکل ایسے ہی جیسے مہنگائی میں اضافہ ۔ جونہی موسم سرما کی آمد ہوئی سموگ بھی ایسے ہی وارد ہوئی جیسے یہ اسی انتظار میں ہو کہ کب موسم سرما ائے اور میں لوگوں کی صحت پر اثرانداز ہوں ۔
بہر حال سموگ انسانی زندگی کے لئے انتہائی مضر ثابت ہو رہی لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی مناسب انتظامات نہیں ہو رہے اور لوگ اس سموگ کی لپیٹ میں ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت ہی کچھ نا کچھ بچاؤ کی تدابیر اختیار کئے ہوئے ہیں اس کے باوجود بھی اس وقت بھی کئی ہسپتالوں میں سموگ کے مریض زیر علاج ہیں۔
سموگ دراصل فضائی آلودگی ہے جو ہوا میں موجود مضر صحت گیسوں اور کاربن کے اخراج اور ہوا میں موجود مٹی کے ذرات کے ملاپ سے بنتی ہے۔
’دراصل جب دھواں اور درجہ حرارت کم ہونے کے باعث بننے والی دھند (فوگ) آپس میں ملتے ہیں تو یہ سموگ بناتے ہیں۔ اسے ’فوٹو کیمیکل سموگ‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب نائٹروجن آکسائیڈز جیسے دیگر زہریلے ذرات سورج کی روشنی سے مل کر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔‘
اس قسم کے چھوٹے کیمیائی اجزا سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر صحت کے مسائل پیدا کرتے ہیں اور بعض ذرات اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ آپ کی رگوں میں دوڑتے خون میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔
جس سے مختلف قسم کی بیماریاں جیسےنزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جبکہ سموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپڑوں کا خراب ہونا یا کینسر وغیرہ ۔ سموگ سے ویسے تو ہر عمر کے لوگ متاثر ہوتے لیکن ڈاکٹروں کے مطابق زیادہ تر بچے اور بوڑھے افراد سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔
سموگ پنجاب کے مختلف شہروں میں اپنے عروج پر جس میں لاہور پہلے نمبر پر ہے ۔ اس ماہ لاہور شہر کی ہوا کا میعار کئی مرتبہ 300 سے 500 کے درمیان رہ چکا ہے جو ہر عمر کے شخص کی صحت کے لیے خطرناک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سموگ کے باعث لاہوریوں کی اوسط عمر میں سالانہ 7 سال کی کمی ہورہی ہے، جو کہ انتہائی افسوس ناک ہے ۔
ایک اور ریسرچ کے مطابق دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست لاہور اس وقت شدید سموگ کی لپیٹ میں ہے، لاہور نے سابقہ سالوں کی طرح اس سال بھی سب سے زیادہ آلودہ شہر ہونے کا ریکارڈ مستقل طور پر برقرار رکھا ہے۔
اس حوالے سے یونیورسٹی آف شکاگو کی جانب سے شائع کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ لاہور کے لوگوں کی اوسط عمر کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔ اسموگ کے نتیجے میں یہاں کے باشندوں کی اوسط سالانہ عمر میں 6 سے 7 سال کی کمی ہو رہی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ لاہور میں رہنے والے بچوں کے لیے موجودہ صورتحال میں باہر نکلنا ایک دن میں 30 سگریٹ پینے کے برابر ہے۔ لاہور میں ائیر کوالٹی انڈیکس 445 ریکارڈ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں آلودہ ترین شہروں میں کراچی دوسرے اور پشاور تیسرے نمبر پر موجود ہے.
محکمہ ماحولیات کے مطابق ایئر کوالٹی انڈیکس 200 کو نارمل سمجھا جاتا ہے جو آنکھوں میں جلن کا باعث بنتی ہے جبکہ اگر اے کیو آئی 400 سے 500 کی سطح تک پہنچ جائے تو اسے انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
اس ساری صورت حال سے نکلنے کے لئے تاحال کوئی ٹھوس حکومتی پالیسی سامنے نہیں آ سکی۔ ایڈہاک بنیادوں پر کبھی سافٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے اور کبھی جزوی طور پر کاربن خارج کرنے والی فیکٹریوں ،کارخانوں اور ٹرانسپورٹ کی بندش کر کے نکالا جاتا ہے۔ جس سے وقتی طور پر تو صورت حال کسی حد تک کنٹرول میں آتی ہے مگر مستقل بنیادوں پر اس کے حل کا نہ تو سوچا گیا ہے اور نہ ہی کسی طرح کے عملی اقدامات کیے جا سکے ہیں۔
—♦—
سفینہ حسن سماجی، سیاسی اور عوامی مسائل پر لکھتی رہتی ہیں، ان کا تعلق لاہور سے ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی مزدور تحریک اور ترقی پسند سیاست سے بھی منسلک ہیں۔