اُردو ترجمہ: محمود انجم
میں نے اپنے پچھلے بلاگ میں لکھا تھا کہ ملائیشیا، برونائی، انڈونیشیا اور سنگاپور سمیت جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک جنہوں نے اپنی سیاسی، سماجی اور اقتصادی تعمیر نو میں سیاسی قوم پرستی (بھومی پترا) کا سہارا لیا، اس سلوگن نے انہیں ایک مضبوط معاشی بنياد فراہم کرنے میں مدد کی جس کے باعث آج یہ ممالک کچھ معاشی طاقت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ میں جوہی کے ان چند افراد میں سے ایک ہوں جنہوں نے اپنے شہر کی خوشحالی اور ویرانی دیکھی ہے۔
جارج آرویل کہا کرتے تھے کہ وہ بڑے شہر کی بجائے گاؤں یا چھوٹے قصبے میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، مجھ جیسے شخص کے لیے اورول کی طرح میرا شہر قدرت کا ایک شاندار تحفہ تھا جس میں میں نے اپنی زندگی کے کچھ بے حد قیمتی دن گزارے۔ کیونکہ میں نے اس میں انسانی فطرت کی وہ تمام چیزیں دیکھیں جو آج بھی میری یادوں سے وابستہ ہیں۔
کھلے راستے، جانی پہچانی گلیاں، پھلوں سے بھرے باغات، پکی دوستیاں، پرندوں کے گھونسلے، دودھ اور مکھن، یعنی وہ سب کچھ جو زندگی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بعد اس شہر پر ریاستی اور مقامی جابروں نے یلغار کر ڈالی، اس کے بعد یہ نہ گاؤں رہا نہ شہر۔
ہم میں سے بہت سے لوگ روزگار کی وجہ سے شہر چھوڑ گئے تو ان کی جگہ بہت سے نئے لوگ شہر میں آکر آباد ہوئے، درحقیقت لوگوں میں نقل مکانی کی روایت جتنی پرانی ہے، اتنی ہی اس میں نئے رشتوں کو جنم دینے کی صلاحیت بھی ہے۔ ریاست اگر انسانی رشتے نبھانے کی حامی ہو اور ایماندار بھی۔
مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر نے سنگاپور کی ترقی کی بنیاد بتاتے ہوئے کہا کہ ہم نے سنگاپور میں ہر درخت، ہر نندي ہر انسان کی حفاظت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہی وہ سب ہیں جنہوں نے ہم میں زندہ رہنے کی طاقت پیدا کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سنگاپور کے پبلک سیکٹر کی ہر وزارت بشمول پانی، بجلی، ماحولیات، جنگلات، معدنی وسائل، پہاڑی سلسلے، زبان، ثقافت اور منصوبہ بندی کے شعبوں میں علیحدہ علیحدہ اپنے اپنے اداروں میں تحقیق کے لیئے گروپ تشکیل دیئے ہیں جو کہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے شعبے کے بارے میں غور و فکر میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ اپنے طریقوں سے عوامی سطح پر معلومات اکٹھی کرتے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر اس پر بحث کرتے ہیں، حل تجویز کرتے ہیں اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو درپیش چیلنج اور مستقبل کے مسائل کے لیے خود کو تیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کے مطابق یہ تجربہ ان کی زندگیوں میں بنیادی تبدیلیاں لانے میں کارگر ثابت ہوا ہے۔
مجھے یہ سب دیکھنے سے تجربہ ہوا کہ ان ممالک کے لوگوں نے اپنے ایک ایک درخت کی حفاظت کی ہے کیونکہ اس ريجن کی خاک آلود چکنی مٹی، جھاڑیاں، پتھریلی زمین میں کیل کا کام کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ نہ صرف یہ پورا علاقہ، ملائیشیا سے لے کر سنگاپور، برونائی سے تائیوان بلکہ ویتنام تک مضبوطی سے جما کھڑا ہے.
گھنے جنگلات کی وجہ سے یہاں کل بارش 114.5 انچ سالانہ ہے جو کہ کسی بھی براعظم کے ممالک میں اوسط مقابلے میں دوگنی سے زیادہ ہے۔ بارش کے اس شدید دباؤ کے باوجود ان ممالک میں کسی بھی منصوبے پر کام شروع کرنے سے پہلے پانی کی نکاسی کا انتظام کرتے ہیں، انہوں نے اپنی ندیوں کو صاف ستھرا رکھا اس کے باوجود کہ وہ زمین کو چھوئے بغیر پانی کے اوپر بستے ہیں۔
میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جب انہوں نے بھومی پترا کا نعرہ بلند کیا تو اس کا استقبال تمام طبقوں کے لوگوں نے کیا، مثال کے طور پر ملیشیا ایک کثیر النسل اور کثیر الثقافتی ملک ہے، جس میں مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی اور ہندو بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ لیکن اس ملک میں کبھی کوئی مذہبی تنازعہ نہیں ہوتا۔
برونائی بادشاہ کے زیرانتظام ایک مسلم مملکت ہے، لیکن بلدیاتی اداروں پر مشتمل میونسپلٹی کا نظام جو کہ مقامی لوگوں پر مشتمل ہے، اتنا مضبوط اور جمہوری ہے کہ اس کے بغیر بادشاہت کچھ بھی نہیں، مختصر یہ کہ انسانی معاشرے تب ترقی یافتہ اور خوشحال ہوتے ہیں جب آپ اپنے لیے جو حقوق تجویز کررہے ہوتے ہیں وہی دوسروں کے لیے بھی مساوی اور یکساں ہوں۔
اگر زندگی کی وہ ضروریات جو آرام، تعلیم، صحت اور دیگر لوازمات پر مشتمل ہیں اپنے لیے متعین کرتے ہو لیکن سب کے لیئے نہیں کرتے تو انسانی فلاح کا نظام کبھی بھی قائم نہیں ہو سکتا۔
مختصر یہ کہ (حکومت پاکستان ) عوامی بہبود کے لیئے تحقیقی گروپوں کی تشکیل پر یقین نہیں رکھتی نہ ہی اسے اس میں کوئی دلچسپی ہے، اس ریاست کا پورا بیانیہ مقامی وسائل اور بھومی پترا کی سماجی و سیاسی ثقافتی حیثیت اور شناخت کو تباہ کرنا ہے۔
اس کے لیے کینجھر، کارونجھر، میانی جنگل، تھر کا صحرا، کیرتھر، مور، تلور، سندھ، بلوچستان اور جو لوگ بھومی پترا ہیں، کوئی معنی نہیں رکھتے۔ یہ ریاست گماشتوں کا وہ ٹولہ ہے جو باری باری سے بہنے والی گنگا اشنان کر رہے ہیں۔ وہ یہ ڈرامہ کرتے رہتے ہیں تاکہ انتخابات کروا کر مغرب کو مطمئن کر سکیں کیونکہ وہ عوام کے نہیں بلکہ مغرب کے خادم ہیں۔
—♦—
جواب دیں جواب منسوخ کریں
اُردو ترجمہ: محمود انجم
میں نے اپنے پچھلے بلاگ میں لکھا تھا کہ ملائیشیا، برونائی، انڈونیشیا اور سنگاپور سمیت جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک جنہوں نے اپنی سیاسی، سماجی اور اقتصادی تعمیر نو میں سیاسی قوم پرستی (بھومی پترا) کا سہارا لیا، اس سلوگن نے انہیں ایک مضبوط معاشی بنياد فراہم کرنے میں مدد کی جس کے باعث آج یہ ممالک کچھ معاشی طاقت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ میں جوہی کے ان چند افراد میں سے ایک ہوں جنہوں نے اپنے شہر کی خوشحالی اور ویرانی دیکھی ہے۔
جارج آرویل کہا کرتے تھے کہ وہ بڑے شہر کی بجائے گاؤں یا چھوٹے قصبے میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، مجھ جیسے شخص کے لیے اورول کی طرح میرا شہر قدرت کا ایک شاندار تحفہ تھا جس میں میں نے اپنی زندگی کے کچھ بے حد قیمتی دن گزارے۔ کیونکہ میں نے اس میں انسانی فطرت کی وہ تمام چیزیں دیکھیں جو آج بھی میری یادوں سے وابستہ ہیں۔
کھلے راستے، جانی پہچانی گلیاں، پھلوں سے بھرے باغات، پکی دوستیاں، پرندوں کے گھونسلے، دودھ اور مکھن، یعنی وہ سب کچھ جو زندگی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بعد اس شہر پر ریاستی اور مقامی جابروں نے یلغار کر ڈالی، اس کے بعد یہ نہ گاؤں رہا نہ شہر۔
ہم میں سے بہت سے لوگ روزگار کی وجہ سے شہر چھوڑ گئے تو ان کی جگہ بہت سے نئے لوگ شہر میں آکر آباد ہوئے، درحقیقت لوگوں میں نقل مکانی کی روایت جتنی پرانی ہے، اتنی ہی اس میں نئے رشتوں کو جنم دینے کی صلاحیت بھی ہے۔ ریاست اگر انسانی رشتے نبھانے کی حامی ہو اور ایماندار بھی۔
مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر نے سنگاپور کی ترقی کی بنیاد بتاتے ہوئے کہا کہ ہم نے سنگاپور میں ہر درخت، ہر نندي ہر انسان کی حفاظت اس بنیاد پر کی ہے کہ یہی وہ سب ہیں جنہوں نے ہم میں زندہ رہنے کی طاقت پیدا کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سنگاپور کے پبلک سیکٹر کی ہر وزارت بشمول پانی، بجلی، ماحولیات، جنگلات، معدنی وسائل، پہاڑی سلسلے، زبان، ثقافت اور منصوبہ بندی کے شعبوں میں علیحدہ علیحدہ اپنے اپنے اداروں میں تحقیق کے لیئے گروپ تشکیل دیئے ہیں جو کہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے شعبے کے بارے میں غور و فکر میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ اپنے طریقوں سے عوامی سطح پر معلومات اکٹھی کرتے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر اس پر بحث کرتے ہیں، حل تجویز کرتے ہیں اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو درپیش چیلنج اور مستقبل کے مسائل کے لیے خود کو تیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کے مطابق یہ تجربہ ان کی زندگیوں میں بنیادی تبدیلیاں لانے میں کارگر ثابت ہوا ہے۔
مجھے یہ سب دیکھنے سے تجربہ ہوا کہ ان ممالک کے لوگوں نے اپنے ایک ایک درخت کی حفاظت کی ہے کیونکہ اس ريجن کی خاک آلود چکنی مٹی، جھاڑیاں، پتھریلی زمین میں کیل کا کام کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ نہ صرف یہ پورا علاقہ، ملائیشیا سے لے کر سنگاپور، برونائی سے تائیوان بلکہ ویتنام تک مضبوطی سے جما کھڑا ہے.
گھنے جنگلات کی وجہ سے یہاں کل بارش 114.5 انچ سالانہ ہے جو کہ کسی بھی براعظم کے ممالک میں اوسط مقابلے میں دوگنی سے زیادہ ہے۔ بارش کے اس شدید دباؤ کے باوجود ان ممالک میں کسی بھی منصوبے پر کام شروع کرنے سے پہلے پانی کی نکاسی کا انتظام کرتے ہیں، انہوں نے اپنی ندیوں کو صاف ستھرا رکھا اس کے باوجود کہ وہ زمین کو چھوئے بغیر پانی کے اوپر بستے ہیں۔
میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جب انہوں نے بھومی پترا کا نعرہ بلند کیا تو اس کا استقبال تمام طبقوں کے لوگوں نے کیا، مثال کے طور پر ملیشیا ایک کثیر النسل اور کثیر الثقافتی ملک ہے، جس میں مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی اور ہندو بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ لیکن اس ملک میں کبھی کوئی مذہبی تنازعہ نہیں ہوتا۔
برونائی بادشاہ کے زیرانتظام ایک مسلم مملکت ہے، لیکن بلدیاتی اداروں پر مشتمل میونسپلٹی کا نظام جو کہ مقامی لوگوں پر مشتمل ہے، اتنا مضبوط اور جمہوری ہے کہ اس کے بغیر بادشاہت کچھ بھی نہیں، مختصر یہ کہ انسانی معاشرے تب ترقی یافتہ اور خوشحال ہوتے ہیں جب آپ اپنے لیے جو حقوق تجویز کررہے ہوتے ہیں وہی دوسروں کے لیے بھی مساوی اور یکساں ہوں۔
اگر زندگی کی وہ ضروریات جو آرام، تعلیم، صحت اور دیگر لوازمات پر مشتمل ہیں اپنے لیے متعین کرتے ہو لیکن سب کے لیئے نہیں کرتے تو انسانی فلاح کا نظام کبھی بھی قائم نہیں ہو سکتا۔
مختصر یہ کہ (حکومت پاکستان ) عوامی بہبود کے لیئے تحقیقی گروپوں کی تشکیل پر یقین نہیں رکھتی نہ ہی اسے اس میں کوئی دلچسپی ہے، اس ریاست کا پورا بیانیہ مقامی وسائل اور بھومی پترا کی سماجی و سیاسی ثقافتی حیثیت اور شناخت کو تباہ کرنا ہے۔
اس کے لیے کینجھر، کارونجھر، میانی جنگل، تھر کا صحرا، کیرتھر، مور، تلور، سندھ، بلوچستان اور جو لوگ بھومی پترا ہیں، کوئی معنی نہیں رکھتے۔ یہ ریاست گماشتوں کا وہ ٹولہ ہے جو باری باری سے بہنے والی گنگا اشنان کر رہے ہیں۔ وہ یہ ڈرامہ کرتے رہتے ہیں تاکہ انتخابات کروا کر مغرب کو مطمئن کر سکیں کیونکہ وہ عوام کے نہیں بلکہ مغرب کے خادم ہیں۔
—♦—