جنوب مشرقی ایشیاء کے لوگوں کی کہانیاں بھی عجیب ہیں، کچھ ہم جيسي اور کچھ ہم سے مختلف ۔ کچھ دن پہلے مجھے اس ريجن (منتظمین) کے بہت سے لوگوں سے بات کرنے کا موقع ملا جسے میں نے آپ کے ساتھ شیئر کرنا مناسب سمجھا۔
جنوبی مشرقی ایشیا بشمول ملائیشیا، برونائی، انڈونیشیا اور سنگاپور کے حروف تہجی سندھی سے مختلف ہیں، لیکن چونکہ اس کا رسم الخط عربی رسم الخط میں ہے، ایسا محسوس ہوگا کہ سندھی میں لکھا گیا ہے۔ درحقیقت مالائی زبان اپنی کلاسیکی شکل میں سنسکرت اور عربی ثقافتوں کا سنگم ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ یہ علاقے انگریزوں کی کالونی رہے، لیکن ثقافتی طور پر اس ثقافت نے خود کو سنسکرت اور عربی ثقافت سے جوڑ کر رکھا۔
اس خطے میں اسلام سب سے آخر میں آیا اس سے پہلے ہندو مت اور بُدھ مت کا ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک اثر رہ چکا تھا، وہ آج بھی اس ابتدائی ثقافت اور تہذیب پر فخر کرتے ہیں اور اسے محفوظ کر رہے ہیں۔
میں نے تاریخ کے کئی اُستادوں سے پوچھا کہ مالے کا ثقافتی ارتقاء کہاں سے شروع ہوا؟ تو انہوں نے فوراً جواب دیا افریقہ، میں نے سوچا کہ کیا ہم سب افریقی سرزمین کے بیٹے ہیں؟ میں یہاں اس کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا کیونکہ ہم سب اپنی بقاء کے سفر میں اپنی زمینی شناخت کھو دیتے ہیں۔ میں نے برونائی میں ایسی تبدیلی دیکھی ہے کہ کچھ خاندان جو سندھ سے آئے، ان کے بزرگ سندھی بول رہے تھے لیکن ان کے بچے مالے زبان بول رہے تھے، انہیں سندھی زبان کا کوئی علم نہیں تھا۔
انسانی ارتقاء یا انسانی فطرت میں تبدیلی کا عمل آج تک جاری ہے۔ اس لیے میری نظر میں ہم اپنی سرزمین کے بچے ہیں جہاں ہم ہیں۔
میں آپ سے ملائی لوگوں کی ایک اور نفسیات کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ملائی لوگ اپنے لوگوں کے لیے ایک لفظ بہت روانی سے استعمال کرتے ہیں، وہ ہے (بھومی پتر)۔اس کی بنیاد پر انھوں نے سماجی زندگی کے بے مثال تجربات کیے ہیں۔
ترقی کے سفر میں ملائیشیا، برونائی، انڈونیشیا، سنگاپور دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ ملائیشیا، برونائی، انڈونیشیا، سنگاپور دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے ہیں۔ "بھومی پتر” کی اصطلاح انہوں نے 1969 میں اس وقت استعمال کرنی شروع کی جب انہوں نے اپنی زمین پر چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو محسوس کیا۔ برونائی اب بھی ایک ایسی مملکت ہے جس نے اس سیاسی قوم پرستی میں نہ صرف خود کو محفوظ رکھا بلکہ اس کے خلاف چلنے والی تحریکوں سے بھی کامیابی کے ساتھ نمٹا۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان کی ریاست جو خود کے جمہوری ہونے کا دعویٰ کرتی ہے (Son of Soil کی بھومی پترا کے ساتھ کیسے مظالم روا رکھے ہیں، بلوچستان اور سندھ، اس کی ایک مثال ہیں) میرا بادشاہت سے زیادہ جمہوریت پر یقین ہے، لیکن، میں ایسی جمہوریت پر لعنت بھیجتا ہوں جو مقامی لوگوں کے وسائل کا استحصال کرتی ہے اور انہیں اپنی دھرتی سے نقل مکانی پر مجبور کرتی ہے۔
پاکستان اس وقت دنیا کے ظالم ترین اور غیر محفوظ ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ایک وجہ یہ ہے کہ اس ریاست نے اپنے شہریوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ اپنا رکھا ہے۔ ان کے سامنے بھومی پترا بے معنی ہی نہیں بلکہ ملک دشمن ـ غدار ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ریاست پاکستان اپنے موجودہ ڈھانچے میں ایک ناکام ریاست ہے اور جو ریاستیں غیر فطری ہیں وہ قدرتی طور پر گر جائیں گی یا ختم ہو جائیں گی۔میں بھومی پترا ہوں کیونکہ میں سندھی ہوں۔ ریاست پاکستان اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی اور یہ واحد غیر فطری چیز ہے جو اس کے زوال کا سبب بنے گی۔
—♦—
مصنف کے بارے
منظور تھہیم ترقی پسند ادیب ہیں۔ سندھی زبان میں آپ کے متعدد ناولز شائع ہوچکے ہیں۔ اور تسلسل کے ساتھ سماجی، معاشی ، سیاسی اور ثقافتی موضوعات پر مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں۔ آپ انجمن ترقی پسند مصنفین حیدرآباد کے بھی روحِ رواں ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
