طبقاتی تفریق سے بھرپور پاکستان ایک ایسا خطہ ارض ہے جہاں امیر،امیر سے امیر تر اورغریب، غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے ۔ حکمران طبقہ جو اس ملک کے وسائل ، ریاست اور سیاست سب پر قابض ہے ، روز اول سے ہی غربیوں پر بھاری ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر خود عیاشیوں میں مصروف ہے۔ جس کی وجہ سے ملک بھر میں غریب کی زندگی کو آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع گروی رکھ دیا گیا ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے لئے گئے بین الاقوامی قرضہ جات کی وجہ سے پاکستان کا غریب آدمی آج چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا ہے، اور اس کا کوئی بھی پرسانِ حال نہیں ۔جبکہ حکمران طبقے کی عیاشیاں اور مفت خوریا ں اُسی شدو مد سے جاری ہیں جیسے کہ پیچھے 76 سالوں سے چلی آ رہی ہیں۔
آجکل اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے نہیں بلکہ ساتویں آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں اور نا ہی کوئی قانون ہے۔جس کے تحت اس ملک کو بہتر طریقے سے چلایا جائے ۔ عوامی مفاد میں اگرکبھی چند قوانین عوامی دباؤ کے نتیجے میں بن بھی گئے تھے تو آج تک ان کا اطلاق ایک سوالیہ نشان ہے۔ گران فروشی اورسرمایہ داروں کی کارٹیلائزیشن معمول بن چکے ہیں۔ سب کے سب جیسے عوام کا خون نچوڑنے کے لئے متحد ہیں۔
لیکن افسوس جہاں قانون سرمایہ دار کے گھر کی لونڈی ہو وہاں انصاف ٹکوں پہ بکنا کوئی بڑی بات نہیں ۔ کچھ ایسا ہی ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے ۔غریب پہلے تو ڈر اور خوف کی بنا پر عدالت سے اس لئے رجوع نہیں کرتا کہ اس کے پاس وکیل کا پیٹ بھرنے کے لئے پیسہ نہیں ہوتا اور اگر کوئی رو دھو کر وکیل سے رجوع کر کے اپنا کیس عدالت میں پیش کرتا ہے تو عدالت اسے ناکوں چنے چبواتی ہے اور تاریخ پر تاریخ ڈالتی رہتی ہے جس کی وجہ سے کئی کئی سال بندہ وکیل کچہری کے چکر سے تنگ آ جاتا ہے ۔یہ وہ خوف ہے جو پسماندہ طبقات کو سرمایہ دار کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے اور اصل میں یہی تو سرمایہ دار چاہتا ہے اور جب وہ دیکھتا ہے کہ غریب طبقہ اس کے خوف مبتلا ہو گیا ہے تو وہ اس کے استحصال اور آہستہ آہستہ ظلم میں ایسے اضافہ کرتے چلا جاتا ہے کہ کسی کو خبر تک نہیں ہوتی ۔اس کی زندہ مثال موجودہ صورت حال ہے ۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب پہلی بار پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر کوئی ردِ عمل نہیں آیا تو حکومت نے اس میں مزید اضافہ کیا اور پھر کوئی ہلچل نہ ہوئی، جس کی بنا پر حکومت کی موجیں لگ گئیں پھر کیا اب ہر روز اضافہ ہو رہا ہے اور کسی کو کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا ۔کیونکہ غریب بندہ جائے تو کہاں جائے اگر عدالت جائے گا تو جج صاحب خود پٹرول فری لے رہا ہے تو وہ کسی بھی صورت اس کیس کو حل نہیں کرے گا ۔ اور اپر کلاس ایسا کیس عدالت میں کبھی لے کر نہیں جائے گی۔ کیونکہ اسے تو پہلے ہی پٹرول کسی نا کسی مد میں فری مل جاتا ہے ۔
طبقاتی نظام میں یہاں صرف پٹرول ہی میں نہیں بلکہ ہر چیز میں یہ تقسیم ڈال دی گئی ہے ۔( پٹرول کو میں نے اس لئے ہائی لائٹ کیا کیونکہ جب پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو ہر چیز میں یہ کہہ کر دو گنا زیادہ اضافہ کر دیا جاتا ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھ گئی ہے ۔)
یہ جو پچھلے 76 سالوں سے طبقاتی نظام چل رہا ہے اب اس کو ختم ہونا چاہیے ۔ اور یہ ختم اسی صورت میں ہو گا جب نچلے طبقے میں شعور کا فقدان ختم ہو گا اور اس بات کا شعور آئے گا کہ ہم کسی کے غلام نہیں ہم ہر چیز پہ ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔اور حکومت ہم سے جو ٹیکس لیتی ہے اس کا استعمال کہاں کہاں کرتی ہے ۔ کیا وہ ٹیکس عوام کی فلاح وبہبود کے لئے استعمال ہو رہا ہے یا اشرافیہ اس ٹیکس کو اپنی عیاشیوں کی نظر کر رہے ہیں ۔
جب تک عوام میں اس بات کا شعور نہیں آتا غریب، غریب سے غریب تر ہوتا چلا جائے گا اور امیر، امیر سے امیر تر ہوتا رہے گا ۔عوام کو اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا ہو گا کہ ہمیں اپنے حق کے لئے ملکی قوانین کو کیسے نافذ کروانا ہے ۔جب تک طبقات سے بالاتر ہو کر قوانین کا نفاذ عمل میں نہیں لایا جاتا اس وقت تک یہ سب نہیں بدلے گا ۔ لہٰذا سوچ کو بدلو تو نظام بدلے گا ۔نظام بدلے گا تو انسان کی تقدیر بدلے گی !
—♦—
سفینہ حسن سماجی، سیاسی اور عوامی مسائل پر لکھتی رہتی ہیں، ان کا تعلق لاہور سے ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی مزدور تحریک اور ترقی پسند سیاست سے بھی منسلک ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
طبقاتی تفریق سے بھرپور پاکستان ایک ایسا خطہ ارض ہے جہاں امیر،امیر سے امیر تر اورغریب، غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے ۔ حکمران طبقہ جو اس ملک کے وسائل ، ریاست اور سیاست سب پر قابض ہے ، روز اول سے ہی غربیوں پر بھاری ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر خود عیاشیوں میں مصروف ہے۔ جس کی وجہ سے ملک بھر میں غریب کی زندگی کو آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع گروی رکھ دیا گیا ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے لئے گئے بین الاقوامی قرضہ جات کی وجہ سے پاکستان کا غریب آدمی آج چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا ہے، اور اس کا کوئی بھی پرسانِ حال نہیں ۔جبکہ حکمران طبقے کی عیاشیاں اور مفت خوریا ں اُسی شدو مد سے جاری ہیں جیسے کہ پیچھے 76 سالوں سے چلی آ رہی ہیں۔
آجکل اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے نہیں بلکہ ساتویں آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں اور نا ہی کوئی قانون ہے۔جس کے تحت اس ملک کو بہتر طریقے سے چلایا جائے ۔ عوامی مفاد میں اگرکبھی چند قوانین عوامی دباؤ کے نتیجے میں بن بھی گئے تھے تو آج تک ان کا اطلاق ایک سوالیہ نشان ہے۔ گران فروشی اورسرمایہ داروں کی کارٹیلائزیشن معمول بن چکے ہیں۔ سب کے سب جیسے عوام کا خون نچوڑنے کے لئے متحد ہیں۔
لیکن افسوس جہاں قانون سرمایہ دار کے گھر کی لونڈی ہو وہاں انصاف ٹکوں پہ بکنا کوئی بڑی بات نہیں ۔ کچھ ایسا ہی ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے ۔غریب پہلے تو ڈر اور خوف کی بنا پر عدالت سے اس لئے رجوع نہیں کرتا کہ اس کے پاس وکیل کا پیٹ بھرنے کے لئے پیسہ نہیں ہوتا اور اگر کوئی رو دھو کر وکیل سے رجوع کر کے اپنا کیس عدالت میں پیش کرتا ہے تو عدالت اسے ناکوں چنے چبواتی ہے اور تاریخ پر تاریخ ڈالتی رہتی ہے جس کی وجہ سے کئی کئی سال بندہ وکیل کچہری کے چکر سے تنگ آ جاتا ہے ۔یہ وہ خوف ہے جو پسماندہ طبقات کو سرمایہ دار کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے اور اصل میں یہی تو سرمایہ دار چاہتا ہے اور جب وہ دیکھتا ہے کہ غریب طبقہ اس کے خوف مبتلا ہو گیا ہے تو وہ اس کے استحصال اور آہستہ آہستہ ظلم میں ایسے اضافہ کرتے چلا جاتا ہے کہ کسی کو خبر تک نہیں ہوتی ۔اس کی زندہ مثال موجودہ صورت حال ہے ۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب پہلی بار پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر کوئی ردِ عمل نہیں آیا تو حکومت نے اس میں مزید اضافہ کیا اور پھر کوئی ہلچل نہ ہوئی، جس کی بنا پر حکومت کی موجیں لگ گئیں پھر کیا اب ہر روز اضافہ ہو رہا ہے اور کسی کو کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا ۔کیونکہ غریب بندہ جائے تو کہاں جائے اگر عدالت جائے گا تو جج صاحب خود پٹرول فری لے رہا ہے تو وہ کسی بھی صورت اس کیس کو حل نہیں کرے گا ۔ اور اپر کلاس ایسا کیس عدالت میں کبھی لے کر نہیں جائے گی۔ کیونکہ اسے تو پہلے ہی پٹرول کسی نا کسی مد میں فری مل جاتا ہے ۔
طبقاتی نظام میں یہاں صرف پٹرول ہی میں نہیں بلکہ ہر چیز میں یہ تقسیم ڈال دی گئی ہے ۔( پٹرول کو میں نے اس لئے ہائی لائٹ کیا کیونکہ جب پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو ہر چیز میں یہ کہہ کر دو گنا زیادہ اضافہ کر دیا جاتا ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھ گئی ہے ۔)
یہ جو پچھلے 76 سالوں سے طبقاتی نظام چل رہا ہے اب اس کو ختم ہونا چاہیے ۔ اور یہ ختم اسی صورت میں ہو گا جب نچلے طبقے میں شعور کا فقدان ختم ہو گا اور اس بات کا شعور آئے گا کہ ہم کسی کے غلام نہیں ہم ہر چیز پہ ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔اور حکومت ہم سے جو ٹیکس لیتی ہے اس کا استعمال کہاں کہاں کرتی ہے ۔ کیا وہ ٹیکس عوام کی فلاح وبہبود کے لئے استعمال ہو رہا ہے یا اشرافیہ اس ٹیکس کو اپنی عیاشیوں کی نظر کر رہے ہیں ۔
جب تک عوام میں اس بات کا شعور نہیں آتا غریب، غریب سے غریب تر ہوتا چلا جائے گا اور امیر، امیر سے امیر تر ہوتا رہے گا ۔عوام کو اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا ہو گا کہ ہمیں اپنے حق کے لئے ملکی قوانین کو کیسے نافذ کروانا ہے ۔جب تک طبقات سے بالاتر ہو کر قوانین کا نفاذ عمل میں نہیں لایا جاتا اس وقت تک یہ سب نہیں بدلے گا ۔ لہٰذا سوچ کو بدلو تو نظام بدلے گا ۔نظام بدلے گا تو انسان کی تقدیر بدلے گی !
—♦—
سفینہ حسن سماجی، سیاسی اور عوامی مسائل پر لکھتی رہتی ہیں، ان کا تعلق لاہور سے ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی مزدور تحریک اور ترقی پسند سیاست سے بھی منسلک ہیں۔