جنوب مشرقی ایشیاء کے لوگوں کی کہانیاں بھی عجیب ہیں، کچھ ہم جيسي اور کچھ ہم سے مختلف ۔ کچھ دن پہلے مجھے اس ريجن (منتظمین) کے بہت سے لوگوں سے بات کرنے کا موقع ملا جسے میں نے آپ کے ساتھ شیئر کرنا مناسب سمجھا۔
جنوبی مشرقی ایشیا بشمول ملائیشیا، برونائی، انڈونیشیا اور سنگاپور کے حروف تہجی سندھی سے مختلف ہیں، لیکن چونکہ اس کا رسم الخط عربی رسم الخط میں ہے، ایسا محسوس ہوگا کہ سندھی میں لکھا گیا ہے۔ درحقیقت مالائی زبان اپنی کلاسیکی شکل میں سنسکرت اور عربی ثقافتوں کا سنگم ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ یہ علاقے انگریزوں کی کالونی رہے، لیکن ثقافتی طور پر اس ثقافت نے خود کو سنسکرت اور عربی ثقافت سے جوڑ کر رکھا۔
اس خطے میں اسلام سب سے آخر میں آیا اس سے پہلے ہندو مت اور بُدھ مت کا ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک اثر رہ چکا تھا، وہ آج بھی اس ابتدائی ثقافت اور تہذیب پر فخر کرتے ہیں اور اسے محفوظ کر رہے ہیں۔
میں نے تاریخ کے کئی اُستادوں سے پوچھا کہ مالے کا ثقافتی ارتقاء کہاں سے شروع ہوا؟ تو انہوں نے فوراً جواب دیا افریقہ، میں نے سوچا کہ کیا ہم سب افریقی سرزمین کے بیٹے ہیں؟ میں یہاں اس کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا کیونکہ ہم سب اپنی بقاء کے سفر میں اپنی زمینی شناخت کھو دیتے ہیں۔ میں نے برونائی میں ایسی تبدیلی دیکھی ہے کہ کچھ خاندان جو سندھ سے آئے، ان کے بزرگ سندھی بول رہے تھے لیکن ان کے بچے مالے زبان بول رہے تھے، انہیں سندھی زبان کا کوئی علم نہیں تھا۔
انسانی ارتقاء یا انسانی فطرت میں تبدیلی کا عمل آج تک جاری ہے۔ اس لیے میری نظر میں ہم اپنی سرزمین کے بچے ہیں جہاں ہم ہیں۔
میں آپ سے ملائی لوگوں کی ایک اور نفسیات کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ملائی لوگ اپنے لوگوں کے لیے ایک لفظ بہت روانی سے استعمال کرتے ہیں، وہ ہے (بھومی پتر)۔اس کی بنیاد پر انھوں نے سماجی زندگی کے بے مثال تجربات کیے ہیں۔
ترقی کے سفر میں ملائیشیا، برونائی، انڈونیشیا، سنگاپور دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ ملائیشیا، برونائی، انڈونیشیا، سنگاپور دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے ہیں۔ "بھومی پتر” کی اصطلاح انہوں نے 1969 میں اس وقت استعمال کرنی شروع کی جب انہوں نے اپنی زمین پر چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو محسوس کیا۔ برونائی اب بھی ایک ایسی مملکت ہے جس نے اس سیاسی قوم پرستی میں نہ صرف خود کو محفوظ رکھا بلکہ اس کے خلاف چلنے والی تحریکوں سے بھی کامیابی کے ساتھ نمٹا۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان کی ریاست جو خود کے جمہوری ہونے کا دعویٰ کرتی ہے (Son of Soil کی بھومی پترا کے ساتھ کیسے مظالم روا رکھے ہیں، بلوچستان اور سندھ، اس کی ایک مثال ہیں) میرا بادشاہت سے زیادہ جمہوریت پر یقین ہے، لیکن، میں ایسی جمہوریت پر لعنت بھیجتا ہوں جو مقامی لوگوں کے وسائل کا استحصال کرتی ہے اور انہیں اپنی دھرتی سے نقل مکانی پر مجبور کرتی ہے۔
پاکستان اس وقت دنیا کے ظالم ترین اور غیر محفوظ ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ایک وجہ یہ ہے کہ اس ریاست نے اپنے شہریوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ اپنا رکھا ہے۔ ان کے سامنے بھومی پترا بے معنی ہی نہیں بلکہ ملک دشمن ـ غدار ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ریاست پاکستان اپنے موجودہ ڈھانچے میں ایک ناکام ریاست ہے اور جو ریاستیں غیر فطری ہیں وہ قدرتی طور پر گر جائیں گی یا ختم ہو جائیں گی۔میں بھومی پترا ہوں کیونکہ میں سندھی ہوں۔ ریاست پاکستان اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی اور یہ واحد غیر فطری چیز ہے جو اس کے زوال کا سبب بنے گی۔
—♦—
مصنف کے بارے
منظور تھہیم ترقی پسند ادیب ہیں۔ سندھی زبان میں آپ کے متعدد ناولز شائع ہوچکے ہیں۔ اور تسلسل کے ساتھ سماجی، معاشی ، سیاسی اور ثقافتی موضوعات پر مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں۔ آپ انجمن ترقی پسند مصنفین حیدرآباد کے بھی روحِ رواں ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT